• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صرف 6ماہ میں پاکستان تحریک انصاف اپنے بعض وزرا کے غیر ضروری بیانات کی وجہ سے اپنی مقبولیت کا گراف نیچے لا چکی ہے جبکہ رہی سہی کسر وزیرخزانہ کی 6ماہ کی کارکردگی نے پوری کردی ۔ خصوصاً ان کے منی بجٹ کا اعلان ان کی ناکامیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔مہنگائی پر مہنگائی عوام کو اب بیزاری کی طرف لے جارہی ہے۔خود پی ٹی آئی کے سپورٹر اعتراف کررہے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کے تمام دعوے اور وعدے ہوا میں تحلیل ہوتے جارہے ہیں ،بیرونی ممالک بار بار جاکرقرض لینےسے پاکستان کے عوام کی سبکی تو ہوہی رہی ہے مگر خود ان کے ماضی کے سیاسی کلپس میڈیا دکھادکھا کر عوام کو باور کرارہا ہے کہ پی ٹی آئی کی ٹیم میں سیاسی بصیرت نہیں ہے، وہ اپنی ناکامیوں کا بوجھ ماضی کے حکمرانوں پر ڈالنےکی کوشش کر رہےہیں ۔ عدلیہ بھی ناقص ثبوتوں کی وجہ سے کسی سے ایک روپیہ بھی وصول نہیں کرسکی ۔خاص طور پر سابق متحرک چیف جسٹس جناب ثاقب نثار اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود کرپٹ سیاستدانوں اور بیوروکریٹس سے کچھ نہیں نکلوا سکے۔بہت سوں نے تو ان کے جانے کے بعد خوشی کا بھی اظہارکیا ہے اور عوام مایوس بھی ہوگئے ہیں ۔صرف چھوٹے چھوٹے مجرموں کو انصاف سزائیں سناتا رہا جبکہ بڑے بڑے مگر مچھ جال توڑ کر باہر چلے گئے، کچھ پیشیاں بھگت رہے ہیں ۔ڈر ہے ماضی کی طرح سب ایک ایک کرکے مک مکا کرنے میں کامیاب نہ ہوجائیں۔ ہمارےایک صوبائی اور مرکزی موجودہ وزیراطلاعات ماضی کے تمام وزیراطلاعات سے بازی لے جاچکے ہیں۔ ایک طرف تو وہ میڈیا کو للکاررہے ہیں تو دوسری طرف تمام سیاسی جماعتوں سے دو دو ہاتھ کررہے ہیں ، ان کی ہی نادانیوں سے فائد ہ اُٹھاکر وہ تمام سیاسی جماعتیں جو بکھرگئی تھیں آج متحد ہوکر حکومت کوگرانے کی پوری کوشش کر رہی ہیںاور مولانا فضل الرحمٰن جو کام نہ کرسکے تھے وہ ان کی بیان بازی نے کردکھایا ۔سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان صاحب کو معلوم نہیں تھا کہ ملک کتنا مقروض ہے۔کبھی آئی ایم ایف کے سامنے گڑگڑاتے ہیں تو کبھی چین ،سعودی عرب اور قطر کے دوروں پر نکل جاتے ہیں اورکبھی دبئی اور ابوظہبی کے حکمرانوںکی طرف سے اربوں ڈالرز کی خوشخبریاں سناتے ہیں۔مگر ساتھ ہی پیٹرول ،ڈیزل ،گیس اور بجلی کے نرخ بڑھاکر عوام پر مہنگائی کے پہاڑ گراتے ہیں۔ قوم کے ساتھ یہ مذاق کیوں ہورہا ہے۔آخر صاف صاف کیوں اپنی ناکامیوں کا اعتراف نہیں کرتے باربار یہ جملہ قوم کو سناتے ہیں کہ ہم بحران سے نکل چکے ہیں تو پھر منی بجٹ چہ معنی دارد ۔ وزیرخزانہ کے خلاف آوازیں آرہی ہیں ۔وزیراعظم صاحب! آپ بار بار کابینہ کا اجلاس بلاکر سب کی ناکامیوں کو کامیابی قرار دے کر ایک طرف اپنے وزراء کا غلط دفاع کررہے ہیں تو دوسری طرف ان کو مزید مواقع فراہم کررہے ہیں کہ غلطیاں کرتے رہو میں ہوں نا ،اگر یہ حکومت ایک سال بھی نکال لے تو بڑی بات ہوگی۔ کبھی سندھ پر یلغار کرکے سندھ حکومت کو ڈراتے ہیں پھر پسپا ہوکر نئی ترکیبیں نکالتے ہیں ۔اس سےحکومت کی سبکی ہورہی ہے پنجاب کی بیوروکریسی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے کوئی کام کرنےکا رسک نہیں لینا چاہتا ۔نیب ،ایف آئی اے والے ہر روز ایک نیا کیس تو بنارہے ہیں مگر کسی میں بھی کہیں بھی کامیابی نہیں مل رہی ۔بیوروکریٹس شہباز شریف کے حامی ہیں جبکہ یہ ناتجربہ کار ہیں کسی کو نہیں معلوم پنجاب جو پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، کون چلارہا ہے ۔ایک ایسا شخص جس نے گائوں سے آگے سیاست نہیں کی وہ آدھے پاکستان کو کیسے چلاسکتا ہے ،ہر طرف سے ناکامیاں حکومت کے حصے میں آرہی ہیں پھر بھی دھونس ڈپٹ کا بازارگرم کررکھا ہے ۔ لوگ اب سمجھ چکے ہیں کہ سیاست ان کے بس میں نہیں رہی ۔ایک بڑی غلطی عوام کو سڑکوں پر لاسکتی ہے عوام کا اعتماد بحال کرنا بہت ضروری ہے ۔روز اسٹاک ایکسچینج نیچے کی طرف اور ڈالر اوپر کی طرف جارہا ہے۔بے روزگاری بھی بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے چوریاں اور ڈاکے دوبارہ پڑنا شروع ہوگئے ہیں جرائم پیشہ افراد دوبارہ سرگرم عمل ہیں ۔جہاں ان کا بس چلتا ہے اسلحہ دکھاکر عوام کو دن دہاڑے لوٹ رہے ہیں ، ہر طرف مایوسی ہی مایوسی ہے ۔امیدیں بھی دم توڑ رہی ہیں ۔50لاکھ گھر ایک کروڑ نوکریاں دینے کے وعدے سب خواب بن چکے ہیں ۔لوگوںکو کھانے کے لالے پڑےہوئے ہیں کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔بجلی مہنگی ہوکربھی سردیوں میں باربار لوڈشیڈنگ ،یہ ناکامی نہیں تو اور کیا ہے۔ 6ماہ گزرنے کے باوجود ایک بھی نیا پروجیکٹ حکومت کی طرف سے سامنے آیا اور نہ ہی عوام کو کوئی ریلیف مل رہا ہے کیوں حد سے زیادہ وعدے قوم سے کئےگئے تھے ۔ماضی کے حکمرانوں میں اور پی ٹی آئی میں کیا فرق رہا ۔دونوں قوم کو وعدوں پر ٹرخاتے رہے ۔خدارا! قوم کو اعتماد میں لیں۔حزب اختلاف کے ساتھ افہام وتفہیم کا ماحول پیدا کریں نیز اپنے وزراکو بد کلامی سے روکیںاور کارکردگی نہ دکھانے والے وزراء کو فارغ کریں اور قوم کو ریلیف دینے کا بندوبست کریں ۔

تازہ ترین