• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ پاکستان کا دوسرا بڑا صوبہ ، ملک کا معاشی حب اور جنوبی سرحد پر بحیرہ ٔعرب کا وسیع و گہرا سمندر رکھتا ہے۔ اس کی تاریخ، زبان، ثقافت، تہذیب قدیم اور اپنے دور میں بہت نمایاں رہی ہے۔یہاں کی آبادی تقریباًپونے پانچ کروڑ سے زائد ، رقبہ چون ہزار مربع میل سے زیادہ ، خواندگی کا اوسط سرکاری اعداد وشمار کے حوالے سے69فی صد، جب کہ تعلیمی اوسط تقریباً23فی صد ہے۔

صوبہ سندھ کا2018ءکا بجٹ1124ارب روپے تھا، جس میں وفاق کی طرف سے665ارب روپے دیئے گے تھے۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے بجٹ کا اعلان کرتے ہوئے ،صوبہ سندھ میں صحت عامہ کے لیے124ارب، تعلیم کی مد میں211ارب ،ترقیاتی منصوبوں کے لیے 343ارب اور سیکورٹی کے معاملات کی مد میں102ارب روپے مختص کیے تھے ۔اٹھارہویں ترمیم کے تحت سندھ کو وفاق سے این ایف سی ایوارڈ جتنا ملنا چاہیے تھا ،اس سے کم دیا گیا ، جس پر سندھ حکومت نے پر زور احتجاج کیا۔18ویں ترمیم کی وجہ سے سندھ میں ٹیکس کی وصول یابی میں قدرے بہتری آئی ۔ وزیر اعلیٰ سندھ کا نظریہ ہے کہ سندھ میں تعلیم، صحت ، زراعت پانی کی فراہمی ، سیوریج کے نظام ، خوراک، بجلی اور انفرااسٹرکچر کے شعبوں کوزیادہ سے زیادہ ترقی اور ان کی کارکردگی بہتر بنائی جائے ۔

سندھ کے دیہی علاقوں میں انگلش اسکول اور کمپیرنسی اسکول قائم کرنے کی منصوبہ بندی پر کام شروع ہوگیا ہے، فی الفور شہید بے نظیر آباد،سانگھڑ، خیرپور، دادو، قمبر، شہداد کوٹ اور گھوٹگی میں مذکورہ اسکول قائم کیے جارہے ہیں۔ صحت عامہ پر بھی خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔امراضِ قلب کے سرکاری اسپتالوں کا بجٹ تقریباً دُگنا کردیا گیا ہے، اس کے علاوہ مختلف علاقوں میں چیسٹ پین یونٹ بھی قائم کیے جارہے ہیں ،جن کی تعداد60 کے قریب ہے، جب کہ سکھر میں گردوں کے علاج کاانتہائی جدید اسپتال قائم کیا جارہا ہے۔ماضی میں سندھ میں پولیس کی کارکردگی پر بہت سے سوالیہ نشان اُٹھتے رہے ہیں۔ مگر سال 2018ء میں محکمۂ پولیس میں اصلاحات اور قابلیت کی بنیاد پر بھرتیاں شروع کی گئیں،جس سے مستقبل میں بہتر نتائج کی امید کی جاسکتی ہے۔

سرکاری اسکولوں کی حالت بہتر بنانے، گھوسٹ ملازمین کا صفایا کرنے اور میرٹ کی بنیاد پر اساتذہ کی تقرریاں کرنے کا کام اوراس حوالے سے خصوصی بجٹ بھی مختص کیا گیا۔ بلاشبہ سرکاری محکموں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے بھر پور کوششیں کی جا رہی ہیں،کیوں کہ ایک طویل عرصے سے یہاں کرپشن، سرکاری محکموں میں پست کارکردگی کی وجہ سے صوبے میں بدامنی، بے چینی،قانون کی بے حسی اور انارکی عام ہے۔ تعلیمی ادارے محض تنخواہ حصول کرنے کی ڈیسک بن کر رہ گئے ، این ٹی ایس کے پرچے تک آؤٹ ہونے لگےہیں۔ بڑے تعلیمی اداروں تک میں کرپشن کا وائرس گھر کرچکا ہے۔

