• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پروفیسر غفور احمد بھی رخصت ہوگئے۔ اللہ اس نیک سیرت انسان کی قبر کو نور سے بھر دے ۔ سیاست کے رہگزاروں میں ایسے پھول کم کم ہی کھلا کرتے ہیں۔
تیئس سال کی عمر میں جماعت اسلامی سے رشتہ جوڑا تو آخری سانس تک اس رشتے کو نبھایا۔ ایسا نہیں کہ ان کے دل میں کبھی کوئی اُبال نہیں آیا۔ مجھے ان سے کئی ملاقاتوں کا شرف حاصل رہا۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ متعدد مواقع پر انہیں جماعت کی حکمت عملی سے اختلاف بھی ہوا۔ سید مودودی کی رحلت کے بعد تو کئی ایسے موڑ آئے کہ پروفیسر صاحب کا دل مکدر ہوا۔ انہوں نے مجلس شوریٰ میں اپنے تحفظات بھی رکھے لیکن کسی نے انہیں میڈیا کے چوپالوں کا موضوع نہ بننے دیا۔ وفاداری بشرط استواری کی راہ پر چلتے رہے۔ جماعت کے کئی وفا شعاروں کا ضبط جواب دے گیا۔ انہوں نے راستہ بدل لیا اور اپنے فہم کے مطابق نئی قافلہ بندی کرلی۔ کچھ ایسے بھی تھے جو مروجہ سیاست کے امکانات کو اپنے دل و دماغ میں بسائے، اختیار و اقتدار کے حسین تصورات کے ساتھ جماعت میں آئے اور پھر خشک سالیوں کا راج دیکھ کر ہری بھری چراگاہوں کو نکل گئے۔ ایسے چہرے آج بھی مختلف سیاسی جماعتوں کے نگار خانوں میں دکھائی دیتے ہیں۔
لیکن پروفیسر غفور احمد کا خمیر ایک اور مٹی سے اٹھا تھا۔ سید مودودی نے اسلامی نظام کے قیام کے لئے اصلاح معاشرہ کے جس عظیم مشن کا بیڑا اٹھایا تھا، اس نے اپنے عہد کے ہزاروں نوجوانوں کے دلوں میں ایک صبح نو کی جوت جگا دی تھی۔ وہ اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر گھروں سے نکلے اور سید مودودی کی قیادت میں یوں سرگرم سفر ہوئے کہ سب کچھ بھول گئے۔ جماعت اسلامی کی اٹھان ایک سیاسی جماعت کے بجائے نظریاتی تحریک کے طور پر ہوئی۔ میرکارواں نے اہل کارواں کے دلوں میں ایک عظیم انقلاب کا عزم پیدا کرتے ہوئے ان کے لہو کی بوند بوند میں کچھ ایسی حرارت بھردی کہ یہ لوگ جماعت کے فکر و فلسفہ میں جذب ہو کر رہ گئے۔ ان کی زندگیوں کا رنگ ڈھنگ ہی بدل گیا۔ سوٹ ٹائی پہننے اور بڑی شان سے وکالت کا امتحان پاس کرلینے والے میاں طفیل محمد نے جماعت کی رفاقت کا عہد کیا تو وہ، وہ نہ رہے جو تھے۔ جماعت نے ہزاروں وابستگان کی زندگیوں میں انقلاب بپا کردیا۔ ان کے لباس، ان کی بود و باش، ان کی زبان، ان کا لہجہ، ان کا اسلوب حیات، سب کچھ بدل ڈالا۔
مولانا نعیم صدیقی مرحوم سے میرا خاندانی رشتہ و تعلق ہے۔ وہ میری والدہ کے حقیقی ماموں تھے۔ میں نے انہیں بہت قریب سے دیکھا۔ کمال کے شاعر اور غضب کے نثرنگار۔ ان کی شہرہ آفاق کتاب ”محسن انسانیت“ کو زبردست پذیرائی ملی۔ جماعت میں وہ نمایاں مرتبہ و مقام رکھتے تھے۔ لیکن میں ان کے فقیرانہ بانکپن کو کبھی نہ بھول پاؤں گا۔ ایک ایسے ہی فقیر کا نام مولانا فتح محمد تھا۔ راولپنڈی میں برسوں جماعت کے امیر رہے۔ زندگی کا ایک ایک لمحہ اپنے مشن کی نذر کردیا۔ ان کے پیرہن سے گئے وقتوں کے ان مسلمانوں کی خوشبو آتی تھی جن کے تذکرے اب کتابوں ہی میں ملتے ہیں۔ گوجرانوالہ کے عبدالحمید صدیقی بھی کمال درجے کی سادگی، دیانت اور امانت کا ایسا ہی مثالی نمونہ تھے۔ میاں طفیل محمد بھی ایسے ہی مرد حق آگاہ تھے افسوس کہ جماعت اسلامی کا خیمئہ اقدس ایسے درویشوں سے خالی ہوتا جارہا ہے۔
