• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ریاست، سیاست اور حکومت ایک مثلث میں ڈھل جائیں تو ریاست کے سر پر طاقت کا تاج سجتا ہے، ملک و قوم کی تجوریاں خوشحالی اور کامرانی کی اشرفیوں سے بھرجاتی ہیں اور عوام کے چہروں اور آنکھوں میں اعتماد اور توقیر کے دیے جلتے نظر آتے ہیں۔ سیاست کے بل بوتے پر وجود میں آنے والی حکومت ہی ریاست کے اصل مقاصد کے حصول کو یقینی بنا کر ملک و قوم کی بقاء اور معاشرتی فلاح کی ضامن ٹھہرتی ہے۔ سیاسی عمل اور جدوجہد کے نتیجے میں وجود میں آنے والا ملک پاکستان اس مثلث میں ڈھل کر مثال بننے سے تاحال قاصر ہے۔ جب ریاست آئینی مقاصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہے تو شناختی کارڈ اور پاسپورٹ محض گلے میں آزادی کا تعویذ بن کر رہ جاتے ہیں۔
قیام پاکستان کے حوالے سے سیاسی جدوجہد کا ایک عظیم گواہ مینارِ پاکستان آج کل بہت افسردگی کے عالم میں ہے۔ اس کی آن، بان اور شان تاریخ کی عظیم ہستیوں کے عہد و پیماں کی علامت ہے۔ اس کے سینے میں اپنے عظیم قائد کی یادیں راز بنتی جا رہی ہیں کیوں کہ آج اسے بھی اپنے تشخص کا مسئلہ درپیش ہے۔ وہ مینار رہنا چاہتا ہے یادگارِ پاکستان نہیں بننا چاہتا۔ وہ ایسی سیاست کی علامت ہے جو جمہوریت کی نشوونما کرے۔ اُسے یاد ہے 1940ء میں یہاں ایک عظیم الشان اجتماع ہوا تھا، اس جلسے کا اہتمام برصغیر کی ایک نمایاں جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کی طرف سے کیا گیا تھا۔ کیا خوبصورت منظر تھا، جلسے کی ترتیب اور تنظیم بھی کمال کی تھی، اسٹیج پر کئی کرسیاں تھیں، ایک اسٹیج سیکرٹری بھی تھا۔ مولوی فضل حق شیر بنگال کو اسٹیج پر مدعو کیا گیا تو انہوں نے ایک قرارداد پیش کی اور مجمع سے اُس کی منظوری لی پھر قائد اعظم آئے تو خاکسار تحریک کے ان لوگوں کو انہوں نے کوئی اہمیت نہ دی جو سیاسی عمل کی بجائے طاقت کے ذریعے آزادی حاصل کرنا چاہتے تھے اور اسی حوالے سے قائداعظم کی سیاسی اور آئینی جدوجہد کی مخالفت کرتے تھے۔ قائداعظم نے عوام کے جمِ غفیر کو دیکھتے ہوئے اپنے خطاب میں لوگوں کو غیر ملکی قابضین کو نیست و نابود کر دینے کا کوئی درس دیا نہ ہی چھینا جھپٹی اور مرنے مارنے کا نعرہ لگایا، فوج میں مسلمان سپاہیوں کو بغاوت کا کوئی پیغام دیا اور نہ سرکاری اہلکاروں کو نافرمانی کی ترغیب دی بلکہ طاقت کی بجائے حکمت اور جوش کی بجائے ہوش کی تلقین کرتے ہوئے عوام کو یقین دلایا کہ انہوں نے جس قرارداد کی تائید کر کے قبولیت کی سند بخشی ہے مسلم لیگ سیاسی اور قانونی جدوجہد سے اس پر عمل درآمد کروانے کی کوشش کرے گی۔ زمانے نے دیکھا کہ قائداعظم نے اپنے لفظوں کا پاس رکھتے ہوئے پرامن جدوجہد اور سیاسی عمل کے ذریعے صرف سات سال میں اپنے مقصد کے حصول کے خواب کو حقیقت میں بدل دیا۔ قیام پاکستان کے بعد بھی سارے مرحلے سیاسی، قانونی اور آئینی حوالے سے طے کئے گئے یعنی صوبائی اسمبلیوں سے قراردادوں اور ریفرنڈم کے ذریعے لوگوں کی رائے سے فیصلہ کر کے جمہوری اور سیاسی طرزِ فکر کو اولیت دی گئی۔ علاوہ ازیں دیگر سیاسی جماعتیں جو قیامِ پاکستان کی مخالف تھیں یا مسلم لیگ کے نظریات کی حامی نہیں تھیں پر پابندی لگا کر اُن کو سیاسی عمل سے باہر رکھنے کی کوئی کوشش نہ کی گئی۔ وہ بھی کیا زمانہ تھا جب قائداعظم نے یہاں خطاب کیا تو اُس کے نتیجے میں پاکستان وجود میں آیا اور منٹو پارک مینارِ پاکستان کے اعزاز سے سرفراز ہوا۔
