• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سابق امریکی صدر باراک اوباما کی نیلسن منڈیلا کی آخری رسومات کے دوران کینیڈین اور برطانوی وزیر اعظم کے ساتھ لی گئی سیلفی نے دنیا بھر میںمقبولیت کے ریکارڈ توڑ ڈالے۔ یہ سیلفی محض ایک تصویر نہیں بلکہ ایسا انقلاب ثابت ہوئی، جس کی زد میں آئےکروڑوںنوجوان طویل عرصےبعد بھی بہکے بہکے سے معلوم ہوتے ہیں۔ شادی بیاہ کی تقریبات ہوں یا کسی کی تدفین، مذہبی فرائض کے دوران کی جانے والی عبادتیں ہوں یا احتجاج میں کھڑے مظاہرین کی دلجوئی کا موقع، بچے اور بڑے ہر موقع پر ہاتھ میں اسمارٹ فون اٹھائے سیلفی لیتے نظر آتے ہیں ۔سیلفی کے سحر میں ہر شعبے اور طبقے کے افراد جکڑے ہوئے ہیں۔ اس کے بڑھتے رجحان (کریز) کی بدولت چند سال قبل آکسفورڈ ڈکشنری کی جانب سے ’سیلفی‘ کو سال کا سب سے زیادہ استعمال کیا جانے والا لفظ بھی قرار دیا جاچکا ہے۔سیلفی کے لغوی معنی کی بات کی جائے تو اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ اپنی تصویر انٹرنیٹ یا سوشل میڈیا پر پھیلائی جائے۔سیلفی کو شیئر کرنے سے متعلق نوجوانوں کا کہنا ہے کہ جب سوشل میڈیا پر ایک سانولے اور کم پرکشش والے چہرے کو فلٹرز کی مدد سے خوبصورت بناکر پوسٹ کیا جاتا ہے تو تعریف و توصیف کی مد میں آنے والے لائکس اورکمنٹس خوداعتمادی کوتسکین بخشتے ہیں۔ لیکن طبی ماہرین حتٰی کہ سائنسدان بھی سیلفی کو ایک ایسی وبا تسلیم کرنے لگے ہیں، جو خود اعتمادی کے بجائے خود پسندی کےجراثیم تیزی سے بڑھانے کا سبب بن رہی ہے۔

