• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی، فوجی و عدالتی قیادت کے سربراہی اجلاس کی تجویز

میں بار بار دو ننھی بہنوں اور ایک بھائی کی تصویریں دیکھتا ہوں۔ذہن کے پردے پر یہ زخم زخم معصومیت ثبت ہوگئی ہے۔یہ تین زندہ مجسمے ہیں۔ جو ہمارے حال اور ماضی کی سفاکیوں کی گواہی دے رہے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں منجمد بے بسی ان کے چہروں پر لکھی بے کسی ہمارا مستقبل بیان کررہی ہے۔

انسان اللہ تعالیٰ کا نائب ہے جو زمین پر درد دل بانٹنے کے لئےبھیجا گیا ہے۔ مہذّب دنیا میں انسان پر تحقیق ہر قانون سازی کا محور و مرکز ہوتا ہے۔ زندگی اللہ تعالیٰ کا سب سے قیمتی تحفہ ہے۔ اس پر ایک خراش ایک معمولی زخم ڈالنے سے پہلے ہزار مرتبہ سوچا جاتا ہے۔ دانش مند انسانوں، پیغمبروں، مختلف مذاہب نے انسانی جان کی حفاظت کے لئےحدود و قیود مقرر کر رکھی ہیں۔ مملکت بھی ان جیتے جاگتے انسانوں سے معاہدہ کرتی ہے۔ ان کی جان مال کے تحفظ کے لئے انسانوں میں سے ہی محافظ مقرر کئے جاتے ہیں۔ ان کی وردیاں‘ امان و حفاظت کی علامت ہوتی ہیں۔ یہ وردیاں صدیوں کی سوچوں اور مباحثوں کے بعد وجود میں لائی گئیں۔ وردی پہننے والا ہر انسان امانت کے بوجھ تلے دبا ہوتا ہے لیکن ساہیوال جیسے واقعات کے بعد پاکستان میں یہ وردیاں دہشت، خوف اور عدم تحفظ کی علامت بن جاتی ہیں۔

مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ ٹیم کچھ بھی ہو۔ جانے والے تو واپس نہیں آئیں گے۔ یہ تین بہن بھائی تو بے سہارا ہی رہیں گے۔ ان کی یتیمی تو ختم نہیں ہوگی۔ یہ سوچ سوچ کر سانسیں پھول جاتی ہیں کہ یہ تین پاکستانی‘ ہمارے مستقبل کے معمار ہر سانس ایک دہشت، سفاکی اور لاچارگی کے ساتھ لیں گے۔

آج جس بے امانی اور عدم تحفظ کے سمندر میں ہم ہاتھ پائوں مار رہے ہیں یہ ہماری 72سال کی غیر ذمہ داریوں اور مستقبل کے لئے لاپروائیوں کا نتیجہ ہے۔ یہ ہمارے سیاسی اور فوجی دونوں حکمرانوں کی خراب حکمرانی کا کڑوا پھل ہے۔اب مقابلہ جمہوریت اور آمریت کا نہیں ہے۔ اچھی اور خراب حکمرانی کا ہے۔ ایسے میں نئے چیف جسٹس کی جانب سے ’میثاق حکمرانی‘ کی تجویز، ایک نوید، ایک بشارت اور ایک تیر بہدف نسخہ ہے۔ وہ پاکستانی جو ہر لمحہ وطن عزیز کے درد سے سرشار رہتے ہیں۔ جن کی نظر ماضی کے سانحوں، المیوں اور غلط فیصلوں پر ہے جو پاکستان کے قیام کےلئے 20لاکھ شہیدوں کے لہو کی سرخی کو یاد رکھتے ہیں، جن کو ان شہدا کی جرأت کا احترام ہے۔ جو استحکامِ پاکستان اور جمہوریت کی بحالی کے لئے جانیں نثار کرگئے، جنہیں سرحدوں پر وطن عزیز کی سلامتی کے لئے جان کا نذرانہ دینے والوں کی قربانیوں کا احساس ہے۔جنہیں بلوچستان، سندھ اور کراچی میں لاپتا نوجوانوں کی مائوں کے آنسو پریشان رکھتے ہیں۔ جنہیں فاٹا اور کے پی میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دہری فائرنگ کا نشانہ بننے والوں کی قدر ہے۔ جنہیں آزاد جموں و کشمیر میں بھارتی فائرنگ سے شہید ہونے والوں کا خیال ہے۔ جنہیں گلگت بلتستان میں اپنے حقوق کے حصول کی خاطر قربانیوں کا قلق ہے۔ جنہیں غربت کی لکیر سے نیچے جانے والے کروڑوں ہم وطنوں کا درد ہے۔ جنہیں قبضہ گروپوں کی لا محدود سفاکی کا اندازہ ہے۔ یہ تجویز ان سب کے دل کی آواز ہے۔