سید مودودی نے پاک دل و پاک باز نظریاتی مجاہدین کی ایک سپاہ تشکیل دی۔ پروفیسر غفور احمد اس سپاہ کے پرچم برداروں میں سے ایک تھے۔ دھیمے سروں میں دل میں اتر جانے والی بات کہنے کا سلیقہ، اپنے موقف کے حق میں ٹھوس دلائل، سیاسی حرکیات پر کامل عبور، اعلیٰ انتظامی صلاحیتیں، انتھک محنت و ریاضت، مقصد کی زبردست لگن، کھری اور دو ٹوک بات کہنے کا حوصلہ، ستائش اور صلے سے بے نیازی، حق گوئی و بے باکی اور سادگی و درویشی، وہ اجزائے ترکیبی ہیں جن سے غفور احمد نامی شخص تخلیق ہوا۔ 1970 میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ بھٹو کے اس عہد حکمرانی میں ہی سیاست، فسطائیت سے آشنا ہوئی۔ محمود اعظم فاروقی، صاحبزادہ صفی اللہ، ڈاکٹر نذیر احمد اور پروفیسر غفور احمد پر مشتمل پارلیمانی پارٹی کی سربراہی پروفیسر صاحب کے پاس تھی۔ ڈاکٹر نذیر تو چند ماہ بعد قتل کردیئے گئے۔ یہ وہ دور ہے جب پروفیسر غفور احمد کی شخصیت کا جلال و جمال پوری طرح آشکار ہوا۔ پاکستان قومی اتحاد کے سیکرٹری جنرل کے طور پر پروفیسر صاحب ایک زیرک اور مدبر قومی رہنما کے طورپر ابھرے۔ بھٹو نے احتجاجی تحریک سے زچ ہو کر مذاکرات کی بساط بچھائی تو مفتی محمود، نوابزادہ نصراللہ خان اور پروفیسر غفور احمد پر مشتمل ٹیم نے بھٹو، حفیظ پیرزادہ اور مولانا کوثر نیازی کی کچھ نہ چلنے دی۔ معاہدے کی تیاری اور آئینی نکات کی تشریح و تعبیر کا سارا بار گراں پروفیسر صاحب کے کندھوں پر رہا۔ اصغر خان، جانے کس کے اشارے پر تہیہ طوفاں کئے بیٹھے تھے۔ بالآخر پروفیسر غفور احمد کی حکمت و دانش، اصغر خان کی خوئے مہم جوئی سے ہار گئی اور ملک طویل مارشل لا کا شکار ہوگیا۔
پروفیسر صاحب ایک مدت سے بس گھر کے ہو کے رہ گئے تھے۔ ان کے صاحبزادے طارق فوزی سے تعزیت کرتے ہوئے مجھے الفاظ نہ ملے۔ علامہ نے مرد مومن کی صفات بیان کرتے ہوئے کہا تھا
اس کی امیدیں قلیل، اس کے مقاصد جلیل
ہر دو جہاں سے غنی اس کا دل بے نیاز
جلیل مقاصد کے لئے طویل جدوجہد کرنے اور قلیل امیدیں رکھنے والا درویش اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ اس کے غنی اور بے نیاز دل کو دنیا کی کوئی کشش‘ کوئی آلائش اپنی طرف نہ کھینچ سکی۔ پروفیسر صاحب کی سیاسی زندگی‘ پاکستان کی عمر کے برابر تھی۔ کوئی ان کی اجلی قبا پر ایک داغ بھی تلاش نہیں کرسکتا۔ اشفاق احمد اپنے بابے کے حوالے سے بڑے انسان کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ وہ ”محنت‘ مشقت خدمت اور قربانی کے وقت سب سے آگے ہوتا ہے اور جب انعام ملنے لگتا ہے تو قطار میں سب سے پیچھے جاکھڑا ہوتا ہے۔“ پروفیسر غفور احمد نے زندگی کی ایک ایک سانس جماعت اسلامی کی نذر کردی۔ لیکن جواب میں کچھ نہ مانگا۔ آرزو تک نہ کی۔ اللہ کے ایک نیک‘ پاک باز اور عبادت گزار بندے کی مثالی زندگی گزاری‘ مجھے یوں لگتا ہے کہ جب باب رحمت کھلے گا اور اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کی جھولیاں انعام و اکرام سے بھرنے لگے گا تو پروفیسر غفور احمد سر جھکائے‘ قطار میں سب سے پیچھے کھڑے ہوجائیں گے۔ یہاں تک کہ اللہ کسی فرشتے سے کہے گا۔ ”غفور احمد کو تو میرے پاس لاؤ۔“
تازہ ترین