صنعتی پلاٹ بھی رہائشی پلاٹوں میں منتقل کرکے فروخت کیے گئے۔ کہا جاتا ہے کہ 14ملین ٹن گندم متعلقہ مراکز تک نہیں پہنچایا گیا ، جب کہ تھر میں بچے بڑے ایک بوند پانی اور روٹی کے ایک ایک لقمے کو ترس رہے ہیں۔صاف پانی کی قلت میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے، دوسری جانب ٹرانسپورٹ مافیا خون چوس رہی ہے۔

صوبہ سندھ میں گزشتہ دنوں کرپشن کے جو اسکینڈل سامنے آئے ،اس نے سب کے ہوش اڑا دیئے۔ ڈاکٹر عاصم پر میگاکرپشن کے مقدمات اور ان کی نیب کے ذریعے گرفتاری سے وفاقی اور صوبائی حکومت کے مابین شدید اختلافات اُبھر کر سامنے آئے۔ ڈاکٹر عاصم سے کرپشن کیس میں بہت سے نادیدہ معاملات اور رقومات کا انکشاف ہوا ۔ اس کیس میں منی لانڈرنگ کی اربوں روپے کی خردبرد سامنے آئی۔ اس دوران سندھ کے سابق صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل میمن کا کیس بھی سامنے آیا، نیب نے ان کی گرفتاری کے احکام جاری کیے، مگر وہ روپوش ہوگئےاور دبئی چلے گئے،بعد ازاں وہ کراچی واپس آئے تو اربوں روپے کی خرد برد کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔

مثالی اور پُر اعتماد حکمرانی قائم کرنے کے لیےتعلیم کا فروغ، طلبہ کی تربیت، اسکولوں میں تعلیم کے ذریعے آگہی اور میڈیا کے ذریعے ہر قسم کی کرپشن کے خلاف مہم چلانا ضروری ہے۔ خاص طور پر بچوں کوخاص طور پر ابتدائی پانچ سال تک اسکولوں میں اخلاقی، قانونی ، سماجی ، تہذیبی اور مذہبی اقدار کی پاسداری سکھائی جانی چاہیے ۔کینیڈا کی حکومت کو حکومتِ سندھ سے شکوہ ہے کہ 2012میں کینیڈا نے سندھ میںتعلیم کے فروغ کے لیے، جو خطیر رقم دی تھی وہ تعلیم پر خرچ نہیں کی گئی بلکہ بدعنوانی کی نذر ہوگئی۔

سندھ میں دہشت گردی اور انتہا پسندی میں بڑی حد تک کمی دیکھنے میں آئی۔ لیاری اور نائین زیرو کے سوتے بڑی حد تک خشک ہوچکے ہیں۔ سیاست کی بات کی جائے، تو ایم کیوایم کے گڑھ سمجھے جانے والے کراچی میں اب اس جماعت کی سیاسی اجارہ داری تقریباً ختم ہو چکی ، یہ جماعت اب چار دھڑوں میں بٹ چکی ہے۔حالیہ عام انتخابات 2018 ء میں سندھ میں کراچی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے بعدتحریک انصاف دوسری نمایاں سیاسی جماعت بن کر ابھری ۔

سندھ حکومت نے اس برس بھی لوکل گورنمنٹ کو اختیارات اور فنڈز نہ دینے کی روایت برقرار رکھی۔ اس کوتاہی اور سب سے بڑی سیاسی غفلت سے بہت سے مسائل حل نہیں ہو رہے۔ صاف پانی، صفائی ستھرائی، نکاسیٔ آب اور عوام کے روزمرّہ کے کام سب بری طرح متاثر ہوئے۔ اب تک عوام ملک کی دو بڑی جماعتوں پی پی پی اور پاکستان مسلم لیگ (نواز) کو ہی تنقید کا نشانہ بناتے تھے کہ یہ جماعتیں لوکل گورنمنٹ کے انتخابات اور لوکل گورنمنٹ کی تشکیل، فنڈز کی فراہمی سے بھاگی تھیں اور ترقیاتی فنڈز اسمبلی کے نمائندوں کو دے دیا جاتا تھا، مگر 2018کے انتخابات کے بعد عوام کو پی ٹی آئی سے پوری امید تھی کہ یہ پارٹی لوکل گورنمنٹ کے قیام اور شہری مسائل کو حل کرنے میں ضرور دل چسپی لے گی، مگر یہاں بھی تحریک انصاف نے الٹی قلابازی لگا دی اور ترقیاتی فنڈز اپنی پارٹی کے منتخب نمائندوں میں تقسیم کر دیئے۔ تحریک انصاف کی اس سیاسی کوتاہی سے یقیناً پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کو سکھ کا سانس ملا ہو گا ، مگر عوام کا سانس اکھڑ رہا ہے۔

