• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چونکہ فیصلے میں کہا گیاہے کہ ایجنسیوں کے ذریعے رقوم حاصل کرنے والوں میں جام صادق بھی تھے ۔سندھ کے ماہرین کو اس معاہدے پر اور بھی کئی اعتراضات ہیں اور سندھ کا موقف یہ ہے کہ یہ معاہدہ مجموعی طور پر پنجاب کے مفادات کو مدنظررکھ کر بنایاگیا اور یہ کہ سندھ پنجاب پانی تنازع کے پس منظر میں اس معاہدے میں سندھ کے کئی تاریخی مواقف کوترک کردیاگیاہے (وقت آنے پر اس سلسلے میں ایک تفصیلی کالم لکھا جاسکتاہے) اس وقت اگر سندھ کا کوئی ماہر1991ء کے معاہدے پر اعتراض کرتا ہے تو جواب میں کہاجاتاہے کہ اگر سندھ کواس معاہدے پر اعتراضات ہیں تو پھر بار بار سندھ یہ مطالبہ کیوں کرتاہے کہ معاہدے پر عملدرآمد کیاجائے؟ یہ درست ہے اس کا ایک الگ پس منظر ہے سندھ کاموقف ہے کہ جو بھی معاہدہ کیاگیاہے اس پر سندھ کے اعتراضات کے قطع نظراس معاہدے میں جوکچھ کہاگیا ہے اس پر پنجاب اور خیبر پختونخوا عمل کیوں نہیں کرتے؟ مثال کے طورپر1991ء سے1999ء کے معاہدے پر جزوی عملدرآمد کیاجارہاہے اور دریامیں کمی کے وقت دریاکاپانی1991ء کے معاہدے میں کئے گئے اصل کے تحت تقسیم کرنے کے بجائے ایک نام نہاد اصول Historical Users کی بنیاد پر کی جارہی ہے جس کا کوئی جواز نہیں ہے۔جہاں تک1991ء میں سی سی آئی کے اجلاس کاتعلق ہے تو حقائق کے مطابق 16مارچ1991ء کو وزرائے اعلیٰ کی طرف سے پانی کے معاہدے پر دستخط کے بعد سی سی آئی کا اجلاس 21 مارچ 1991ء کو ہوا جس میں اس معاہدے کی توثیق کی گئی جلد ہی1991ء میں سی سی آئی کا ایک اور اجلاس ہوا جس کے ایجنڈے پر کہیں بھی کالاباغ ڈیم کاذکر نہیں ہے یہ اجلاس ٹین ڈیلیز کے حوالے سے بلایاگیا تھا اس اجلاس میں پنجاب اور سندھ میں تنازع یہ تھا کہ ٹین ڈیلیز کے تحت صوبوں میں پانی کی تقسیم کو فلڈ فلوز اور مستقبل کے اسٹوریجز کے ساتھ لنک کیاجائے یانہیں۔ اس اجلاس کی صدارت وزیراعظم میاں نواز شریف نے کی تھی، اجلاس میں پنجاب کا موقف یہ تھا کہ ٹین ڈیلیز کو فلڈ فلوز اور مستقبل کے اسٹوریجز کے ساتھ لنک کیاجائے اس فیصلے میں اجلاس کے منٹس میں بھی پنجاب کاموقف درج کیاگیا ہے منٹس میں اس کے جواب میں دیا گیا سندھ کاموقف بھی درج ہے جو انگریزی میں اس طرح لکھاہواہے
"Goverment Of Sindh Expressed the view that the providing data on 10 Daily average allocations on a System wise basis was an integral part of the accord. It would not be appropriate to link issues such as development of future Storages etc. with this provision of the Accord. The Accord should be religiously implemented and there should be openness in dealing with all issues"
اردومیں معنی ”حکومت سندھ نے رائے ظاہر کی کہ نظام کی بنیاد پر 10 ڈیلیز کی اوسط ایلوکیشنز کا ڈیٹا فراہم کرنا معاہدے کا اندرونی معاملہ ہے یہ بات مناسب نہیں ہوگی کہ دیگر ایشوز مثلاً مستقبل میں اسٹوریجز بنانا وغیرہ کو معاہدے کی اس شق کے ساتھ نتھی کیاجائے معاہدے پر من وعن عمل کیاجائے اور یہ سب کچھ شفاف طریقے سے کیاجائے۔
سی سی آئی کے اس اجلاس کے منٹس کے مطابق سی سی آئی نے اپنے فیصلوں میں اس ایشو پر اپنافیصلہ دیتے ہوئے جو کچھ لکھا اسے من وعن انگریزی میں پیش کیاجارہاہے۔
"The council of common interests authorised the 10 Daily Seasonal system wise Adjusted Allocations (excluding flood flows and future Storages) provided by the provinces (annex-II page5 as revised) to become part and parcel of the water Accord."
اس فیصلے کو پڑھنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ سی سی آئی نے 10 ڈیلیز کو فلڈفلوز اور فیوچر اسٹوریجز سے لنک کرنے کے بارے میں پنجاب کے موقف کو رد کرتے ہوئے سندھ کے موقف کو پانی کے معاہدے کاحصہ بنایا جبکہ ان منٹس میں کہیں بھی کالاباغ کا ذکر نہیں ہے اور نہ یہ ذکر ہے کہ کسی وقت بھی کالاباغ ڈیم بنانے اور کوئی بھی ڈیم بنانے پر غور کیا گیا تو اگر 1991ء میں سی سی آئی کا کوئی اور اجلاس ہوا ہے جس کے ایجنڈے پر کالا باغ ڈیم کاایشو تھا اور اگر اسے سی سی آئی نے منظور کیا اور اس سلسلے میں منٹس ہیں تو برائے کرم لاہور ہائی کورٹ وہ منٹس حاصل کرکے عام لوگوں کیلئے Release کرے تو انصاف کا بول بالا ہوگا اور اگر یہ سب کچھ نہیں ہوا تو قابل احترام چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے بڑے ادب کے ساتھ یہ توقع رکھی جاسکتی ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنے فیصلے کا Corrigendum ظاہر کریں گے۔ اس بات کا تذکرہ کرنابھی لغو بات نہیں ہوگی کہ سندھ کے ماہرین اور سیاسی حلقے توکجا سندھ کے عام لوگ لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے بارے میں کیارائے زنی کررہے ہیں۔ واضح کرتا چلوں کہ سندھ کے لوگ چونکہ موئن جو دڑو سے بھی پہلے دنیا کی ایک ترقی یافتہ تہذیب سے تعلق رکھتے ہیں جس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ ایک وقت میں دریائے سندھ کے پانی کے آگے کوئی رکاوٹ نہیں تھی اور دریائے سندھ کاپانی بلاروک ٹوک سمندر میں داخل ہوتا تھا اس وقت ٹھٹھہ اور بدین اضلاع میں متعدد سمندری بندرگاہ ہوتی تھیں جن سے نہ صرفسندھ کے لوگ بلکہ اردگرد کی ریاستیں جو اس وقت ہندوستان میں ہیں مثلاً کچھ، گجرات اور راجستھان وغیرہ کے لوگ بھی ان بندرگاہوں کے ذریعے اورخاص طورپر بدین کی اعلیٰ بندرگاہ، جس کے اس وقت صرف نشانات ہیں کو سمندر کے ذریعے بیرون ملک سمندری جہازوں کے ذریعے سفرکرنے کیلئے استعمال کرتے تھے۔ علاوہ ازیں کیٹی بندر اور ٹھٹھہ کی ساحلی پٹی پر کپڑا بننے کے کارخانوں کی ایک بڑی تعداد واقع تھی ان کارخانوں میں ململ نام کا ایک عالیشان کاٹن کا کپڑا بنا جاتا تھا جو فقط امیر ترین لوگ استعمال کرتے تھے یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ یہ کپڑا ململ مصر کے فدائین بادشاہ منگواتے تھے اور اس کے مرنے کے بعد ان کی ممیوں کو اس کپڑے میں لپیٹ کر محفوظ کیاجاتاتھا۔
بات ہورہی تھی، لاہور ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ اور سندھ کے عام لوگوں کی رائے میں اور یہ کہ سندھ کے لوگ تاریخی طور پر ایک مہذب قوم سے وابستہ ہونے کی وجہ سے عدالتوں کا بہت احترام کرتے ہیں اسی طرح سندھ کے لوگ لاہور ہائی کورٹ کابھی بہت احترام کرتے ہیں مگر لاہور ہائی کورٹ کے بارے میں ان کے کچھ ایسے بھی احساسات ہیں جن کی وجہ سے وہ اس ہائی کورٹ اور اس کے فیصلوں کے بارے میں اپنی رائے ظاہر کرتے وقت بڑے محتاط ہوتے ہیں، ایسا کیوں ہے؟ اس سلسلے میں اس کالم کے ذریعے یہ ذکرکرناچاہتا ہوں کہ حال ہی میں اندرون سندھ ایک ٹوٹی پھوٹی بس میں پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہوئے اور سروں کو آج کے دور میں بھی پٹکوں سے ڈھانپے ہوئے دیہاتی سندھیوں کو لاہور ہائی کورٹ کے مذکورہ فیصلے کے بارے میں اپنے آپ میں رائے زنی کرتے ہوئے جو سناتھا وہ یہاں بڑے ادب اور احترام کے ساتھ اگر رقم کروں تو امید ہے کہ اسے میری گستاخی تصور نہیں کیاجائے گا۔ یہ بات بھی میں جنگ کے اس کالم کے ذریعے اپنے ملک کے بھائیوں کو گوش گزار کرتا چلوں کہ اندرون سندھ ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں جو پھٹی پرانی بسیں چلتی ہیں اور ان میں بیٹھے ہوئے پھٹے پرانے اور میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس ہاریوں اور ہاری نما ان دیہاتیوں کی باتیں سنیں تو آپ حیران ہوجائیں گے ہم صحافی جب پریس کلب میں بیٹھ کر کسی ایشو پر بحث کرتے ہیں تو ہم میں سے اکثر کے دلائل Ifs اور Buts یا چونکہ چنانچہ پر ختم ہوتے ہیں مگر یہ دیہاتی لوگ چونکہ چنانچہ کا سہارا نہیں لیتے مگر اپنے rude اور اجٹ لہجے میں ہرایشو کی جڑ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں ان پھٹی پرانی بسوں کو دیہاتی لوگوں کی موبائل پارلیمینٹ کہتاہوں۔ میں اکثر اسلام آباد اور کراچی کے اپنے صحافی دوستوں کو تجویز دیتاہوں کہ وہ اچانک خاموشی سے ان بسوں میں سفرکریں اور پھر پٹکہ پہنے ہوئے سندھ کے یہ دیہاتی لوگ نہ صرف سندھ اور پاکستان کے ایشوز بلکہ بین الاقوامی ایشوز پر اپنے ایک خاص انداز میں جو تبصرے کرتے ہیں وہ ریکارڈ کریں۔حال ہی میں، میں نے اندرون سندھ ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں تک جانے والی ایک ایسی پھٹی پرانی بس میں سفر کیا۔ سفر شروع ہوتے ہی اس موبائل پارلیمینٹ میں بحث شروع ہوگئی اور کافی حد تک ساری بس کے مسافر اس بحث میں حصہ لے رہے تھے اس دن موضوع لاہور ہائی کورٹ کا وہ شارٹ آرڈر تھا جس کے ذریعے کورٹ نے وفاقی حکومت کو ہدایات جاری کیں کہ کالاباغ ڈیم تعمیر کیاجائے۔ ایک مسافر کی آواز آئی، سنا، ہمارے بادشاہ صوبے پنجاب کی بڑی کورٹ نے کالاباغ ڈیم بنانے کا اعلان کیا ہے۔ دوسرے نے جواب میں زوردار انداز میں کہا کہ یار ہمارے بادشاہ صوبے کے سارے لوگ بادشاہ ہیں وہاں کے لوگوں کاذکرسنتے ہی مجھے تو کپکی لگ جاتی ہے یہ سن کر اکثر مسافر زور زور سے ہنسنے لگے اسی دوران ایک مسافر جو نوجوان تھا اور پٹکے کے بجائے سندھی ٹوپی پہنے ہوئے تھا، تبصرہ کرتے ہوئے ناقدانہ انداز میں سوال کرنے لگا کہ پہلے بھٹو صاحب کو پھانسی دی گئی کیا اب سندھ کو پھانسی دینے کا پروگرام ہے؟ اس کے برابر میں بیٹھے ہوئے مسافر نے جو اس کاعزیز لگتاتھا نوجوان کو جھڑکتے ہوئے کہا کہ ایسی باتیں نہیں کرتے‘ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں مگر نزدیک بیٹھے ہوئے ایک مسافر سے نہیں رہاگیا اور اس نے جذباتی انداز میں کہا کہ نوجوان صحیح تو کہتاہے بھٹو کوپھانسی دینے کے بعد بھی ہمارے مہربانوں کے پیٹ نہیں بھرے اب شاید ہماری دنیا ہی تاراج کرنے کے ارادے ہیں اس کے بعد اکثر مسافر یااس کی تائید کرنے لگے یا زورزور سے ہنسنے لگے۔
تازہ ترین