• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی دارالحکومت میں گزشتہ دنوں ملکی سیاسی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح کی سرگرمیاں بھی جاری رہیں اور اس حوالے سے امریکہ کے خصوصی نمائندے برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد اپنے وفد کے ہمراہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کے علاوہ بھی اعلیٰ سطحی شخصیات سے ملاقاتوں میں مصروف رہے ۔ظاہر ہے ان کی پاکستان آمد افغانستان کی صورت حال کے تناظر میں تھی جس کی تفصیلات سامنے نہیں آسکیں کہ اس حوالے سے وہ جس ’’مشن‘‘ پر پاکستان آئے تھے انہیں اس میں کس حد تک کامیابی حاصل ہوئی۔بہرحال ان کے مشن کے تکمیل کی خبریں دوحہ قطر سے آئی ہیں جہاں طالبان کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ بحال ہوگیا ہے۔ امریکی سینٹکام کے کمانڈر جنرل جوزف ووٹل نے بھی اپنے اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ وفد کی سطح پر مذاکرات کئے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی صدر ماریا فرنانڈا اسپینوسا بھی چار روزہ دورے پر پاکستان میں رہیں۔ تاہم امریکی سینٹ کے ایک اہم رکن سینٹر لنزے گراہم کی اسلام آباد میں مصروفیات کے دوران امریکی سفارتخانے میں کی جانے والی ان کی گفتگو بطور خاص موضوع بحث رہی۔ سینیٹرلنزے گراہم ایک خوشگوار شخصیت کے مالک ہیں اور اس سے قبل بھی پاکستان کے دورے پر آتے رہے ہیں، امریکی میڈیا کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قریب سمجھے جانے والے سینیٹر لنزے گراہم نے اپنی پریس کانفرنس کے دوران وزیراعظم عمران خان اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ملاقات کو اس لئے بھی ضروری قرار دیا کہ (اُن کی دانست میں) دونوں ایک جیسی شخصیت کے مالک ہیں اس لئے ان دونوں میں خوب نبھے گی۔ اب نہیں معلوم سینیٹر لنزے گراہم نے وزیراعظم عمران خان سے اپنی پہلی ملاقات میں ان کی شخصیت کا کس حوالے سے مشاہدہ کیا اور انہیں دونوں شخصیات میں کس حوالے سے مماثلت نظر آئی اور اگر مماثلت کے اس اظہار پر کسی فریق کو اعتراض ہوسکتا ہے تو وہ کون سا فریق ہوگا۔ بہر حال اُن کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ اور وزیراعظم عمران خان کی ملاقات ضروری ہے میں ان پر زور ڈالوں گا کہ وہ جلد از جلد عمران خان سے ملیں۔ یادش بخیر ایک سال قبل یکم جنوری2018 کو نئے سال کے آغاز پر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک ٹوئیٹ میں پاکستان پر الزام لگایا تھا کہ ’’گزشتہ ڈیڑھ دھائی میں اربوں ڈالر کی امداد لینے کے باوجود پاکستان نے امریکہ کو سوائے جھوٹ اور دھوکے کے کچھ نہیں دیا‘‘ جس کے بعد وزیراعظم عمران خان نے جوابی ٹوئیٹس کئے تھے دونوں ملکوں کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے یہ صورت حال مزید تنائو کا باعث بنی تھی لیکن ٹھیک ایک سال بعد2019 کے آغاز پر اپنی کابینہ کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کی خواہش کا اظہار کیا اور کہا کہ ’’وہ پاکستان کی نئی قیادت سے جلد ملاقات کرنے کے منتظر ہیں‘‘ گو کہ صدرٹرمپ کے حوالے سے بعض واقعات کے ضمن میں یہ تاثر موجود ہے کہ وہ اپنے بیانات پر قائم نہیں رہتے۔ اس حوالے سے بین الاقوامی سطح پرکئی مثالیں موجود ہیں اور اسی تناظر میں ان کے مذکورہ بیان کو بھی حتمی پالیسی نہیں سمجھا جا سکتا لیکن کچھ ایسے اشارے ضرور مل رہے ہیں جن سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان کشیدگی اور سرد مہری کی برف پگھل رہی ہے اور دونوں رہنمائوں کی ملاقات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا اسی لئے سینیٹر لنزے گراہم کی اسلام آباد میں اس حوالے سے کی جانے والی گفتگو کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ یہاں کسی خوش فہمی میں مبتلا ہوئے بغیر اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہو گا کہ امریکہ کی جانب سے طرز عمل میں تبدیلی اور ٹرمپ کی عمران خان سے ملاقات کی خواہش کے اظہار کا پس منظر افغانستان میں پاکستان کی امریکی ضرورت ہے اور یہی وجہ ہے کہ ڈو مور کی جگہ اب امریکی صدر افغانستان میں پاکستان کے مطلوبہ کردار کے لئے باضابطہ درخواستیں بھی کر رہے ہیں پاکستان کی قیادت کو اس ساری صورت حال میں قومی سلامتی اور ملکی مفاد کو پیش نظر رکھتےہوئے حکمت عملی وضع کرنی ہے اور یقیناً اسے اس بات کا پوری طرح ادراک ہوگا۔ بہرحال امریکی صدر اور پاکستان کے وزیراعظم کی ملاقات چاہے واشنگٹن میں ہو یا اسلام آباد میں نہ صرف خطے کی صورت حال بلکہ عالمی سیاست میں بھی بڑا واقعہ ہو گا۔

سانحہ ساہیوال اپنی نوعیت کے باعث جہاں ملک بھر میں دُکھ، المیے اور اشتعال کے ساتھ محسوس کیا گیا وہیں قانون کے رکھوالوں کے ہاتھوں’’ دہشت گردی‘‘ کے اس واقعہ کی بازگشت غیرملکی میڈیا کے حوالے سے بھی سامنے آئی جس میں پاکستان میں حکومت کی گورننس اور نظام کو بھی زیر بحث لایا گیا۔ قومی اسمبلی اور سینٹ کے جاری اجلاسوں میں معمول کی کاروائی روک کر اتفاق رائے سے اسی صورتحال پر بحث شروع کی گئی۔ گوکہ حکومت اور اپوزیشن واقعہ کی سنگینی، اس کے ذمہ داران کو عبرتناک سزائیں دینے اور ایسے واقعات کی آئندہ روک تھام کے لیے اقدامات کے حوالے سے ایک پیج پر تھے۔ لیکن اسے بدقسمتی ہی کہا جاسکتا ہے کہ دونوں طرف کے قانون سازوں نے اس المیے پر بھی ’’روایتی سیاست کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا‘‘ اور اپنا اپنا مؤقف بیان کرنے، تجاویز دینے اور واقعہ کی مذمت اور دُکھ کا اظہار کرنے کے لیے بھی ایک دوسرے پر الزامات کا سہارا لیا۔ پھبتیاں کسیں، جملہ بازی کی اور ایک دوسرے کو نااہل ثابت کرنے کے لیے اس المیے پر بھی ایوان میں ہنگامہ آرائی کی ۔ سانحہ ساہیوال کے حوالے سے لگائے گئے الزامات کا جواب سانحہ ماڈل ٹاؤن سے دیا گیا حالانکہ دونوں واقعات کی نوعیت قطعی طور پر الگ الگ ہے لیکن محض الزامات عائد کرنے اور ان میں مماثلت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔اسی حوالے سے کراچی کے پولیس آفیسر راؤ انوار کا حوالہ بھی اور امریکی شہری ریمنڈ ڈیوس کی بھی گونج ایوان میں سنی گئی۔ بہرحال سانحہ ساہیوال نے ایک بار پھر وزیراعلیٰ پنجاب کی انتظامی صلاحیتوں اور ایسی صورتحال سے عہدہ برآ ہونے کے لیے فوری مطلوبہ اقدامات کرنے کی اہلیت پر سوالات اُٹھا دیئے ہیں پھر مقتولین کے بچوں سے ملاقات کے موقع پر اُنہیں پھول پیش کرنے کے عمل پر بھی دونوں ایوانوں میں اظہارِافسوس کیا گیا۔ہرچند کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ سانحہ سے متعلق جے۔ آئی۔ ٹی رپورٹ میں نئے اور پرانے پاکستان کا فرق دکھائی دے گا لیکن اُس کے باوجود پنجاب میں ہونے والے’’بیڈگورننس‘ ‘ کے ہر واقعے پر نہ صرف عثمان بزدار صاحب پر تنقید برسی جائے گی بلکہ وزیراعظم کا اُنہیں وزیراعلیٰ مقرر کرنے کے فیصلے پر بھی دباؤ بڑھتا رہے گا۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے بارے میں یہاں ’’احتیاطً‘‘ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا یہ جملہ ہی دہرایا جاسکتا ہے کہ ’’وزیراعلیٰ صاحب معصوم آدمی ہیں ان کی راہنمائی کی ضرورت ہے‘‘۔

یہ تو قومی اسمبلی کے ایوان کی باتیں تھیں، لیکن ایوان سے باہر پارلیمنٹ ہاؤس کی غلام گردشوں اور مختلف چیمبرز میں جوسب سے زیادہ موضوع زیربحث تھا وہ پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) کے اتحاد کو خطرے کے حوالے سے تھا۔ پنجاب کی طرح مرکز میں بھی مسلم لیگ (ق) کے اراکین اتحادی ہونے کی حیثیت سے حکومت کے رویوں سے خاصے شاکی دکھائی دیتے ہیں اور بار بار اس بات کا گلہ کررہے ہیں کہ حکومت اُنہیں کام کرنے کے مواقع فراہم نہیں کررہی اور اُن سے جو وعدے کئے گئے تھے اُنہیں پایہ تکمیل تک پہنچانے کے بجائے اُن کے کام میں رکاوٹ پیدا کررہی ہے۔اس لیے اس بارے میں وزیراعظم سے ملاقات کرکے کوئی فیصلہ کیا جائے اور مرکز اور صوبے میں مسلم لیگ (ق) کو جو دو دو وزارتیں دینے کا وعدہ کیا گیا تھا اُس پر فوری عملدرآمد کرنے کی بات بھی کی جائے۔ یادرہے کہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) کا حکومتی اتحاد اُس وقت تحفظات اور خدشات کا شکار ہوگیا تھا جب تحریک انصاف کے ایک وزیر نے مسلم لیگ (ق) میں فارورڈ بلاک بنانے کی بات کی تھی جس پر مسلم لیگ (ق) کی جانب سے شدید ردّعمل دیکھنے میں آیا تھا اور پھر پنجاب میں مسلم لیگ (ق) کے واحد وزیر برائے معدنیات حافظ عمار یاسر نے اپنے وزارتی اُمور میں بے جا مداخلت کا جواز بنا کر اپنا استعفیٰ پارٹی قیادت کو بھجوا دیا تھا۔ گو کہ دونوں ایوانوں میں عددی اکثریت کے حوالے سے مسلم لیگ (ق) بظاہر اپنے مطالبات منوانے کی پوزیشن میں نہیں ہے لیکن چوہدری شجاعت اور پرویز الٰہی اپنی انفرادی حیثیت میں نہ صرف ایک خاص سیاسی وزن رکھتے ہیں بلکہ اُن کی جماعت کی ایک ’’علامتی حیثیت‘‘ بھی ہے۔ اُن کی سیاست کے نئی حکومت کے پلڑے میں وزن یا پھر لاتعلقی کو خاص اشارے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ بالخصوص پنجاب میں حکومت برقرار رکھنے کے لیے پی ٹی آئی کو مسلم لیگ (ق) کی ضرورت ناگزیر ہے۔ اطلاعات ہیں کہ چوہدری شجاعت اور پرویز الٰہی جلد ہی وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کرکے اس صورتحال پر بات کریں گے۔ 

تازہ ترین
تازہ ترین