یہ نکتہ غور طلب ہے کہ دنیا کے تقریباً تمام مہذب ملکوں میں میونسپل نظام موجود ہے ، بلکہ لوکل باڈیز کے ادارے ہی عوام کے بنیادی مسائل حل کرتے ہیں ،مگر پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں اور اشرافیہ لوکل گورنمنٹ کو ہمیشہ یکسر نظرانداز کرتی میونسپل انتخابات سے بھاگتی نظر آتی ہیں۔ اسمبلی کے اراکین قانون ساز ادارے کے رکن ہوتے ہیں، ان کی ذمے داری آئین کی پاس داری و قانون سازی اور آئین میں ممکنہ ترامیم کرنا ، وزارتوں کو چلانا، ان کی کارکردگی پر نظر رکھنا اور ملکی پالیسی ترتیب دینا ہے، جب کہ سڑکیں بنانا، نالیاں صاف کرانا، کچرا اٹھانا اور سیوریج کے نظام کو ٹھیک کرنا بلدیہ کا کام ہوتا ہے۔اصل سیاسی جماعت اور حقیقی سیاسی رہنما وہ ہیں جو عوام کے مسائل سے پوری طرح آگاہ، ان کو حل کرنے کے طریقۂ کار سے آگاہ اور عوامی نمائندگی کے اصل فرائض سے آگاہ ہوں۔ ہم نے آزادی کے بعد انگریز نو آبادیات کی عوام کش پالیسیوں، قوانین، طریقۂ کار کو اپنا لیا اور انہوں نے اپنے ملک کو بہتر انداز میں چلانے کے لیے، جو کوششیںکیں،انہیں یکسر نظرانداز کر دیا۔ صوبۂ سندھ میں چاہے، دیہی علاقوں کی بات کی جائے یا شہری علاقوں کی غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے عوام ،تعلیم، صحت عامہ، پینے کے پانی، سیوریج کے نظام اور سڑکوں سے محروم ہی نظر آتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں صحت عامہ کی صورت حال انتہائی خراب ہے۔

سندھ خوش قسمتی سے،قدرتی وسائل سے مالامال اور سمندر کے کنارے واقع ہے۔ مثلاً تھرپارکر کے علاقے میں 1990میں امریکی کمپنی نے کوئلہ دریافت کیا جو 9ہزار مربع کلومیٹر علاقے میں (175ارب ٹن کوئلہ) پایا گیا۔ اس طرح پاکستان دنیا کے 20کوئلہ پیدا کرنے والے بڑے ممالک کی صف میں پانچویں نمبر پر آگیاہے۔ اس کوئلے سے پاکستان 200برس تک بجلی پیدا کر سکتا اور برآمد بھی کر سکتا ہے۔ تھر کے علاقے سے کوئلہ نکالنے کا کام شروع کر دیا گیا ہے، جس میں غیر ملکی کمپنیاں اور حکومت سندھ شامل ہیں۔ آگے یہ کول پروجیکٹ سی پیک منصوبے کا حصّہ بن جائے گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس سے سندھ کے عوام کو کیا فوائد حاصل ہوتے ہیں۔اس ضمن میں سندھ کی بڑی سیاسی جماعتوں کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے آپسی اختلافات بھول کر صرف اور صرف مستقبل کے لیے منا سب حکمت عملی تیار کریں،کہ وہ کس طرح عوام کو فائدہ پہنچا سکتی ہیں۔

