• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حضرتِ غالبؔ نے اپنے عہد کے آشوب کو ایک شعر میں یوں بیان کیا تھا؎

حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں

مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں

پھر اِسی غزل میں پاکستان کے عوام کی ذہنی اور نفسیاتی صورتِ حال بھی بیان کر دی ہے؎

چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیز رو کے ساتھ

پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں

گزشتہ کئی برسوں سے ہماری ریاست کے وجود پر زخم پہ زخم لگ رہے ہیں جس کے باعث مسائل کے آتش کدے جگہ جگہ بھڑک اُٹھے ہیں۔ ہم انہیں ظلم کے آتش کدے بھی کہہ سکتے ہیں، کیونکہ ظلم ہی سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ظلم کی تعریف یہ ہے کہ کسی چیز کو اس کی فطرت کے خلاف استعمال کرنا۔ ہمارے ہاں تو انتہائی محدود معاملات فطری انداز میں طے ہو رہے ہیں۔ بالعموم ریاستی ادارے اپنی آئینی حدود سے تجاوز کر جاتے ہیں اور ایک دوسرے کے دائرۂ کار میں مداخلت کرنے میں بڑا فخر محسوس کرتے ہیں۔ اکثر اوقات طاقت کے سفاکانہ استعمال سے گاہے نقیب اللہ محسود کا سانحہ پیش آتا ہے اور گاہے گاہے سانحۂ ماڈل ٹاؤن اور سانحۂ ساہیوال پوری قوم کو ہلا کے رکھ دیتے اور اسے بےبسی اور بےچارگی کی تصویر بنا دیتے ہیں۔ پارلیمان کے ارکان بھی اس اعتبار سے ظالم تصور کیے جائیں گے کہ وہ جن بڑے مقاصد کے لیے منتخب کیے جاتے ہیں، ان پر توجہ دینے کے بجائے ترقیاتی منصوبوں کے لیے بڑی بڑی رقوم حاصل کرنے اور بیوروکریسی میں اپنی مرضی کی تقرریاں اور تبادلے کرانے میں وقت ضائع کرتے ہیں۔ اکثر ایوان سے غائب رہتے ہیں۔ کچھ یہی حال ایگزیکٹو کا ہے جو عوام کی خدمت کرنے کے بجائے اپنے آپ کو حاکم ثابت کرنے میں عمر بھر لگے رہتے ہیں اور بیرونِ ممالک میں بڑی بڑی ایمپائر بنا لیتے ہیں۔ ہمارے سابق وزیرخارجہ اور پاکستان کے چوٹی کے قانون دان اور انسانی حقوق کے زبردست چیمپئن میاں محمود علی قصوری (مرحوم) کے نہایت قابل فرزند جناب میاں خورشید محمود قصوری نے فاضل چیف جسٹس جناب جسٹس آصف سعید کھوسہ کے نام کھلے خط میں اُن مقامات کی نشان دہی کی ہے جہاں جہاں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے رہے ہیں۔

تاریخ اِس امر کی بھی گواہی دیتی ہے کہ ہماری فوجی قیادت نے ماضی میں جب کبھی سیاسی اقتدار پر قبضہ کیا، اس کے نتائج عمومی طور پر جمہوری، سیاسی اور سول اداروں کے ارتقا کے لیے مضر ثابت ہوئے ہیں۔ اس اعتبار سے حادثات پر آنسو بہانے اور غم و غصے کا اظہار کرتے رہنے کے بجائے ان اسباب کا سراغ لگانا اور ان کا مؤثر سدِباب کرنا ہو گا جن سے نظمِ مملکت میں خلل واقع ہوتا ہے، معیشت کو زوال آتا ہے اور قومی ریاست کے اعضا میں ضعف پیدا ہوتا ہے۔ ہمارے فاضل چیف جسٹس جناب آصف سعید کھوسہ نے فاضل چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے فل کورٹ ریفرنس میں جو تقریر کی، اس میں نہایت دانش مندی سے اس پوری صورتِ حال کا ایک جامع حل تجویز کیا ہے اور بڑی صراحت سے ان عوامل کی نشان دہی کی ہے جو ہماری سوسائٹی میں بگاڑ اور عدم توازن پیدا کرنے کا باعث بنتے آئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں غیرمعمولی صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ وہ قانون، آئین اور انصاف کے تقاضوں کا گہرا اِدراک رکھتے اور انگریزی ادب کے نہایت اچھے شناور ہیں۔ اُنہوں نے کسی لاگ لپیٹ کے بغیر اِس حقیقت کا اعتراف کیا کہ عدالتوں میں انیس لاکھ مقدمات زیرِ التوا ہیں اور تین ہزار جج صاحبان اگر دن میں چھتیس گھنٹے بھی کام کریں، تو بھی اُن کو نمٹانا محال ہو گا۔ دراصل وہ حکومت کو یہ تجویز دے رہے تھے کہ جج صاحبان کی تعداد میں معتد بہ اضافہ ہونا چاہیے۔

فاضل چیف جسٹس نے انکشاف کیا کہ پہلے قتل کے مقدمات کے فیصلے اٹھارہ اور بیس برسوں میں ہوتے تھے، اب ہم اِس مدت میں کمی لائیں گے۔ اُن کا عزم تھا کہ وہ مقدمات کے جلد فیصلوں کا نظام قائم کر کے قوم کا قرض ادا کریں گے۔ اپیل کے درجات کم کر کے دو سطح پر لے آئیں گے اور جھوٹے مقدمات کے آگے بند باندھیں گے۔ اُن کا مشاہدہ یہ تھا کہ جھوٹے گواہ اور جھوٹے مقدمات نظامِ انصاف کے لیے بہت بڑے چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں، اُن کا سدِباب ازبس لازم ہے۔ اُنہوں نے واضح طور پر یہ عندیہ بھی دیا کہ سوموٹو اختیارات کا استعمال صرف اس وقت کیا جائے گا جب کوئی دوسرا متبادل موجود نہ ہو۔ وہ اس اختیار کو استعمال کرنے کے لیے قواعد و ضوابط بنانے اور اپیل کا حق دینے کے حامی ہیں۔ اُنہوں نے مسائل کے آتش کدے ٹھنڈے کرنے کے لیے یہ تجویز پیش کی کہ صدرِ مملکت تمام اداروں کے سربراہوں کو میثاقِ حکمرانی پر اتفاق کرنے کی دعوت دیں۔ ان میں پارلیمانی کے علاوہ عسکری اور انٹیلی جنس اداروں کی قیادتیں بھی شامل ہوں جو دیانت داری سے ماضی میں اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں اور آئندہ کے لیے اپنی اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے اچھی حکمرانی کے میکانزم پر اتفاق کریں، کیونکہ اصل مسئلہ اچھی حکمرانی قائم کرنے کا ہے۔ سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے صدرِ مملکت کے بجائے پارلیمان کو یہ کام سونپنے کی تجویز دی ہے۔ میرے خیال میں تمام سیاسی جماعتوں کو فاضل چیف جسٹس کی تجویز کا خیرمقدم کرنا اور اچھی حکمرانی کے خدوخال پر اتفاق کر لینا چاہیے۔ اس دلدل سے نکل آنا ضروری ہو گیا ہے جس میں ہمارا قومی وجود سڑنے لگا ہے۔

قوم حیرت زدہ ہے کہ پنجاب اور وفاقی حکومت نے سانحۂ ساہیوال کو پوری قوم کے لیے بڑی خوفناک شکل دے دی ہے اور ہر شہری کو عدم تحفظ کا شکار کر دیا ہے۔ اب ہر چھوٹے بڑے کو گھر سے نکلنے سے پہلے اپنے ماتھے پر یہ لکھنا ہو گا کہ وہ دہشت گرد نہیں۔ ایک خاندان پر 35گولیاں برسانا درندگی کی انتہا ہے۔ جے آئی ٹی کو تمام منتخب اداروں نے مسترد کر دیا ہے کہ اس میں اُن اداروں ہی کے افراد شامل ہیں جو ادارے اس بہیمانہ کھیل کے محرک ہیں۔ اِس بار وہ بہیمانہ اور سفاک نظام کو ختم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے جو رائے طاہر اور راؤ انوار پیدا کرتا ہے اور ماورائے عدالت مقابلوں کو ایک دل دہلا دینے والے کلچر کی حیثیت دیتا ہے۔ حکومت کی طرف سے اب تک جو اعلانات کیے گئے ہیں، وہ انصاف کے تقاضے پورا کرنے کے بجائے عوام کے اندر تشویش میں اضافے کا باعث بنے ہیں۔

تازہ ترین