• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس ملک کا المیہ یہ ہے کہ یہاں ایسے سیاستدانوں کی بہتات ہے جنہیں اپنے تجربے کی بنیاد پر ایمان کی حد تک یقین ہے کہ تمام لوگوں کو ہمیشہ کیلئے بیوقوف بنایا جا سکتا ہے۔ (امریکی مصنف اور کالم نگار، فرینکلن پی ایڈمز)

وطنِ عزیز میں بے وقوف بنانے کے مشغلے پر محض سیاستدانوں کی اجارہ داری نہیں بلکہ جج ہوں یا جرنیل حسب توفیق سب مسیحا اور نجات دہندہ بن کر قوم سے شغل لگانے اور دل لگی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ البرٹ ہوبرڈ نے زمینی حقائق کا اِدراک کرتے ہوئے کہا تھا، ہر شخص روزانہ کم از کم پانچ منٹ کیلئے بے وقوف بنتا ہے مگر عقلمندی یہ ہے کہ بیوقوفی کا دورانیہ بڑھنے نہ پائے۔ ہمارا قومی المیہ مگر یہ ہے کہ بیوقوفی کا دورانیہ بتدریج بڑھتا ہی چلا گیا کیونکہ بقول آئن اسٹائن، عقل و دانش محدود ہو سکتی ہے مگر بے وقوفی اور حماقت کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر ہمارے ہاں حکومتوں نے کئی بار عوام کے سامنے جھولی پھیلانے کی شعبدہ بازی کی اور لوگوں نے ہر بار ایسی مہمات میں نہ صرف بڑھ چڑھ کر حصہ لیا بلکہ کتے کے منہ میں ہاتھی دانت اُگنے کی امید بھی لگا لی۔ 1965ء کی جنگ میں بھارت نے لاہور سیالکوٹ سیکٹر سے بین الاقوامی سرحد عبور کی تو فیلڈ مارشل ایوب خان نے ٹینکوں کی خریداری کیلئے عوام سے تعاون کی اپیل کی۔ لوگوں نے ’’ٹیڈی پیسہ ٹینک مہم‘‘ میں قومی جوش و جذبے سے حصہ لیا۔ 17دن بعد اقوام متحدہ کے ذریعے جنگ بندی کا راستہ تلاش کیا گیا اور ٹیڈی پیسہ دینے والوں کا جذبہ معاہدۂ تاشقند کے ذریعے سرد کر دیا گیا۔

یادش بخیر! قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے بھی گھاس کھا کر ایٹم بم بنانے کے بعد دورِ اقتدار کے آخری برس لوگوں کو اپنی مدد آپ کے تحت ترقی کرنے کا خواب دکھایا، ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی کے ذریعے اپیل کی گئی کہ روزانہ ایک روپیہ وزیراعظم کے ترقیاتی فنڈ میں جمع کروائیں تو ملک ترقی و خوشحالی کی منازل طے کر سکتا ہے لیکن آج تک لوگ روٹی، کپڑا، مکان کی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔ مردِ مومن مردِ حق، جنرل ضیاء الحق تشریف لائے تو انہوں نے تعلیمی انقلاب کے پیش نظر عوام سے چندہ مانگنے کے بجائے زبردستی رقم وصول کرنے کیلئے اقراء سرچارج لگا دیا۔ یکم جولائی 1985ء سے 30جون 1994ء تک اس مد میں 65ارب روپے کا ’’بھتہ‘‘ وصول کیا گیا لیکن ان پیسوں سے کونسی آکسفورڈ اور کیمرج یونیورسٹی بنی؟ اگر آپ کو معلوم ہو تو ضرور میرے علم میں اضافہ کیجئے گا۔ میاں نواز شریف کی ’’قرض اتارو، ملک سنوارو‘‘ مہم کسے یاد نہیں۔ 2672ارب روپے کے ملکی و غیر ملکی قرضے اتارنے کیلئے کشکول پھیلایا گیا تو سالہا سال کی تگ و دو کے بعد چندہ، قرض حسنہ اور ٹرم ڈیپازٹ شامل کرکے مجموعی طور پر 2ارب 80کروڑ روپے جمع ہوئے۔ ایک ارب 70کروڑ روپے داخلی قرضوں کی مد میں ادا کر دیئے گئے جبکہ باقی ماندہ ایک ارب 10کروڑ روپے اب بھی اکائونٹس میں موجود ہیں۔ 2017ء میں اسٹیٹ بینک نے کمرشل بینکوں کو یہ رقوم واپس کرنے کیلئے کلیم جمع کرنے اور ادائیگی کرنے کیلئے ایک سرکلر بھی جاری کیا لیکن کوئی پیشرفت نہ ہو سکی۔ پھر جنرل پرویز مشرف کے دور میں 2005ء کے زلزلہ زدگان کیلئے صدارتی ریلیف فنڈ تو کل کا قصہ ہے۔ تب بھی سرکاری دبائو پر سرکاری ملازمین کی تین دن کی تنخواہیں اینٹھ لی گئیں، زور و شور سے چلائی گئی مہم کے نتیجے میں بلاناغہ اہم شخصیات کی جانب سے عطیات دیئے جانے کا اعلان ہوتا رہا مگر زلزلہ متاثرین کی آباد کاری کا مسئلہ تب تک حل نہ ہوا جب تک غیر ملکی امداد کا چھابہ نہ آ گیا۔