کئی دہائیوں سے انصاف کی منزلوں کے لئے گامزن منصف سے زیادہ آئین، قانون، تہذیب و تمدّن اور تاریخ سے کون واقف ہوگا۔ ان کی ایک ایک سطر بے کسوں اور بے بسوں کے غم میں ڈوبی ہوئی ہے ۔ انہیں بھرپور احساس ہے کہ ہمارا معاشرہ کن امراض میں مبتلا ہے۔ وہ عارضی و عبوری علاج تجویز نہیں کررہے۔ کیونکہ ایسے وقتی نسخے کئی بار آزمائے گئے ہیں۔ یہ ملک بھی مخصوص حالات میں قائم ہوا تھا۔ اس کی جغرافیائی حدود بھی مخصوص تھیں۔ اس کی تاریخ کو قیام سے پہلے بھی، عام ملکوں سے مختلف اور قیام کے بعد بھی غیر معمولی حالات سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ جاگیرداروں۔ نوابوں۔ سرداروں۔ آمروں۔ ججوں۔ مذہبی رہنمائوں اور تاجروں صنعتکاروں نے یہاں ہر قسم کے من مانے تجربے کئے ہیں۔ ان سب وارداتوں کے نتیجے میں ایک عجیب و غریب سماج نے جنم لیا ہے جہاں سب کچھ ہے، اچھی حکمرانی نہیں ہے۔ کیونکہ کوئی بھی اسے اپنے فائدے میں نہیں سمجھتا۔ ایسے میں جب یہ آواز آتی ہے’’ہمیں ماضی میں کی گئی غلطیوں کا جائزہ لینا چاہئے۔ اور ایک میثاق حکمرانی لے کر آئیں تاکہ مستقبل میں ایسی غلطیاں نہ دہرائیں۔ میری تجویز یہ ہوگی کہ اس سربراہی اجلاس میں تمام اعلیٰ پارلیمانی ، اعلیٰ عدالتی اور اعلیٰ انتظامی قیادت بشمول فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیاں شرکت کریں۔صدرِ پاکستان کی سرپرستی میں قومی حکمرانی کے سب بڑے ذمہ داروں کو ایک میز پر جمع کرنے کے بعد اس مجوزہ اقدام کے ذریعے کوشش کی جائے کہ ماضی کے زخم مندمل ہوں۔ تکلیف دہ معاملات پر بھرپور توجہ دے کر ایسا قابلِ عمل پالیسی ڈھانچہ تشکیل دیا جائے جس کے تحت مملکت کا ہر ادارہ، ہر بازو اپنے اختیارات اور اپنی کارکردگی آئین میں متعین کردہ حدود کے اندر ادا کرے‘‘۔

ایک ایک حرف اور ایک ایک اصطلاح غور طلب ہے۔ میں نے تو 1977ء میں پاکستان کی گولڈن جوبلی کے موقع پر بھی کچھ ایسے ہی خواب کا اظہار کیا تھا۔ لیکن ہمارے ہاں جمہوریت کے معزز دعویداروں کی طرف سے فوج کی شرکت پر اعتراض کیا جاتا ہے۔ پارلیمنٹ کی بالادستی کا نعرہ بلند کیا جاتا ہے۔یہ تجربے بار بار ہوچکے ہیں۔ پھر بھی مارشل لابار بار لگتے رہے ہیں۔ جمہوری سیاسی حکومتیں بھی پاکستان کو ایک مہذّب ذمہ دار مملکت بنانے میں ناکام رہی ہیں۔ معیشت کو مستحکم نہیں کیا جاسکا۔ سیاست دان اور کرپشن لازم و ملزوم ہوگئے ہیں۔ سیاست دان ایک دوسرے پر غیر سیاسی قوتوں کی کٹھ پتلی ہونے کے الزامات عائد کرتے ہیں ۔ موجودہ وزیر اعظم کو Electedکے بجائے Selectedکہا جارہا ہے۔ اقتدار کا توازن ہمیشہ بگڑا رہتا ہے۔ پاکستان واحد ملک ہے جہاں غیر ملکی سربراہ وزرائے خارجہ یا جنرل، سیاسی قیادت سے الگ ملتے ہیں فوجی قیادت سے الگ۔ اندرونِ ملک اور عالمی سطح پر پاکستان میں دہری قیادت کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ 1988 سے شروع ہوا ہے۔ پہلے قیادت ایک ہی ہوتی تھی اور جب آرمی چیف ہی ملک کا سربراہ ہوتا ہے تب بھی قیادت ایک ہی ہوتی ہے۔ یہ حقائق تلخ سہی مگر زمینی حقائق ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دَور میں عالمی بینک کی سربراہ خاتون نے تو واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ فوجی حکومت میں ہمیں آسانی ہوتی ہے کہ ایک ہی قیادت سے بات ہوتی ہے اور اس پر عمل بھی ہوجاتا ہے۔ ہمیں مختلف دروازوں پر دستک نہیں دینا پڑتی۔