کیا ایک بڑی ستم ظریفی نہیں ہے کہ سندھ ایک سمندری ساحل کے ساتھ واقع ہونے کے باوجود مسلسل ایک عرصے سے خشک سالی کا شکار ہے۔ زمینیں بنجر ہو رہی ، خشک سالی نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں ،جب کہ پی پی پی گزشتہ دس برسوں سے مسلسل بر سر اقتدار ہے، مگر سمندر کے پانی کو قابل استعمال بنانے کے لیے اب تک کوئی پلانٹ نہیں لگایا گیا ،جب کہ مشرق وسطیٰ کے ممالک اور ریاستوں نے سمندر کے پانی کو صاف کر کے اپنے خطّوں کو سرسبز و شاداب کر لیا ، وہاں پر فصل اور پھل، پھول میسّر ہیں، مگر ہمارے یہاں صبح، شام کرپشن، رشوت ستانی، اقرباپروری، لسانی تعصّبات، قانون کی پامالی اور مسائل کے شور کے علاوہ کوئی مثبت خبر نہیں ملی۔حال ہی میں ایک سولہ گریڈ کے ریٹائرڈ افسر کے گھر سے بتیس کروڑ نقد رقم بینک اکائونٹ اور غیر ملکی کرنسی ملی ہے۔ یہ حال کم و بیش ہر محکمے کا ہی ہے۔ ستم ظریفی تویہ ہے کہ گزشتہ برس اتنی سختی ، کرپشن کرنے والوں کی پکڑ ، دھکڑ ہونے کے باوجود ، بد عنوانی اور دیگر وائٹ کالرجرائم میں کمی دیکھنے میں نہیں آرہی۔ جب صوبے کا یہ حال ہے تو اسپتالوں میں دوائیں، اسکولوں میں اہل استاد کہاں سے آئیں گے؟، سڑکیں ،گلیاں، سیوریج کی نکاسی کے مسائل کیوں کر حل ہو سکیں گے، کچرا کون اُٹھائے گا؟ میگا کرپشن، کمزور قانون، افسر شاہی کی من مانیاں اور وزیروں کی سیر و تفریح غیر ملکی دورے ان حالات میں غیر ملکی سرمایہ دار تو دُور غیر ملکی پرندوں نے بھی ادھر کا رخ کرنا چھوڑ دیا ہے۔ گورنر سندھ کو شکوہ ہے کہ کراچی والے توتا، مینا کی آوازیں سننے کو کان ترس گئے ہیں، مگر جس طرح سندھ سے غیر ملکی سرمایہ کاروں نے منہ موڑ لیا ہے، اسی طرح اب پرندے، بالخصوص مہمان پرندے ، جو مخصوص موسم میں غول کے غول ادھر آتے تھے، انہوں نے بھی منہ موڑ لیا ہے۔

2018ء کے انتخابات کے بعد یہ امید بندھی تھی کہ بہت کچھ بدل جائے گا، مگر پرانی دیواروں اور پلرزپر نئی چھت بناناممکن نہیں ہے۔پھر بھی سندھ کے وزیر اعلیٰ نے صوبے میں صحت اور تعلیم کے فروغ کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھی ہیں۔وہ سڑکوں کی تعمیر اور خاص طورکرپٹ اور نا اہل ملازمین کے خلاف بھی اقدام میں دل چسپی رکھتے ہیں۔ بلاشبہ وزیر اعلیٰ کچھ کرنے کی لگن رکھتے ہیں لیکن ان کے اطراف کے لوگ ان کے نظریے اور اسپرٹ کا ساتھ دینے کے اہل نہیںہیں۔سندھ کی صوبائی حکومت بعض ترقی یافتہ ممالک سےآئی ٹی، فارمیسی ،کے فروغ، معدنی ذخائرکی دریافت اور دیہی علاقوں کو بجلی فراہمی کے معاملات پر بات چیت کررہی ہے، اور چند ایک ممالک سے معاہدے بھی ہوئے ہیں۔سندھ کے حوالے سے ماہرین کی رائے ہے کہ سمندر سے فائدہ اُٹھایا جائے۔ پن بجلی اور سمندری پانی کی صفائی کے کارخانے لگائے جانے چاہییں۔ پانی اور بجلی کی وافر ، فراہمی سے صوبہ سندھ زیادہ اور جلدی ترقی کر سکتا ہے، کیوں کہ صوبے میں بڑی بندرگاہ اور صنعتی بنیاد موجود ہے۔ زراعت کے شعبے پر بھی کام ہوسکتاہے، مگر اوّلین شرط یہ ہے کہ اہلیت ،صلاحیت اور لیاقت کے ساتھ دیانت داری کو بھی سر فہرست رکھا جائے ،رشوت، سفارش اور اقربا پروری کے ذریعے تقرریوں اور بھرتیوں کا سلسلہ بند کیا جائے۔

تازہ ترین