محولا بالا تجربات کے باوجود سابقہ چیف جسٹس، جسٹس ثاقب نثار نے دیامیر بھاشا اور مہمند ڈیم کی تعمیر کیلئے اپنی نگرانی میں فنڈ قائم کیا تو لوگ ایک بار پھر جھانسے میں آگئے۔ میں نے گزشتہ برس 26جولائی کو لکھے گئے کالم میں واضح حساب کتاب کی روشنی میں یہ بتانے کی کوشش کی کہ چندہ جمع کر کے ڈیم بنانا کسی دیوانے اور مجذوب کا خواب ہی ہو سکتا ہے کیونکہ حقیقت میں ایسا ممکن نہیں۔ میں نے لکھا ’’مہمند ڈیم کو چھوڑیں، فی الحال صرف دیامیر بھاشا ڈیم کی بات کرتے ہیں۔ اس منصوبے کی لاگت 1450ارب روپے ہے۔ صرف پانی ذخیرہ کرنے یعنی ڈیم بنانے کیلئے 650ارب روپے درکار ہیں جبکہ باقی ماندہ رقم بجلی پیدا کرنے کیلئے ٹربائن لگانے اور اس سے متعلقہ دیگر انفرااسٹرکچر کیلئے درکار ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے 2018ء میں اس منصوبے کی منظوری دی تو زمین کی خریداری اور متاثرین کی آباد کاری کیلئے 101ارب روپے مختص کئے گئے۔ اس میں سے 72ارب روپے جاری کر دیئے گئے جس سے زمین کے حصول کا 85فیصد کام مکمل کر لیا گیا ہے۔ فی الوقت تو ڈیم بنانے کیلئے کھولے گئے اکائونٹ میں اوسطاً یومیہ ایک کروڑ 60لاکھ روپے آ رہے ہیں جو کچھ عرصہ بعد بتدریج کم ہونا شروع ہو جائیں گے لیکن فرض کریں عطیات دینے کا یہ جذبہ ماند ہونے کے بجائے بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ اگر روزانہ 2کروڑ روپے آئیں تو 1450ارب روپے جمع ہونے میں کتنا عرصہ درکار ہو گا؟ 199سال۔ اچھا چلیں! ایک اور پہلو سے نہایت مثبت اور قابلِ عمل انداز میں اس کارِ خیر کا جائزہ لیتے ہیں، یہ منصوبہ خیراتی انداز میں مکمل نہیں کیا جا سکتا تو کیا ہوا؟ حکومت سے تعاون کرنے کیلئے آٹے میں نمک کی حد تک تو فنڈز جمع کر کے دیئے جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ڈیم کیلئے زمین کے حصول اور متاثرین کی آباد کاری کیلئے جو 101ارب روپے درکار ہیں، وہ عطیات کی صورت میں جمع کر لئے جائیں۔ لیکن یہ آٹے میں نمک برابر رقم اکٹھی کرنے میں بھی 5050دن یعنی تقریباً 13سال لگ جائیں گے اور تب تک یہ منصوبہ تاخیر کا شکار ہوا تو لاگت بھی کئی گنا بڑھ چکی ہو گی‘‘۔

بہرحال ڈیم فنڈ کیلئے 6ماہ کے دوران ٹی وی چینلز اور اخبارات نے 13ارب روپے کے مفت اشتہارات چلائے اور اس کے بدلے میں صرف 9ارب روپے جمع ہو سکے۔ جس روز جسٹس ثاقب نثار چیف جسٹس کے طور پر سبکدوش ہو رہے تھے، ڈیم فنڈ اکائونٹ میں 9ارب 28کروڑ موجود تھے اور اب 9ارب 42کروڑ موجود ہیں یعنی 7دن میں محض 13کروڑ کا اضافہ ہوا۔ اب جبکہ نئے چیف جسٹس برملا کہہ چکے ہیں کہ وہ مقدمات کے فیصلوں میں غیر ضروری تاخیر کے خلاف ڈیم بنانا چاہتے ہیں، جو ان کے فرائض میں شامل ہے تو کیوں نہ اس ڈیم فنڈ کو ختم کردیا جائے تاکہ ہم جیسے بلڈی ڈیم فول خوابوں کی دنیا سے نکل آئیں اور ڈیم بنانے کیلئے کوئی حقیقی تدبیر کی جا سکے۔ 

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین