• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 بلا شبہ دنیا بھر میں امن وامان کی بحالی میں بنیادی کردار سرکاری و نجی سکیورٹی اداروں کا ہوتا ہے ۔ پاکستان میں بھی گزشتہ چند عشروں سے شہروں اور قصبات میں امن وامان کی مخدوش صورت حال، پولیس کی نااہلی،ناقص کارکردگی کے باعث دہشت گردی اور لوٹ مار کی وارداتوں کے ستائے شہریوں ، بڑے بڑے اداروں ،بنکوں،تاجروںاور کاروباری طبقے حتی کہ گھروں ، گلیوں، شاپنگ مالز،ملٹی نیشنل کمپنیوں ،پٹرول پمپس، پرچون کی دکانوں، باربر شاپس یا ملک شاپس پر سیکیورٹی گارڈزرکھنافیشن بنتا گیا اورصاحب حیثیت افراد نے سکیورٹی گارڈزکی خدمات حاصل کیں۔ آج ہر طرف سکیورٹی کمپنیوں اور گارڈز کی بہتات نظر آتی ہےلیکن عوام اور ادارے اس کے باوجود غیر محفوظ ہیں۔

بنک، دفاتر، گھر، تعلیمی ادارے کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں نجی گارڈ خدمات انجام نہ دے رہے ہوں۔ اگر یہ سب نجی گارڈ کو ہی کرنا ہے تو پھر پولیس فورس کا کیا کام ہے؟ کیا ان کا کام صرف وی آئی پی ڈیوٹی ، مساجد یا مذہبی اجتماعات کے باہر پہرہ دینا ہی رہ گیاہے؟ بعض ذرائع کے مطابق،پولیس کی جانب سے نجی دفاتر، بنکوں اور اداروں کے مالکان کو ہدایت کی جاتی ہے کہ اپنی حفاظت کا بندوبست خود کریں۔ جس کے باعث اداروں میں خوحفاظتی تدابیرکے تحت نجی سکیورٹی گارڈز کی تعیناتی کے لیے سکیورٹی کمپنیوں کی خدمات حاصل کی اور اس بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ سے نجی سکیورٹی اداروں کو فروغ حاصل ہوا اور کچھ ہی عرصے میں دیکھتے ہی دیکھتے شہر میں نجی سکیورٹی کمپنیوں کا جال پھیلتا گیا۔ بلاشبہ یہ قابل تعریف قدم تھا ،لیکن پالیسی سازوں نے نجی سیکیورٹی اداروں کو ایک ضابطہ اصول کے احاطے میں لانے کے لئے کوئی قواعد اور ضوابط وضع نہیں کئے ،جس کا دل چاہا سکیورٹی کمپنی قائم کر لی اورنجی کمپنیوں اور بنکوں کو بڑے بڑے پیکیجز پر سکیورٹی گارڈز فراہم کئے جانے لگے جب کہ ڈیوٹی کی ادائیگی کرنے والے گارڈ کو انتہائی قلیل تنخواہ پر 12 سے 18 گھنٹے یومیہ پر ملازم رکھا گیا۔المیہ یہ ہے کہ نجی سکیورٹی کمپنیوں نے ایس او پی (Standard Operating Procedure)کی خلاف ورزی کرتے ہوئے،بجائے ریٹائرڈ فوجیوں یا پولیس اہل کاروں کے، غیر تربیت یافتہ ،ناخواندہ شہر اور بیرون شہر کے افرادکی گارڈز کی حیثیت سے بھرتیاںکیںاور 18سال سے 65سالہ ضعیف افراد کو کم اجرت پر بھرتی کیا گیا ،جس کے منفی نتائج آئے روز میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں ۔کراچی پولیس کےسربراہ کے مطابق شہر میں 2500 نجی سکیورٹی کمپنیاں کام کر رہی ہیں، جن میں80ہزاراہل کار خدمات انجام دیتے ہیں، لیکن ان کی بھرتی کے وقت یہ کمپنیاںقواعد و ضوابط اور احتیاطی تدابیرپر عمل نہیں کرتیں۔

