• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عمران خان نے کہا ہے: کرپٹ نظام کے خلاف جو آواز اٹھائے گا اس کا ساتھ دیں گے۔ طاہر القادری یا کسی سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں۔
65 برس ہو گئے کرپٹ نظام کے خلاف آواز اٹھاتے، اس کے خلاف قدم اٹھانے والا کوئی نہیں۔ اگر کسی پر ذرا سا شک ہو جائے کہ یہ قدم اٹھائے گا تو اس کو ووٹ نہیں دیتے یہ کس قدر خوش ذوقی ہے کہ خوش آوازی پہ مرتے ہیں، گویا نصف صدی سے 15 برس زائد ”گلو کاروں“ ہی کو منتخب کرتے رہے کہ دنیا امید پر قائم ہے خدا کرے کہ اب کی بار صاحب عمل امیدواروں کا انتخاب کریں۔ ایک صاحب نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہمارے لیڈر عمل کرنے والے تو ہیں مگر قوم کے حق میں بدعمل ہیں، خان صاحب اور قادری صاحب ہی نہیں سارے صاحبان دستارِ سیاست و ریاست آخری خبریں آنے تک کرپٹ نظام کے خلاف آواز اٹھا رہے تھے، تازہ خبریں بھی یہی خبر دیں گی، کرپٹ نظام کو ان لیڈروں نے نہیں بدلنا اسے عوامی اکثریتی رائے دہی ہی بدل سکتی ہے، جب تک عام آدمی اپنا ووٹ صحیح لیڈر کے حق میں کاسٹ نہیں کرے گا، کرپٹوں کا مارچ پاسٹ جاری رہے گا۔ خطرہ یہ ہے کہ لیلیٰ کا روپ دھار کے ”کوئی“ خود نہ محمل میں بیٹھ کر عشاق کو ہانکنے لگے، ا ور پھر اس کے خلاف آوازیں اٹھنے لگیں اور وہ اور اٹھتا جائے ، اکبر نے خود کو ہی جھڑکتے ہوئے کہا تھا #
تمہیں اس انقلاب دہر کا کیا غم ہے، اے اکبر#
بہت نزدیک ہے وہ دن نہ تم ہو گے نہ ہم ہوں گے
عمران خان نے بڑی چابکدستی سے طاہر القادری کی حمایت میں آواز اٹھائی ہے، آنے والے انتخابات سے پہلے کرپٹ نظام کے خلاف یہ پہلا زور دار نغمہ ہے، دھمال ابھی شروع نہیں ہوئی۔
####
وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے فرمایا ہے: بھٹو کی سیاسی فکر کے وارث بلاول کی قیادت میں پیپلز پارٹی کا قافلہ آگے بڑھے گا۔
بلاول زراری بھٹو نے طویل بھرپور تقریر کر کے اپنی شہید والدہ کو ان کی برسی کے موقع پر زبردست خراج عقیدت پیش کیا۔ انہوں نے چیف جسٹس سے سوال کیا کہ ان کے نانا اور والدہ کے قاتلوں کو سزا دینے کا وقت کیوں نہیں آیا، لگتا ہے بلاول اپنے مطالبے کے حوالے سے تنہا ہے، حالانکہ وہ پیپلز پارٹی کے "Full Fledge" چیئرمین ہیں۔ اور لاشریک بھی نہیں، ان کے ساتھ چیئرمینی کی حد تک صدر زرداری بھی شریک ہیں بھٹو سیاست کی بنیاد جاگیرداری ختم کرنا، اور عوام کو روٹی کپڑا مکان دینا تھا زرداری سیاست میں یہ بنیاد باقی نہ رہی جاگیردارانہ نظام نے ترقی کی اور روٹی کپڑا مکان دینے کے لارے کو لپا لگ گیا، بلاول بھی خوب انگریزی پڑھ کر آئے ہیں اور ان کو قومی زبان اور مادری زبان سندھی سکھانے کے لئے اتالیق رکھے گئے، اب پارٹی ان کو ورثے میں ملی ہے، دیکھتے ہیں اپنے زورِ بازو سے وہ ملک و قوم کو کیا دیتے ہیں ان کے والد محترم کا نظام بھی خوب رہا اور ہنوز خوب ہے، بلکہ، نظام سقہ ماڈل ہے۔ اب ان کے سامنے دو سیاسی مکتب فکر ہیں ان کی تقریر سے لگتا ہے، کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو شہید کے منشور کو رائج کر کے دم لیں گے، وگرنہ وراثت شاہی تو اس ملک میں چل رہی ہے چلتی رہے گی اور نام جمہوریت کا بدنام ہوتا رہے گا، اکبر نے بھی موجودہ نظام کے ایک جزو کو یوں بیان کیا ہے #
کشتِ دل ہو سبز جس سے اشک ایسی چیز ہے
