• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

منی بجٹ سرمایہ کاری ،صنعت اور برآمد کو بڑھانے کیلئے ریفارم پیکیج تھا،حماد اظہر

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ’’کیپٹل ٹاک‘‘میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر مملکت برائے ریونیوحماد اظہرکا کہنا تھا کہ منی بجٹ کے خدوخال دیکھے جائیں تو بنیادی طور پر سرمایہ کاری ،انڈسٹری اور ایکسپورٹ کو بڑھانے کے لئے ریفارم پیکج تھابہت سے قانون ہیں جو سرمایہ کاری کا گلہ گھونٹ رہے ہیں ان سب کو ایڈریس کرنے کے لئے بے شمار ٹیکس ریلیف دینے کے لئے کیا گیا۔ یہ بنیادی طور پر سپلمینٹری فنانس بل کہلاتا ہے میں سمجھتا ہوں پہلی دفعہ اتنا فرینڈلی بجٹ آیا ہوگا ۔ن لیگ کے رہنما خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ آج ہمیں جو قومی اسمبلی میں دیا گیا اس کے اوپر لکھا ہے ضمنی بجٹ تقریر مجھے نہیں معلوم حکومت کیوں نہیں مان رہی۔ ڈوبتی معیشت پر ایسے چھوٹے موٹے اقدامات کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔پیپلز پارٹی کے رہنمانوید قمر کا کہنا ہے کہ ہمارا بنیادی مسائل لومنگ فیسکل ڈیفسٹ اور کرنٹ اکاؤنٹ ڈیفسٹ ہے اس بات کو رہنے ہی دیجئے کہ سو تھینکرز کی فہرست میں امریکا کیوں اُن کو دیکھنا چاہتا ہے اور اس پر کیا کام اُن سے لینا چاہتا ہے ۔اگر آپ نے آمدنی بڑھانے کا کوئی ذریعہ نہیں بنایا تو پھر آپ فیسکل ڈیفسٹ کو ایڈریس نہیں کر رہے فیسکل ڈیفسٹ سے ہی ہمارا اگلہ جو مسئلہ ہے افراط زر کا ہے وہ اس سے انٹرلنک ہے اُس کے بعد مسئلہ ہے ڈیڈ کرائسیس کا آپ نے آنے کے بعد قرضہ لینے کے بعد اور کچھ نہیں کیا ۔نوید قمر کا کہنا تھا کہ زرعی معاملات ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔حماد اظہر نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ اگر میری کوئی آف شور پراپرٹی نکلتی ہے تو میری اوپر دو قانونی ذمہ داریاں کریٹ ہوتی ہیں ایک ہوگی نارمل کریمنل پروسیجر کا قانون ہے کہ منی ٹریل جو ہے وہ اس کی اسٹیبلش ہے یہ ایف بی آر میں نہیں آتا یہ آتا ایف ایم یو کے اندر دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ یہ پراپرٹی جو ڈکلیئر ہے یہ ٹیکسڈ ہے ڈکلیئرڈ ہے یا نہیں ہے جب ہم بجٹ کی بات کرتے ہیں تو ایف بی آر کے قوانین کو منی بل کے ذریعے ہم ایڈریس کر رہے ہیں جو دوسری ذمہ داریاں جو ایف آئی اے کے پاس ہیں ایم یو کے پاس ہیں وہ اپنی جگہ پر موجود ہیں لیکن جو ایف بی آر کا قانون ہے اس کے اندر اس کو مزید اضافہ کر دیا گیا ہے اس حوالے سے خرم دستگیر بالکل غلط فرما رہے ہیں۔میرا اس پر اختلاف ہے جو چیز ایف بی آر کے کاغذ میں آئی نہیں تھی اس میں کہاں سختی ہوگئی۔خرم دستگیر کا مزید کہنا ہے کہ ڈوبتی معیشت پر ایسے چھوٹے موٹے اقدامات کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ بجلی اورگیس کی قیمتیں بڑھا دی گئیں روپے کی قدر کو گرایا گیا انہوں نے بینک بورینگ کی دس فیصد ڈسکاؤنٹ ریٹ بڑھا دیا گیا اب یہ سوچتے ہیں یہ سارے اقدامات کر کے ڈوبتی معیشت کو بچا لیا جائے گا ۔ جتنی بھی اقدامات ہیں اُن کا اطلاق جولائی سے شروع ہوگا چھ مہینے پہلے ہی انہوں نے ٹیکس اقدامات کا اعلان کر دیا ۔ مسلم لیگ نون کی حکومت نے اسی دوران پچھلے سال جو چھ مہینے تھے جولائی دسمبر 288 ارب روپے کے نوٹ چھاپے تھے اب صورتحال یہ ہے کہ سارا ملبہ ہم پر ڈال دیتے ہیں ۔ یہ مخمصے کا شکار ہیں نان فائلر پر گاڑیوں کی رجسٹریشن کی مد میں عائد ودھ ہولڈنگ ٹیکس کی موجودہ شرح میں پچاس فیصد اضافے کی تجویز دی گئی ہے یہ ان کو سمجھ نہیں آرہی جب وہ رجسٹرڈ کرانے جائے گا تو اُس کی فیس بڑھا دی ہے ۔ مراعات بینکوں کو ملی ہیں جو زرعی قرضے کی مراعات ہیں وہ کسان کو نہیں ملی ہے ۔حماد اظہر کا مزید کہنا ہے کہ یہ دعویٰ کر رہے ہیں 288 ارب ہم نے لیا اسٹیٹ بینک کی بورئنگ ہوتی ہے وہ پچھلی ڈیڈ ریٹائر کرنے کے لئے ہوتی ہے یعنی عین ممکن ہے جو اگلہ کوارٹر ہے وہ اتنی ہی نیچے چلی جائے جتنی فریش بورئنگ ہو رہی ہوتی ہے وہ پرانے قرضے ریٹائر کیے جارہے ہوتے ہیں اسٹیٹ بینک کے۔ جہاں تک ودھ ہولڈنگ ٹیکس کی بات ہے پچھلے دس سال میں پاکستان کا کیش ٹو ڈیپازٹ ریشو جو ہے وہ ڈیڈیوریٹ کر رہا ہے یعنی جب بینکوں کے پاس سیونگ نہیں ہوگی تو پھر بینک آگے قرضہ کیسے دے گا ہم نے بنیادی طور پر بینکنگ سسٹم کو بہتر کرنے کے لئے کہ لوگ زیادہ سے زیادہ بینکوں کو استعمال کریں۔

تازہ ترین