• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم نے اگلے روز پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا ہے کہ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ چیف الیکشن کمشنر کی اس بات کو ٹیلی ویژن چینلز نے اپنی ہیڈ لائنز میں نشر کیا جبکہ تقریباً تمام قومی اخبارات نے اسے شہ سرخیوں کے طور پر شائع کیا۔ اُس کا سبب یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں شاید پہلی مرتبہ کسی آرمی چیف کے بارے میں اس طرح کی بات کی جارہی ہے کہ اُنہوں نے شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے ہر مکن تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ قبل ازیں کسی آرمی چیف کے حوالے سے کبھی اس طرح کی بات نہیں کی گئی۔ یہ بات اس حوالے سے بھی اہمیت کی حامل ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کوئی جمہوری حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرنے جارہی ہے۔ اس میں پاکستان کے عوام کی جمہوری جدوجہد اور سیاست دانوں کے تدبر کا بھی دخل ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ جنرل اشفاق پرویز کیانی کو بھی کریڈٹ جانا چاہئے کہ اُنہوں نے نہ صرف فوج کو سیاست سے دور رکھا بلکہ جمہوری عمل کے جاری و ساری رہنے میں بھی ہر ممکن تعاون کیا۔ اب اگر وہ شفاف انتخابات کے انعقاد میں تعاون کی یقین دہانی کرا رہے ہیں تو اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ وہ حقیقی معنوں میں ہی شفاف انتخابات کے حامی ہیں۔
کچھ حلقوں کا یہ بھی خیال ہے کہ ملکی اور بین الاقوامی حالات کی وجہ سے فوج نے سیاست میں مداخلت نہیں کی۔ یہ حلقے اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ ماضی میں ایسے حالات ہی فوجی مداخلت کا جواز بنتے رہے ہیں۔ امریکا میں پہلے کبھی کسی پاکستانی فوجی جرنیل کی قد آدم تصاویر نہیں لگائی گئیں مگر اشفاق پرویز کیانی کی تصاویر لگیں۔ قبل ازیں کسی پاکستانی جرنیل کو مختلف سروے کرکے طاقتور ترین اور متاثر کن شخصیت قرار نہیں دیا گیا، جس طرح جنرل اشفاق پرویز کیانی کی شخصیت سازی کی مہم چلائی گئی۔ پاکستان میں گزشتہ پانچ سال کے دوران کئی مواقع ایسے پیدا ہوئے، جب فوج کی مداخلت کے حالات پیدا ہوئے اور بعض عناصر سرعام فوج سے مداخلت کی اپیل بھی کرتے رہے۔ ہم شاید اس امر کو کچھ عرصے کے بعد ہی تسلیم کریں گے کہ اگر اشفاق پرویز کیانی کی جگہ کوئی اور آرمی چیف ہوتا تو آج حالات مختلف ہوتے۔ پاکستان میں آئندہ عام انتخابات وقت پر منعقد ہوجاتے ہیں اور ان کے نتیجے میں انتقال اقتدار کا مرحلہ پرامن طور پر منعقد ہوجاتا ہے تو پاکستان تاریخ کا ایک اہم اور قابل فخر سنگ میل عبور کرے گا اور پاکستانیوں کا شمار دنیا کی جمہوریت پسند اقوام میں ہونے لگے گا۔ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے سیاسی عمل میں شعوری طور پر مداخلت نہ کرکے جمہوری حکومت کو پانچ سال کی مدت پوری کرنے میں اپنا تعاون ثابت کردیا ہے لہذا شفاف انتخابات کے انعقاد میں اُنہوں نے تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ فوج انتخابات میں بھی مداخلت نہیں کرنا چاہتی ہے۔
1970ء کے عام انتخابات ایسے ہیں، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ شفاف تھے لیکن انتخابات اس لیے شفاف نہیں ہوئے تھے کہ اُس وقت کے فوجی حکمران جنرل یحییٰ خان ایسا چاہتے تھے۔ شاید اُس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کو یہ اندازہ ہی نہیں تھا کہ انتخابات کے نتائج اس طرح کے ہوں گے۔ اگر اُسے اندازہ ہوتا تو نتائج مختلف ہوتے۔ یہاں ایسے بھی لوگ ہیں، جو یہ تھیوری دیتے ہیں کہ 1970ء کے عام انتخابات کی وجہ سے پاکستان دولخت ہوگیا اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ ان لوگوں کا بھی کہنا ہے کہ پاکستان میں شفاف انتخابات ہونے ہی نہیں چاہئیں کیونکہ ان سے پاکستان کو نقصان ہوتا ہے۔ اسی مفروضے کی بنیاد پر پاکستان میں بعد ازاں ہونے والے انتخابات میں غیر مرئی قوتوں کی کسی نہ کسی حوالے سے مداخلت رہی اور 1970ء کے بعد کسی بھی الیکشن کو شفاف قرار نہیں دیا جاسکتا۔ طاقتور حلقوں نے یہ ”عقیدہ“ بنا لیا تھا کہ پاکستان کے بہترین مفاد میں انتخابات میں مداخلت کرنا جائز ہے۔ انتخابات میں اسی مداخلت کے باعث زیادہ تر جمہوری حکومتیں کمزور رہیں اور وہ زیادہ عرصہ نہ چل سکیں۔ چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم کا یہ کہنا بجا ہے کہ موجودہ حالات میں پاکستان میں شفاف انتخابات کا انعقاد ضروری ہے اور یہ آخری چانس ہے حالات کے ٹھیک کرنے اور پاکستان کو بحرانوں سے نکالنے کا۔ چیف الیکشن کمشنر کی اس بات سے ہر کوئی اتفاق کرتا ہے اگر پاکستان میں انتخابات شفاف نہ ہوئے تو پھر کیا حالات ہوں گے؟ اس سوال کا بھیانک جواب بھی سب کے پاس موجود ہے۔ تاریخ کے اس مرحلے پر اسے پاکستان کی خوش قسمتی تصور کیا جاسکتا ہے کہ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی ہیں، جو جمہوری عمل کے ذریعہ پاکستان کے بحرانوں کا حل چاہتے ہیں۔ وہ ماضی کے طالع آزماؤں کے برعکس سوچ کے حامل ہیں۔ ماضی میں فوجی حکمرانوں اور بعض فوجی جرنیلوں کی یہ سوچ رہی ہے کہ وہی نجات دہندہ ہیں اور سیاست میں فوجی مداخلت سے معاملات کنٹرول میں رہتے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ اب ایسی سوچ نہیں ہے۔
ماضی میں شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے ایک آرمی چیف کو تمغہ جمہوریت سے نوازا تھا لیکن بعدازاں اندرونی کہانیاں جیسے جیسے سامنے آتی رہیں، ویسے ویسے یہ پتہ چلتا گیا کہ مذکورہ جرنیل نے جمہوریت کو پٹڑی سے اُتارنے کے لیے کیا کیا کارنامے انجام دیئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاک فوج میں ایسے آرمی چیفس بھی رہے، جنہوں نے مواقع ہونے کے باوجود اقتدار پر قبضہ نہیں کیا لیکن اُن کے ادوار میں جمہوری حکومتوں نے اپنی آئینی مدت پوری نہیں کی اور جمہوری عمل کے تسلسل میں اُن کی شعوری اور نمایاں کوششیں اب تک سامنے نہیں آسکی ہیں، جن پر اُنہیں تمغہ جمہوریت دیا جاسکے یا وہ خود فخریہ انداز میں اپنی ایسی کوششوں کا تذکرہ کرسکیں اور پاکستانی قوم کو بتا سکیں کہ اُنہوں نے غیر جمہوری قوتوں کے عزائم ناکام بنانے کے لیے مزاحمت کی۔
پاکستان کی تاریخ میں یہ بھی پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ پیپلز پارٹی حکومت کے خلاف پی این اے اور آئی جے آئی جیسا کوئی سیاسی اتحاد نہیں بنا ہے اور نہ ہی کوئی ایسی سیاسی تحریک چلی ہے، جس کا مقصد حکومت کو ہٹانا ہو اور جسے جی ایچ کیو کی حمایت حاصل ہو۔ پہلی مرتبہ پیپلز پارٹی کے خلاف کوئی انتخابی اتحاد بھی نہیں بن سکا ہے۔ یہ بھی فوج کی سیاست میں عدم مداخلت کی ایک دلیل ہے۔ اس کا کریڈٹ بھی جنرل اشفاق پرویز کیانی اور اُن کے ساتھی جرنیلوں کو جاتا ہے۔ اس دفعہ سیاسی صف بندی ماضی سے بالکل مختلف ہے اور بعض سیاسی، مذہبی اور قوم پرست جماعتوں کا کردار بھی ماضی کے مقابلے میں کچھ بدلا ہوا ہے۔ سیاسی تحریکوں کی آڑ میں جمہوری حکومتوں کو گرانے کے لیے حالات پیدا کرنے والے ماضی کے بعض چیمپئن بھی پس پردہ چلے گئے ہیں اور آج سیاست میں ایسے دعوے بھی نہیں کیے جارہے ہیں کہ ”فوج نے ہمیں آئندہ حکومت دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔“ ان دعوؤں کی بنیاد پر سیاسی لوگوں کی دوڑ بھی نظر نہیں آئی۔ حالات بہت تبدیل ہوگئے ہیں۔ اگرچہ غیر جمہوری قوتوں کی آشیر باد سے اقتدار کے ایوانوں میں پہنچنے والوں کی تڑپ ابھی تک ختم نہیں ہوئی ہے اور وہ اس کے لیے ہاتھ پاؤں بھی مار رہے ہیں لیکن اُنہیں خود بھی احساس ہے کہ اب پہلے والی بات نہیں رہی۔ اخبارات میں بھی وہ ”دھماکا خیز اسٹوریز“ نظر نہیں آرہی ہیں، جن کے ذریعہ جی ایچ کیو کی سیاسی خواہشوں کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ بعض لوگ ابھی تک لکیر کو پیٹ رہے ہیں۔ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ پاکستان میں تبدیل ہونے والی یہ تبدیلی مستقل ہے یا نہیں لیکن یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کا کردار اس میں اہم ہے۔ اگر آئندہ عام انتخابات شفاف انداز میں منعقد ہوتے ہیں اور پرامن انتقال اقتدار ہوجاتا ہے تو ایک نیا پاکستان وجود میں آئے گا اور آنے والی نسلیں اشفاق پرویز کیانی کے کردار کو لازمی طور پر سراہیں گی۔
تازہ ترین