ہمیں یہ تسلیم کرلینا چاہئے کہ فوجی ادارہ مملکت پاکستان کے ذمہ داروں(Stake Holders) میں سے ایک اہم حصّے دار ہے۔پاکستان میں ہم سب مل کر ایسا جمہوری ماحول قائم نہیں کرسکے۔ جہاں پارلیمنٹ حقیقت میں بالادست ہو۔ اس کے لئے پارلیمنٹ کو جتنا باشعور ۔ ذمہ دار اور مسائل سے با خبر ہونا چاہئے ویسی پارلیمنٹ ہم 72سال میں نہیں لاسکے۔ان کمزوریوں کی ذمہ داری عام طور پر فوج پر ڈال دی جاتی ہے۔ لیکن خود سیاسی قیادت میرٹ سے دور ہوتی ہے۔ بھائی بہنوں کو بیٹوں کو اعلیٰ عہدے دئیے جاتے ہیں۔ سرکاری مراعات استعمال کرنے دی جاتی ہیں۔کلیدی عہدوں پر مطلوبہ اہلیت رکھنے والوں کا تقر ر نہیں کیا جاتا۔

یہ مقام شکر ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کو یہ احساس ہے کہ پاکستان وہاں نہیں ہے جہاں ہونا چاہئے۔ ہم مہذّب جمہوری ترقی یافتہ ملکوں سے کم از کم 50سال پیچھے ہیں۔ ملک کے اصل مالکوں یعنی عوام کی زندگی بہت مشکل ہے۔ دیگر ممالک میں زندگی جتنی آسان بنائی گئی ہے ہم اس کا تصوّر نہیں کرسکتے۔ یہ غلطیاں سیاست دانوں نے بھی کی ہیں فوجی حکمرانوں نے بھی۔ مذہبی رہنمائوں نے بھی۔ اور تاجروں صنعت کاروں نے بھی۔ ان سب کو یہ احساس بھی ہے اس لئے یہ بہت موزوں وقت ہے کہ چیف جسٹس کی اس تجویز پر سنجیدگی سے غور کیا جائے اور اسے حقیقت میں ڈھالا جائے۔ تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ جب کسی قوم کے ذمہ داروں نے اس طرح اکٹھے بیٹھ کر ماضی کو کھنگالا ۔ حال کا جائزہ لیا تو مستقبل کی مضبوط بنیاد رکھی گئی۔ قانون کے یکساں نفاذ کے لئے قانون کے سب رکھوالوں کا ایک جگہ جمع ہونا۔ اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنا ۔ پرانے زخم مندمل کرنا۔ ملک کے ہر علاقے کے رستے زخموں کو دیکھنا وقت کا تقاضا ہے۔ چیف جسٹس کا یہ جملہ قول فیصل ہے۔’’ سویلین بالادستی اور ساتھ ساتھ سویلین جواب دہی دونوں پائیدار جمہوریت کے لئے ناگزیر ہیں۔‘‘

چیف جسٹس کی اس تجویز پر پارلیمنٹ میں بحث ہوسکتی ہے۔ عوام کی رائے بھی لی جاسکتی ہے۔ حکمرانی کے سارے ادارے اس کھلی بحث اور سربراہی اجلاس کے بعد یقیناً اپنے اپنے دائرہ اختیار میں کام کرنے پر مجبور ہوں گے۔

(کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ کوئی اس کا مدلل جواب دینا چاہے تو خیرمقدم کیا جائے گا)

تازہ ترین