• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گل و خار…سیمسن جاوید
جب بھی کوئی پاکستان سے خصوصاً یورپ اور ترقی یافتہ ممالک کے دورے پر آتا ہے اور اپنے گردونواح میں صفائی وستھرائی، پرامن اور مسکراتی زندگی، محبت سے سرشار لوگ، بات بات پہ Thank you or soryجیسے الفاظ سن کر حیرت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔یہاں کیا امیریا غریب سب کے گھر ایک جیسے ہوتے ہیں اورہر چیز میں قانون کی بالادستی اس ملک کے سسٹم میں رواں دواں دیکھ کر اْس کی زبان سے بے ساختہ نکلتا ہے کہ کاش پاکستان میں بھی ایسا ہوتا۔مگر جلد ہی اْسے یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ جو ملک صدیوں پیچھے ہو، جہاں کے لوگ دقیانوسی سوچ اور پرانے خیالات کے مالک ہوں، جہاں چھوٹی چھوٹی بات پر ایک دوسرے کا خون بہانے سے بھی دریغ نہ کریں، جہاں محافظ دہشت گردی کے شبہ میں بیگناہوں کو گولیوں سے چھلنی کردیں، ننھی کلیوں کو مسل دیں، معصوم بچوں کو یتیم کردیں، اپنے گناہ اور ظلم کو کسی بڑے کارنامے کا نام دینے کی کوشش کریں اور ملک کو چلانے والے اندوہناک واقعات کو معمول کے واقعات سے تشبیہہ دیں، عدل کی زنجیر کھینچنے والوں کو پابہِ زنجیر بنا دیا جاتا ہو، جہاں امن کی فاختہ لہو لہو ہو وہاں زندگی کانہیں درندگی کا راج ہوتا ہے۔پاکستان لاہور سے انگلینڈ آئی ہوئی ہماری صحافی بہن تہمینہ رانابے شمار خوبیوں کی مالک ہیں۔ صحافت کے علاوہ قومی امن اور بین المذاہب ہم آہنگی کی چیئرپرسن بھی ہیں۔ مذہبی علوم سے بخوبی واقف ہیں۔ ان کے ذاتی مذہب کا اندازہ لگانا مشکل ہے کیونکہ انسانیت اْس کا سب سے بڑا مذہب ہے۔ لندن،نیو کاسل اور انگلینڈ کے مختلف شہروں کے گْردواروں، مندروں، چرچز،مسلم کمیونٹی اور کامن ہاؤس لندن میں اپنےا عزاز میں منعقدہ مختلف تقریبات میں وہ پاکستان کا نام روشن کرنے موجود ہیں۔ حکومت ہندوستان سے بہتر تعلقات استوار کرنے، مذہبی اقلیتوں کی بہتری کے لئے اٹھائے جانے والے اقدامات کا برملا ذکر کرنے اور بین المذاہب میں ہم آہنگی اور غیر سگالی تعلقات کا پیغام دینے کے لئے دن رات کوشاں ہیں۔مگر دبے لفظوں میں اسکی خواہش اسکے لبوں پر آ ہی جاتی ہے۔کاش ہمارا پاکستان بھی ان ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہو جائے یہاں سے پڑھ لکھ کر جانے والے لوگ اور آئے روز آنے والی پاکستانی سیاسی اور مذہبی لیڈرشپ خود غرضی کا لبادہ اتار کر پاکستان کو پْر سکون، پْر امن اور ترقی یافتہ بنانے کے لئے کوشاں ہوں، مگریہ خواب کب پوراہو گا؟ آج کل تہمینہ رانا اپنے ملک کی لیڈر شپ کی کمزور پالیسیوں اور پے در پے لئے جانے والے یو ٹرن سے بہت خائف ہیں۔ ملک کی صورتحال سے جلد ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے۔