دیدہٴِ گریاں پہ واٹر ٹیکس کی تجویز ہے
####
اسرائیلی مذہبی عدالت نے کتے کو سزائے موت سنا دی، اس کتے پر الزام ثابت کیا گیا کہ یہ کتا اس سیکولر وکیل کا دوسرا جنم ہے، جس نے بیس برس قبل ججوں کی توہین کی اور بچ نکلا تھا۔
جس اسرائیلی عدالت کے جج نے کتے کو سزائے موت سنائی، کہ وہ توہین عدالت کرنے والے سیکولر وکیل کا دوسرا جنم ہے، اسے بھی سزائے موت سنائی جا سکتی ہے کہ اس نے ایک کتے کو انسان قرار دے کر پوری انسانیت کی توہین کی، انتہاء پسندی ایک ایسی بیماری ہے کہ یہ مذہب، عدالت، افراد اور قوم کو لگ جائے تو #
ہٹتی نہیں یہ کافر جاں لئے بغیر
اگرچہ سارے اسرائیلی انتہاء پسند نہیں لیکن وہاں کے کچھ یہودیوں نے اپنی سابقہ انتہاء پسندی و توہم پرستی ہنوز نہیں چھوڑی، انتہاء پسندی اور توہم پرستی تو ہمارے ہاں بھی انتہا کی ہے، لیکن ہمیں اپنا عیب کم ہی نظر آتا ہے، کیونکہ ہمارے پاس وہ چشمہ ہی نہیں کہ اپنے عیب کو دیکھ سکیں، یہ کسی دکانِ فلسفہ سے نہیں ملتا، کشادہ دلی و وسیع النظری کی مارکیٹ سے بہ آسانی دستیاب ہے۔
بہادر شاہ ظفر کو بھی یہ چشمہ بہت دیر سے ملا تھا اسی لئے سلطنت گنوا بیٹھے، ملاحظہ ہو ان کے چشمے میں آنے والا ایک منظر
رہے جب تک اپنے آپ سے بے خبر
رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر
پڑی اپنے عیبوں پر جو نظر
تو نظر میں کوئی برا نہ رہا
اسرائیلی مذہبی عدالت نے تو اپنا معرکة الآراء فیصلہ سنا دیا تو کیا وہاں کوئی غیر مذہبی عدالت بھی ہے؟ جسے محض عدالت کہا جا سکے اور وہ عدل ہی کرے غزل نہ سنائے #
عشق میں بھی انتہاء پسندی اچھی نہیں، کیوں کہ اچھا خاصا تو مند عاشق جل جاتا ہے #
لگی آگ الفت کی ہمارے رشتہٴِ جاں میں
جلا کرتے ہیں مثل شمع ہم بزم حسیناں میں
####
استاد چھوٹے غلام علی خان مرحوم کی یاد میں الحمراء ہال میں محفل موسیقی کا انعقاد
کلاسیکی موسیقی کے اساتذہ کی ایک کہکشاں پاکستان کے آسمان سے گزر گئی ہے، لیکن کچھ تارے آج بھی دمک رہے ہیں، وہ موسیقی جو آج بھی دلوں کو بھاتی ہے اور سدا بہار ہے اس کی بنیاد کلاسیکی موسیقی پر ہی رکھی گئی تھی، مگر آج ایک لفظ ”بیٹ“ ہے، جس کو پکڑ کر کوئی بھی سرتان سے لا علم گویا بن سکتا ہے یا کہلا سکتا ہے، یہ بیٹ موسیقی ورائٹی سے خالی ہے، یوں لگتا ہے کہ ایک ہی گیت بار بار سنایا جا رہا ہے، آج بھی استاد برکت علی خان کا گایا مشہور زمانہ گیت ایک منظر آنکھوں کے سامنے لے آتا ہے #
باغوں میں پڑے جھولے
تم ہمیں بھول گئے
ہم تم کو نہیں بھولے
اور ان کی گائی یہ غزل تو دل کا پتہ دیتی ہے #
درد اٹھ اٹھ کے بتاتا ہے ٹھکانہ دل کا
استاد چھوٹے غلام علی خان قصور کے رہنے والے تھے، اور ملکہ ترنم کے اساتذہ میں سے تھے، قصور کے اندرسوں میں بھی استاد چھوٹے غلام علی خان کی لے کاری اور ملکہ ترنم کے گلے کا رس پایا جاتا ہے، یہ جو نئے گلوکار ہیں ان میں اچھی آوازیں تو پائی جاتی ہیں اچھی کلاسیکی تربیت کا فقدان ہے، جس کے باعث یہ اچھے سریلے گلے ضائع ہو رہے ہیں، حیرانی ہے کہ یہ نئی نسل کے گلوکار معاوضے اتنے لیتے ہیں، کہ یہ امیر اور موسیقی غریب ہو گئی ہے، اگر راحت فتح علی خان کی طرح نئے برائلر گویوں کو بھی کسی استاد کی تربیت حاصل ہوتی تو یہ اصیل ککڑ بن سکتے تھے، یہ بھلے مانس سر ساگر میں کنڈی ڈالتے ہیں مگر سُر پکڑ نہیں پاتے اگر سُر پکڑ لیں تو اٹھا نہیں پاتے۔
####
تازہ ترین