شہری حلقوں کا کہنا ہے کہ چند نجی سکیورٹی کمپنیوں نے تو ملکی قواعد و ضوابط کے مطابق اداروں کو معیاری خدمات فراہم کیں لیکن ان کے علاوہ دیگر کمپنیاںبذات خود سکیورٹی رسک بن گئی ہیں ۔اس بات کی تصدیق اس وقت ہو گئی جب سابق رکن قومی اسمبلی علی رضا عابدی کے ہائی پرو فائل قتل کیس میں مقتول کی حفاظتی ڈیوٹی پر مامور سکیورٹی گارڈ کی ناقص کارکردگی پولیس رپورٹ کا حصہ بنی۔ نجی سکیورٹی کمپنی کی غفلت پر محکمہ داخلہ سندھ نے مذکورہ سیکورٹی کمپنی کا لائسنس معطل کردیا۔ذرائع کے مطابق سکیورٹی کمپنی کا گارڈ حملے کے وقت ڈیوٹی پرتعینات تھا جس کا کام علی رضاعابدی کی جان بچاناتھا لیکن موقع واردات پر موجود سکیورٹی گارڈ کا اسلحہ نہیں چلا۔ شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ سکیورٹی گارڈ غیر تربیت یافتہ تھا اور اس کے پاس موجود اسلحہ بھی ناکارہ تھا۔۔قابل ذکر بات یہ ہےکہ محکمہ دا خلہ کی جانب سے مذکورہ سکیورٹی کمپنی کو علی رضا عابدی قتل کیس میں غفلت برتنے پر اظہار وجوہ کانوٹس جاری کیاگیا تھا۔سیکورٹی کمپنی کی جانب سے دئیے گئےجواب کو غیر اطمینان بخش قرار دیا گیا ، جب کہ کمپنی ، سکیورٹی گارڈ کی تربیت اور پولیس ویری فکیشن کا ریکارڈ بھی پیش نہ کرسکی۔ محکمہ داخلہ کے سکریٹری کا کہنا ہے کہ کمپنی نے نہ صرف ایس او پی(Standard Operating Procedure) کو نظر اندازکیا بلکہ غیر تربیت یافتہ گارڈ کو ناکارہ اسلحہ فراہم کر کے اہم شخصیت کی حفاظت کے فرائض کی انجام دہی کے لیے تعینات کیا۔ سیکریٹری داخلہ سندھ نے ابتدائی طور پرسکیورٹی ایجنسی کا 90 روز کے لئے لائسنس معطل کر کے ہدایت کی ہے کہ کمپنی فوری طور پر اپنے تمام کسٹمرز سے سیکورٹی عملہ واپس لےاوراپنے تمام کلائنٹس کو فراہم کیے گئےسیکیورٹی گارڈز کے پولیس کی طرف سے دیئے گئے تصدیق نامے جمع کروائے۔

اس ہدایت کے بعد اب محکمہ داخلہ کی ذمہ داری ہے کہ کراچی میں موجود تمام سکیورٹی کمپنیوں کی ازسرنو چھان بین کر کے ایس او پی پر عمل درآمد نہ کر نے والی کمپنیوں کو فوری بند کر دے ۔ واضح رہے کہ شہر میں بڑی بنک ڈکیتیوں کی زیادہ تر وارداتوں میں، سکیورٹی گارڈز ہی ملوث پائے گئے ہیں۔ اتفاقیہ طور سے گولی چلنے سے زخمی ہو نے کے زیادہ تر واقعات بھی ان ہی غیر تربیت یافتہ گاڈز کی لاپروائی اور غفلت کے باعث پیش آتے ہیں ۔خود کشی اورذاتی دشمنی پرقتل کے واقعات میں بھی سکیورٹی گارڈزکا ہاتھ ہوتا ہے ۔

دوسری جانب اینٹی اسٹریٹ کرائمز موٹرسائیکل یونٹ تشکیل دیئے جانےاور اہل کاروں کوخطیر رقوم سے خریدی گئ زیرو میٹر جدیدموٹر سائیکلیںفراہم کئے جانے کے باوجودکراچی میں اسٹریٹ کرائمز کا جن تاحال بے قابو ہے ۔دن دہاڑے لوٹ مار کی وارداتوں میں کمی کی بجائے اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے ، کراچی پولیس چیف کے دعوے صرف بیانات تک ہی محدود ہیں ،ڈاکو، راہ زن اور لٹیرے،جب اور جہاں چاہتے ہیں بلا خوف خطر سر عام لوٹ مار کر کے بآسانی فرار ہو جاتے ہیں جب کہ ذرا سی مزاحمت پرجاں لینے سے بھی دریغ نہیں کر تے ۔ جرائم پیشہ عناصر،بوڑھوں،خواتین، اسکول اور کالجزکے طلبہ و طالبات کو بھی نہیں بخشتے ہیں ۔گزشتہ دنوں کلفٹن آغا سپر مارکیٹ کے قریب 2 مسلح موٹر سائیکل سوار ملزمان پی ٹی آئی رہنما خرم شیر زمان کےبھائی جاوید کی فیملی سے اسلحہ کے زور پر 2 موبائل فون اور پانچ ہزارروپےنقدلوٹ کر فرار ہوگئے۔ لیاقت آبادمیںموٹر سائیکل سوار 2ملزمان دودھ فروش سے اسلحہ کے زور پر ہزاروں روپے کی رقم ،شاپر میں بھر کربآسانی فرار بھی ہو گئے۔بدھ کی شب سرجانی ٹائون کے ڈی اے فلیٹس کے قریب واقع موبائل مارکیٹ میں ڈکیتی کے دوران ملزمان کی فائرنگ کی زد میں آکر دس سالہ راہ گیر بچہ راشد ولدندیم زخمی ہو گیا ۔بدھ کے روز ہی شاہ لطیف ٹائون تھانے کی حدود میں ڈاکوؤں نے ڈکیتی مزاحمت پر فائرنگ کرکے ایک شخص کوزخمی کردیا اور فرار ہوگئے ۔

تازہ ترین
تازہ ترین