• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ روز قبل ساہیوال میں کائونٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ (CTD) پنجاب کے اہلکاروں کے ہاتھوں کار سوار خاندان پر اندھا دھند فائرنگ کے نتیجے میں 4 افراد کے سفاکانہ قتل نے مجھ سمیت ہر پاکستانی کو دکھی کردیا ۔ سانحہ ساہیوال کا سب سے زیادہ دردناک پہلو یہ تھا کہ بچوں کے سامنے اُن کے والدین پر گولیاں برساکر انہیں قتل کیا گیا۔ متاثرہ فیملی لاہور سے شادی میں شرکت کیلئے ساہیوال جا رہی تھی، جیسے ہی اُن کی گاڑی ساہیوال ٹول پلازہ کے قریب پہنچی، سیکورٹی اہلکاروں نے ٹائروں پر فائرنگ کردی جس کے باعث گاڑی سڑک کنارے رک گئی اور پھر تین اطراف سے گاڑی پر فائرنگ کی گئی۔ فائرنگ کے بعد خاتون اور بچوں کی چیخ و پکار سن کر سی ٹی ڈی اہلکار قریب آئے تو گاڑی میں موجود زخمی خلیل نے التجا کی کہ ’’ ہم غیر مسلح ہیں، ہمارے ساتھ بچے ہیں اور ہم شادی میں شرکت کیلئے جارہے ہیں، ہمیں مت مارو۔‘‘ مگر سی ٹی ڈی اہلکاروں نے ایک نہ سنی اور تین بچوں 10سالہ عمیر، 7 سالہ منیبہ اور 4 سالہ ہادیہ کو کھینچ کر گاڑی سے باہر نکالا اور بچوں کے سامنے کار میں موجود خلیل، اُس کی اہلیہ نبیلہ، 13 سالہ بیٹی اریبہ اور ڈرائیور ذیشان پر گولیاں برسادیں جس کے نتیجے میں چاروں افراد موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے۔ بعد ازاں جرم پر پردہ ڈالنے اور اپنے کارنامے پر داد و تحسین وصول کرنے کیلئے سی ٹی ڈی نے یہ موقف اختیار کیا کہ مارے جانے والے افراد دہشت گرد تھے جن کا تعلق کالعدم تنظیم داعش سے تھا اور ان کے قبضے سے خود کش جیکٹس، ہینڈ گرنیڈ اور بارودی مواد برآمد ہوا مگر سانحہ کے چند گھنٹے بعد عینی شاہدین کی جانب سے بنائی جانے والی ویڈیوز جس میں مقتولین فیملی اور بچوں کے ساتھ نہتے نظر آرہے تھے، سوشل اور مقامی میڈیا پر وائرل ہونے پر پنجاب پولیس نے اپنا موقف تبدیل کرتے ہوئے کار ڈرائیور ذیشان کو دہشت گرد قرار دے دیا۔

کائونٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ (CTD) کا قیام 2010ء میں عمل میں لایا گیا جس میں اسے غیر معمولی اختیارات حاصل ہیں اور یہ ادارہ کسی بھی شخص کو دہشت گردی کے شبے میں بغیر وارنٹ گرفتار کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ سانحہ ساہیوال سے قبل اس ادارے پر ماورائے عدالت قتل سمیت لوگوں کو اغوا کرنے کے الزامات بھی لگتے رہے ہیں اور اگر سی ٹی ڈی کے ’’کارناموں‘‘ پر تحقیقات کی جائیں تو اِس میں بڑی تعداد ایسے بے گناہ لوگوں کی سامنے آئے گی جس میں انہیں ’’دہشت گرد‘‘ قرار دے کر انکائونٹر میں ماردیا گیا۔ ادارے کی بے لگام کارروائیوں سے ایسا لگتا ہے کہ اس محکمے کو محض شبہے کی بنیاد پر لوگوں کے قتل کرنے کا لائسنس دے دیا گیا ہے۔ قابل افسوس بات یہ تھی کہ واقعہ کے بعد وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت پولیس کا دفاع کرتے نظر آئے اور سی ٹی ڈی کے گھنائونے جرم کو کور اپ کیا گیا۔

سانحہ کا سب سے دردناک پہلو یہ تھا کہ ڈرائیور ذیشان کی بوڑھی والدہ نے اپنے بیٹے کی موت پر روتے ہوئے کہا کہ ’’میرا بیٹا دہشت گرد نہیں تھا، سی ٹی ڈی اپنا جرم چھپانے کیلئے میرے بیٹے پر دہشت گردی کا جھوٹا الزام لگارہی ہے، سی ٹی ڈی نے میرے بڑھاپے کا سہارا مجھ سے چھین لیا ہے مگر خدارا میرے بیٹے کو دہشت گرد قرار نہ دیں۔‘‘ اگر سی ٹی ڈی کا موقف درست تسلیم بھی کرلیا جائے کہ کار ڈرائیور ذیشان دہشت گرد تھا تو جب گاڑی کو روکا گیا تو اُسے گرفتار کیا جاسکتا تھا نہ کہ گولیاں برساکر گاڑی میں سوار تمام افراد کو قتل کردیا جاتا ،جس کی مثال بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو ہے جسے جاسوسی کے جرم میں مارنے کے بجائے گرفتار کیا گیا مگر افسوس کہ بے گناہ افراد کو دہشت گرد قرار دے کر قتل کردیا گیا۔

وزیراعظم عمران خان کا یہ کہنا کافی نہیں کہ انہیں سانحہ ساہیوال پر صدمہ ہوا ۔ سانحۂ ساہیوال بذات خود ایک دہشت گردی ہے جس کی مہذب معاشرے میں کوئی گنجائش نہیں۔ ایک خاندان کے پرامن افراد کو دہشت گردی کے نام پر فائرنگ کرکے ہلاک کرنا ناقابل معافی جرم ہے اور اس سے بڑا جرم مقتولین پر دہشت گرد ہونے کا الزام لگانا ہے جس کی تحقیقات ہونا اور ملزمان کو کڑی سے کڑی سزا ملنا ضروری ہے۔ عدلیہ کو چاہئے کہ وہ اس معاملے پر فوری از خود نوٹس لے۔ گوکہ جسٹس آصف سعید کھوسہ از خود نوٹس کے حامی نہیں مگر یہ بے گناہ انسانی جانوں کا معاملہ ہے جس میں انصاف ہوتا نظر آنا چاہئے، جس کی پنجاب حکومت یا پولیس سے توقع نہیں۔

تازہ ترین