کبھی کبھی تو وہ جھانسی کی رانی کا روپ دار لیتی ہیں کہ وہ کیسے پاکستانی معاشرے اور سیاست میں پائے جانے والے تمام مکروفریب اور جہالت پھیلانے والے فوبیا زدہ لوگوں کو اپنے قلم و زبان سے تہہ و بالا کر دیں۔ گزشتہ روز ہم تہمینہ رانا کے ساتھ نیوکاسل کے گردوارے میں موجودتھے۔ تہمینہ رانا کا مذہبی شخصات کے علاوہ سکھ کمیونٹی نے پْر تپاک استقبال کیا اور اْنہیں دعوت اظہار دینے کے علاوہ سروپا بھی پیش کیا گیا۔میں محو حیرت تھا کہ اْس کے کسی بھی جملے سے مسلک اور مذہب ظاہر نہیں ہو سکا۔اْس نے نہ صرف انسانیت کا درس دیا بلکہ پاکستان کی موجودہ حکومت نے جو سکھ کمیونٹی کے گردواروں کے سیواسنبھال اورسکھ یاتریوں کے لئے کئے گئے اقدام کو بیان کیا۔ بعد ازیں گردوارے کی انتظامیہ نے وزیراعظم عمران خان کو اپنے محبت بھرے پیغامات اور کرتارپور راہداری کھولنے پر شکریہ بھی ادا کیا۔ تمام سکھ کمیونٹی ان کے گرد اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے جمع ہوگئی۔ایک دوسری تقریب میں ہم ایشین چرچ میں مدعو تھے۔ ہر پاکستانی بشر تہمینہ رانا سے سانحہ ساہیوال کے بارے میں وضاحت سے پوچھ رہا تھا کہ کیا واقعی یہ لوگ داعش کے دہشت گرد تھے۔کیا سی ٹی ڈی کے جیالے جو رنگ برنگے کپڑوں میں ملبوث تھے۔انہیں گولیوں سے چھلنی کرنے کی بجائے انہیں زندہ گرفتار نہیں کر سکتے تھے۔معصوم بچوں کا کیا قصور تھا۔ جو انہیں یتیم کر دیا گیا۔اِس تکلیف دے موقع کے بعد پنجاب کے گورنر سرور چوہدری کی جانب سے غیر ذمہ دارانہ بیان جاری کر دینے سے حالات میں مزید تلخی پیدا کر دی۔ جس پر نہ صرف پاکستان بلکہ تمام دنیا میں مقیم پاکستانیوں نے شدیدغم و غصہ کا اظہار کیا۔ یہاں تک کہ گلاسگو جہاں سے سرور چوہدری کا تعلق ہے بہت سے لوگوں نے ان کے اس بیان پر شدید ردعمل کا اظہار کیا کہ وہ ایک بزرگ سیاسی رہنما ہیں ان سے ایسی توقع ہر گز نہ تھی۔ رات جب ہم گھر پہنچے تو تہمینہ رانا نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں اس اندوہناک واقعہ کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اگر سی ٹی ڈی کو ایجنسیوں نے اطلاع دی تھی کہ اس کار میں دہشت گرد تھے تو انہوں نے انہیں زندہ گرفتار کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی ۔کار کے ٹائربھی برسٹ کئے جا سکتے تھے۔اندھا دھند گولیاں اْس وقت چلائی جاتیں اگر وہ مزاحمت کرتے۔ الٹا سی ٹی ڈی نے غلط بیانی کرکے خود کو سچا ثابت کرنے کی کوشش کی۔ بچ جانے والے معصوم بچے نے بتایا کہ پاپا نے کہا تھا کہ مجھ سے پیسے لے لو مجھے گولی مت مارو۔ مگر انہوں نے یہ کارنامہ کرکے خود کو ہیرو ثابت کرنے کی کوشش کی۔ پاکستانی قوم تاحال اس صدمے سے نکلنے کو تیار نہیں کیونکہ نہ تو پولیس کا نظام بدلنے کی امید ہے اور نہ ہی حکومتِ وقت سے انصاف کی توقع ہے۔ نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی۔
تازہ ترین