• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں بہت دکھی دل کے ساتھ دلّی کے جہاز میں سوار ہو رہی تھی کہ اترتے ہی میری دوستوں نے پوچھنا ہے کہ پولیو کے قطرے پلانے والی پانچ بچیوں کو کن ظالموں نے گولیاں مار کے زندگی کے باب سے ختم کر دیا ہے۔یہ لیڈی ہیلتھ ورکرز تھیں جو خوشی خوشی تیار ہو کر آئی تھیں۔ کراچی میں تو وہ لڑکیاں واقعی کام کر رہی تھیں مگر پشاور میں14سالہ بچی تو صرف سڑک کراس کر رہی تھی اسکو بھی گولیوں کا نشانہ بنایا گیا ۔ میرے لئے یہ ساری ظالمانہ حرکتیں ناقابل برداشت تھیں۔ میرے ساتھ اصغر ندیم سید اور عطاء الحق قاسمی بھی سفر کر رہے تھے اور میری افسردگی دور کرنے کے لئے حالات حاضرہ پر تبصرہ بھی کرتے جا رہے تھے۔
دلّی ہو کہ لاہور یا کراچی، سال کے آخر کا یہ زمانہ، بہت تقریبات کا زمانہ ہوتا ہے ایک طرف کرسمس اور نئے سال کی آمد کی خوشی اور دوسری طرف یہ دکھ کہ پولیو کے قطرے پلانے والی معصوم بچیوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ایک طرف اس صورتحال پر غصہ تھا اور دوسری طرف اترتے ہی عجب منظر دیکھا۔ سارے پاکستانی مسافروں کو 44نمبر ڈیسک پہ کھڑا کر دیا گیا۔ امریکنوں کی طرح کی مشین سامنے تھی جس پر انگلیوں اور انگوٹھوں کے نشانات لئے جانے تھے ۔مزید پتہ چلا کہ ایران او ر شمالی کوریا کے بعد اب پاکستان بھی اسی فہرست میں شامل ہو گیا ہے کہ جو ناپسندیدہ ممالک ہیں۔ مزید اذیت کی بات یہ تھی کہ کسی شخص کو وہ مشین چلانے کی پریکٹس نہیں تھی، بس ایک خاتون کے جانے کے بعد وہ مشین خراب ہوگئی اور آخر ایک گھنٹہ شور مچانے کے بعد امیگریشن حکام نے فیصلہ کیا کہ بس ایسے ہی چیک کر کے جانے دو۔ تکلیف دہ بات یہ تھی کہ جب ہندوستان اور پاکستان میں تعلقات کی بہتری اور دوستی کی جانب بڑھنے کے دعوے کئے جا رہے ہیں۔ حکومت پاکستان کو خبر ہی نہیں یا پھر ہمارا سفارت خانہ بے خبر ہے کہ کون سی نئی پابندیاں لگائی جا رہی ہیں ۔
اس اذیت سے نکلے تو استقبال کرنے والے لوگ مایوس کھڑے تھے اور حیران تھے کہ نیپال سے آنے والے بنگلہ دیش سے آنے والے مسافر باہر جا رہے تھے، نہیں تھے تو پاکستانی مسافر،جانے کیوں ہوا تھا۔ سبب یہ تھا کہ ایک تو غالب انسٹی ٹیوٹ میں سالانہ مذاکرہ تھا۔ کلاسیکی اور ترقی پسند ادب کا موازنہ ،دوسرا عالمی مشاعرہ تھا جو نوجوانوں کی انجمن نے رنجیت چوہان کی سرکردگی میں منعقد کیا تھا جس میں ڈاکٹر قاسم پیر زادہ، مجھے اور جاوید صبا کے علاوہ اصغر ندیم سید کو دعوت دی گئی تھی۔ اور قاسم پیرزادہ کو شان ادب کا مومینٹیو دیا گیا۔ مشاعرے کے سامعین کے سامنے جب میں نے اس حادثے کا ذکر کیا جو دلّی میں ہوا تھا اور پورے ہندوستان میں اسکے خلاف مظاہرے ہو رہے تھے وہ بھی بڑا اندوہناک تھا۔ ایک نوجوان لڑکا اور لڑکی بس اسٹاپ پہ کھڑے تھے۔ بس کے انتظار میں تھے۔ اتنے میں ایک بس آ کر رکی۔ انکو کہا آؤ بیٹھو،وہ دونوں بس میں چڑھ گئے ۔یہ بس کسی فیکٹری کے ملازمین کی تھی جو شراب کے نشے میں مدہوش تھے۔ ان شرابیوں نے لڑکے کو مار کر بے ہوش کر دیا اور پانچ آدمیوں نے لڑکی کے ساتھ نہ صرف زیادتی کی بلکہ جب لڑکی ادھ موئی ہو گئی تو لڑکا اور لڑکی کوسڑک کے کنارے پھینک کر فرار ہو گئے۔ لڑکے نے ہوش میں آ کر ملزموں کی نشاندہی کی ۔دو دنوں کی مسلسل تلاش کے بعد پانچوں ملزمان پکڑے گئے۔اب ہر شہر میں مطالبہ تھا کہ ان پانچوں کو پھانسی دی جائے۔ میری بچیوں کے غم میں ایک اور غم شامل ہو گیا تھا۔میں دکھی دل کے ساتھ واپس آ رہی تھی کہ اخبار میں خبر پڑھ کر میں چیخ پڑی۔ فیضان پیرزادہ دل کے دورے میں خدا کے پاس پہنچ گئے تھے۔ یہ میرے ہاتھوں بڑا ہوا 45 سالہ نوجوان تھا جس نے اپنی ازدواجی زندگی بھی پپٹ ،تھیٹر اور پپٹ بنانے کے شوق میں تباہ کر لی تھی۔ یہ دونوں سگے بھائی جڑواں تھے اور دونوں اسی شوق میں زندہ تھے۔ بغیر کسی سرکاری امداد کے ،ان دونوں بھائیوں نے 17عالمی تھیٹر فیسٹول کئے جس میں74سے94ممالک تک نے حصہ لیا ۔ بس جب سے کسی بدنصیب نے بم مارا تھا اس وقت سے قذافی اسٹیڈیم کے بجائے اپنے ہی پیرو سینٹر میں ہر ہفتے کی رات میوزک یا ڈانس فیسٹول کیا کرتے تھے۔ پپٹ میوزیم بھی بنایا تھا اور دنیا بھر کے سیاح ،اس دور افتادہ بستی میں لطف لینے اور کھانا کھانے آیا کرتے تھے۔
ائر ہوسٹس نے کہا ”آپ کچھ کھا نہیں رہی ہیں۔ کیا ہو گیا ، میں رو پڑی ،میرا چھوٹا بھائی جیسا پیارا اتنی چھوٹی عمر میں چلا گیا تھا ،شاید اسلئے اس نے اتنا بہت سا کام کیا تھا۔ وہ نہیں رہا مگر اس کا نام پیرو کرافٹ بازار، پیرو سیٹ تھیٹر اور پیرو ریسٹورنٹ میں زندہ رہے گا ۔ جب بھی پاکستان میں پپٹ کا نام لیا جائے گا۔ فیضان کا نام اسکے ساتھ جڑا ہو گا ۔
ابھی میں لاہور ائرپورٹ پہنچی۔ یہاں کا تو سارے کا سارا نظام خدا کے سہارے ہی چل رہا ہے۔ پائلٹ کو سفارش کرنے کو کہا کہ اگر جہاز ساڑھے چھ بجے کا لیٹ ہو تو اس میں مجھے سیٹ مل جائے۔ پائلٹ نے کہا آپا جہاز لیٹ ہے، آپ آرام سے جائیں۔ میں گئی تو کہا کہ جہاز سات بجے جائے گا پھر کہا گیا ساڑھے سات اور آخر آٹھ بجے چلا۔ جہاز میں NRSPکے باجوہ صاحب پہلے سے بیٹھے تھے۔ پوچھا کہاں سے آ رہے ہو۔ پتہ چلا کہ وہ سکھر سے آ رہے ہیں اور جہاز ڈیڑھ بجے کی بجائے ساڑھے پانچ بجے چلا۔ ابھی ایک دکھ سے رہا نہیں ہوئی تھی یہ دوسرا دکھ مل گیا۔ باجوہ صاحب اترتے ہوئے بولے ”آپ بہت دکھ سنبھالتی ہیں۔ لیں ایک اور دکھ“ ڈر کے پوچھا”اب کیا ہو گیا ، بولے غضب ہو گیا ، بشیر احمد بلور پہ خود کش حملہ ہو گیا ۔میں نے برجستہ کہا، اللہ رحم کرے، اور انہوں نے بھی اسی کو دہرایا۔
بشیر بلور ایسا شخص تھا جس نے کہیں ہار نہیں مانی تھی۔ جس نے کہا تھا میں موت سے نہیں ڈرتا ۔ جس نے دہشت گردوں کو چیلنج کیا تھا جو اس عمر میں بھی دن رات کام کرتے تھے۔ جن کے چہرے کی سرخی ان کے عزائم کا پتہ دیتی تھی ۔
میں اب سوچتی ہوں مجھے ہندوستان جا کر اور پاکستان لوٹ کر کیا ملا۔ ادھر بھی اس لڑکی کا دکھ تھا جس کے علاج میں ڈاکٹروں کے مطابق مہینوں لگ سکتے ہیں۔ پاکستان میں بچیوں کا دکھ تھا اور پھر فیضان نے مجھے بہت دکھی کیا اور پھر بلورصاحب نے پورے ملک کو افسردہ کر دیا۔کیا سال کے اختتام پر ایسے ہی منظر نامے سامنے رہیں گے۔
تازہ ترین