اس ضمن میں ڈیجیٹل کیمروں (جس کے تخیل نے کیمرے کے حامل فون کی طرف ہماری رہنمائی کی) کے موجد ڈاکٹر مائیکل ٹومپ سیٹ کے بارے میں شاید آپ بھی یہ رائے رکھتے ہوں کہ وہ جنونی حد تک تصاویروں کے شوقین فوٹوگرافر میں سے ایک ہوں گے۔ لیکن حقیقت اس سے بالکل مختلف ہے، وہ تصویر لینے کے اس بڑھتے رجحان کے سبب اپنی ایجاد پر افسوس کا اظہارکرتے ہیں۔ ڈاکٹر مائیکل ٹومپ سیٹ کا کہنا ہے کہ جب لوگ ڈیجیٹل کیمروں سے سیلفی لیتے ہیں تو انہیں افسوس ہوتا ہے۔ ڈیجیٹل کیمروں کا موجد خود کبھی سیلفی نہیں لیتا کیونکہ ان کے نزدیک یہ بالکل غیر ضروری کام ہے۔ 20فیصد امریکی نوجوان اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ وہ تقریباً ہر وقت آن لائن رہتے ہیں اور ان کی توجہ کا مرکزسوشل میڈیا پر اَپلوڈ کی جانے والی تصاویر ہیں۔2014ء میں ہوئے ایک سروے کے مطابق ،امریکی نوجوانوں نے تصاویر شیئر کرنے کے لیےسوشل میڈیا کی تمام ایپس میں سے انسٹاگرام اور ٹوئٹرکو مقبول ترین سوشل نیٹ ورک کے طور پر استعمال کیا۔ تصاویر کو شیئر کرنے سے متعلق تحقیق کار اور نظریاتی ماہرین اس اہم نکتے کی جانب اشارہ کررہے ہیں، جس کے تحت اسمارٹ فون سے تصاویر کھینچنے، محفوظ رکھنےاور اسے سوشل میڈیا پر شیئر کرنےکے بڑھتے رجحان کے باعث بے چینی اور یادداشت کی کمزوری جیسے امراض میں اضافہ ہورہا ہے۔ ماہرین نفسیات کے نزدیک اس شوق کا سب سےمنفی اثر انسان کی یادداشت پر پڑتا ہے اور کسی بھی معاملے کو یاداشت میں محفوظ کرنے کی صلاحیت کم ہوتی جاتی ہے اور ایک وقت ایسا بھی آجاتا ہے کہ جب اسے اپنی زندگی کے اہم واقعات کو بھی دوبارہ یاد کرنے کے لیے ان تصاویر کا سہارا لیناپڑتا ہے۔یہی نہیں اکثر ماہرین کی رائے یہ بھی ہے کہ نوجوانوں میںتصویر کشی کے رجحان کے سبب ان کی زندگی ایک محدود دائرے میں قید ہوجاتی ہے اور اگر کسی سبب وہ اپنی سیلفی نہ لے سکیںتو وہ بے چینی اور جھنجھلاہٹ کا شکار ہوجاتے ہیں۔سیلفی اور تصویر کشی کا جنون نوجوانوں کو الگ تھلگ رہنے اور نفسیاتی امراض میں مبتلا کرنے کا باعث بھی بن رہا ہے۔ ماہرین حد سے زیادہ سیلفی کا شوق رکھنے والے حضرات کو نفسیاتی مریض قرار دے چکے ہیں۔

تحقیق کا ر سوشل میڈیا کے استعمال اور نفسیاتی مسائل کے درمیان خاص تعلق کو دریافت کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جو شخص روزانہ دو گھنٹے سے زیادہ سوشل میڈیا ایپس کا استعمال کرتا ہے، وہ ان کا خاص اثر قبول کرنے لگتا ہے۔ مثال کے طور پرتصاویر شیئر کرنے کے بعد دوستوں کی جانب سے آیا ہوا رد عمل ایک خاص اثر رکھتا ہےاور اکثر نوجوان خود کو ویسا ہی سمجھنے لگتے ہیں۔ بعض نوجوان اس سرگرمی کو اس قدر سنجیدگی سے لیتے ہیں کہ اگر کسی پوسٹ پر حسب توقع لا ئیکس موصول نہ ہوں تو ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ گزشتہ سال کی ایک رپورٹ نے یہ ثابت کیا ہے کہ نوجوانوں میں سوشل میڈیا کے دباؤ کی وجہ سے بوٹوکس اور ڈرمل فلر جیسی کاسمیٹک سرجری کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔ رپورٹ میں وضاحت کی گئی ہے کہ دوست یا رشتہ دار نوجوانوں کو جسم کی بناوٹ پر توجہ دینے کے لیے اکساتے رہتے ہیں، جس کے سبب وہ اپنی ظاہری شکل و صورت کے حوالے سے تشویش میں مبتلا ہونے لگتے ہیں۔سیلفی کا حد سے زیادہ جنون عوامی مقامات پر نوجوانوں کوایسی حرکتیں کرنے اور خطرات قبول کرنے پر بھی مجبور کر دیتا ہے، جہاں ان کی سلامتی کے حوالے سے ذمہ دارانہ رویہ بہت پیچھے رہ جاتا ہے اور نتیجتاً سیلفی لینے والے کو اکثر جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس ضمن میں ایسے کئی حادثے آپ کی نظر سے بھی گزرے ہوں گے، جن کے تحت کئی نوجوان اپنی قیمتی جانیں گنوابیٹھے ہیں۔ لہٰذا ا خیال رکھیے اور محتاط رہیے کیونکہ زندگی بار بار نہیں ملتی۔

تازہ ترین