آج کل بھی یہاں جلسے جلوس منعقد کئے جاتے ہیں لیکن اب تنظیموں اور جماعتوں کی بجائے شخصیات کے شوز کا اہتمام کر کے تبدیلی کا نعرہ نظام کے خاتمے سے مشروط کیا جا رہا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ جمہوریت کے علاوہ وہ کون سا نظام ہے جو عوام کی فلاح اور ریاست کی بقاء کا آئینہ دار ہے۔ ملوکیت، رئیسیت یا کوئی اور نظام جس میں عوام کی بجائے مخصوص طبقے کے مقاصد درج ہوں۔ یہ صرف جمہوریت ہی ہے جس میں حکمرانوں، اداروں کے سربراہوں اور معاشرے کے طاقتور لوگوں کی بدعنوانیاں منظر عام پر لائی جا سکتی ہیں اور غیر آئینی اقدامات کو چیلنج کیا جا سکتا ہے بلکہ ان کا کڑا احتساب بھی ممکن ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں جمہوریت کا دور پہلے ہی خاصا مختصر ہے۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ 65 سالوں میں قانون ساز اسمبلیاں بس دوسری بار اپنی مدت پوری کرنے جا رہی ہیں کیوں کہ جب بھی جمہوریت کی گاڑی کی رفتار رواں ہونے لگتی ہے ریاست کے حادثے کی پیشی گوئی کر کے لال بتی کا سائرن گاڑی کو رک جانے کا جواز فراہم کرتا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ غیر جمہوری ادوار میں ایسے دلفریب اجتماعات کیوں منعقد نہیں کئے جاتے؟ کیا ہی اچھا ہو کہ جمہوریت پر تنقید کرنے کی بجائے فرد کے حوالے سے بات کی جائے، جو قصور وار ہے اس کے لئے سزا تجویز کی جائے۔ انتخاب کو احتساب میں ڈھالنے کے لئے عوام کو آگہی اور تعلیم سے آراستہ کیا جائے۔ اپنے وسائل کو بروئے کار لانے کی تلقین کی جائے۔ تعصب اور رجعت پسندی کا خاتمہ کر کے قومی ہم آہنگی کا شعور بیدار کیا جائے کیوں کہ جذباتی، غیر سیاسی اور غیر آئینی اقدامات سے قوم کو پہلے ہی ایک ایسی صورتحال کا سامنا ہے جہاں بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ ضرورت ہے کہ نئی نسل کو جسمانی طور پر مفلوج ہونے اور ذہنی انتشار سے بچانے کے اقدامات کئے جائیں۔ ان کی سوچ کو درست سمت فراہم کی جائے کیوں کہ اب وہ بھی سوچنے پر مجبور ہو چکے ہیں کہ کیا صرف سیاست دان ہی کرپٹ ہیں؟
مغربی پاکستان کے رہنماؤں نے 1971ء میں ڈھاکہ میں منعقدہ آئین ساز اسمبلی کے اجلاس کا بائیکاٹ کر کے سیاسی عمل کو روکنے کی کوشش کی تو ریاست دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ مینارِ پاکستان کو یادگارِ پاکستان بننے سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ سیاسی عمل کو جاری رکھا جائے جو قائداعظم کی ترجیحات میں شامل تھا۔ ان کا پاکستان ایک ایسا ملک تھا جہاں تمام قومیتوں کو برابر کے حقوق حاصل ہوں اور کسی ایک فرد یا ادارے کی ٹھیکیداری اور تھانیداری کا کوئی جواز باقی نہ رہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ جب سے اس کو اسلامی جمہوریہ قرار دیا گیا ہے اسلام اور جمہوریت مخالف قوتیں زیادہ پنپ رہی ہیں کیوں کہ اسلام سلامتی، امن اور مساوات کا مذہب ہے اور جمہوریت عام و خاص کی تخصیص نہیں کرتی۔ کرسمس بھی ہمارا اپنا تہوار ہے اس لئے کہ ہم تمام پیغمبروں پر یقین رکھتے ہیں اور محمد ﷺ کو آخری نبی مانتے ہیں، واحد نبی نہیں۔ خدا کرے اس ملک کے عوام کچھ خاص اذہان کے خود ساختہ نظاموں کی بجائے جمہوری روایتوں کے امین لوگوں کو منتخب کر کے ملک کو ترقی کے راستے پر گامزن کرنے میں اپنا کردار ادا کریں کیوں کہ اب یہ پاک سرزمین مزید تجربات کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ ایک نظام کو تسلسل کی ضرورت ہے، پھر سب ٹھیک ہو جائے گا۔
تازہ ترین