• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کچھ دن قبل پنجاب کے عظیم صوفی، اولیا اللہ اور روحانی رہنما بابا فرید گنج شکر کا عرس منایا گیا۔ اس دن سے باباجی کا ایک شعر باربارمیرے ذہن کے درازے پر دستک دے رہاہے اور مجھے یاددلا رہا ہے کہ زیادہ گزرگئی اور تھوڑی باقی ہے۔ باباجی کا شعر پڑھئے اور ہوسکے تودن میں ایک دو بار اسے پڑھ لیا کیجئے کہ اس سے آپ کی ”صحت“ پر اچھا اثر پڑے گا۔
ویکھ فریدا جوتھیا، داڑھی ہو بور
اگا نیڑا آیا، پچھیا رہیا دور
پنجاب والے اس شعر میں اپنی سہولت کے مطابق ترمیم کرلیتے ہیں کیونکہ باباجی کی زبان اب تقریباً تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔ بہرحال ان کے مطبوعہ کلام میں اس شعر کو اسی طرح لکھا گیا ہے اور اس کا سادا سا مفہوم یہ ہے کہ فریدا دیکھ اب تیری داڑھی میں سفیدی جھلک رہی ہے، گویا موت قریب ہے اور گزری ہوئی زندگی یا جوانی دور جاچکی ہے۔پنجاب کے گاؤں میں کسی عاقل و بالغ آدمی کو جھوٹ بولنے یا کسی شرعی عیب کا طعنہ دینا مقصود ہو تو لوگ کہتے ہیں کہ اسے سفید بالوں یا سفید ریش کی بھی ”شرم“ نہیں ہے۔ اس میں ایک نفسیاتی نقطہ پوشیدہ ہے جو تھوڑا سا غور طلب ہے۔ وہ نقطہ یہ ہے کہ جب انسان کسی بہانے بھی دن میں ایک دو بار شیشہ یا آئینہ دیکھتا ہے تواس میں اسے اپنے بالوں میں ابھرتی اورپھیلتی ہوئی سپیدی یا سفیدی یہ یاد دلاتی ہے کہ اگلا جہان قریب ہے اور پچھلا جہان دور رہ گیا ہے۔ اس کی مزید وضاحت یوں ہے کہ جوانی، سیاہ کالے بال، بھرا بھرا چہرہ اور جسمانی طاقت انسان کو ایک نشے، اعتماد، ارادے اور خواب میں مبتلا رکھتی ہے اور جوانی کا نشہ اسے یقین دلاتا رہتا ہے کہ ابھی زندگی کا سفرطویل ہے۔ ابھی مجھے کئی دہائیاں زندہ رہنا اور بڑی بڑی فتوحات کاسہرا سرپرسجانا ہے۔ جونہی ان سیاہ کالے بالوں میں سفیدی جھانکنے لگتی ہے تو انسان محسوس کرتا ہے کہ اب جوانی کا سورج ڈھل رہاہے لیکن جب سر پرسفیدی غالب آ جاتی ہے تو اپنا چہرہ آئینے میں دیکھ کر خیال آتا ہے کہ میں اب بزرگی کی دہلیزپر قدم رکھ چکا ہوں۔ ایسے میں عام طور پریہ خیال بھی آنے لگتا ہے کہ ”اگانیڑاآیا“ یعنی موت دور نہیں توپھر انسان کے دل میں موت کاخوف، قبر کا خوف، حساب کتاب کا خوف اورخداکاخوف سر اٹھانے لگتا ہے۔ جن دلوں پرمہر لگ چکی ہے ان کا حشر تو رب ہی جانتا ہے لیکن مشاہدہ یہ ہے کہ زندگی کی اس منزل میں داخل ہونے کے بعد انسان قدرے محتاط ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ وہ اپنا چہرہ آئینے میں دیکھ کر توبہ و استغفار کرنے لگتا ہے۔ اپنے رب سے گناہوں کی معافی مانگنے لگتا ہے۔ اگر دل میں خوف خدا ہو تو مسجد کا رخ کرتاہے ورنہ اس عمرمیں بھی مسجد کا باغی رہتاہے۔ بعض عادتیں یاعیوب انسان کی زندگی کاحصہ بن جاتی ہیں جن میں شراب نوشی بھی شامل ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ جو حضرات جوانی سے ہی اس لت میں مبتلا ہو جاتے ہیں وہ عام طورپر سر پر سفیدی کے باوجود اس میں غرق رہتے ہیں لیکن وہ حضرات جو محض شوقیہ مے نوشی کرتے ہیں وہ موت کو قریب آتادیکھ کر مینا و ساغر سے توبہ کرلیتے ہیں۔ جھوٹ کی عادت بھی مے نوشی سے ملتی جلتی ہے جولوگ بچپن اورجوانی سے جھوٹ بولنے کے عادی ہوتے ہیں، جھوٹ ان کی گھٹی میں پڑ جاتا ہے اور عام طور پر انہیں جھوٹ سچ کی تمیز ہی نہیں رہتی۔ جو لوگ ضرورت کے مطابق جھوٹ بولنے کے عادی ہوتے ہیں وہ عام طور پر بالوں کی سفیدی کے تحت جھوٹ بولنا کم کردیتے ہیں اورجوں جوں ان کا ضمیر توانا اور بیدار ہوتا ہے اورضمیر ہر لغزش پر نشتر چلاناشروع کرتا ہے تو وہ آہستہ آہستہ جھوٹ سے تائب ہو جاتے ہیں۔ ماشا اللہ جو حضرات بچپن ہی سے سچ بولنے کے عادی ہوتے ہیں یااپنی تربیت کے زیراثرشرعی عیوب سے دوررہتے ہیں ان کی بات نہیں کر رہا کیونکہ نہ جوانی کا نشہ ان کا کچھ بگاڑتا ہے اور نہ بڑھاپے کا احساس انہیں گناہوں پرمغموم کرتا ہے۔ میں نے زندگی میں بہت سے عادی جھوٹے دیکھے اور ان کی باتیں سن کر ہمیشہ یہ مصرع دہراتا رہا:
وہ جھوٹ بول کہ سچ کو بھی پیار آ جائے
ساری رام کہانی بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ انسانی رویئے، عادات اوربعض اوقات کرداربدلنے میںآ ئینے کا بڑا حصہ ہوتا ہے جو اپنی ”خوبصورت شکل“ دیکھنے والے کو یاد دلاتا ہے کہ اب تمہارے بالوں میں سفیدی سرنگ لگا رہی ہے یا پھیلتی جاری ہے اب توخدا کا خوف کرو کہ” اگا نیڑے آیا اور پچھیا رہیا دور“…گویا یہ ایک نفسیاتی معاملہ اور مسئلہ ہے جس کی وضاحت اس واقعے میں مضمر ہے۔ چند ماہ قبل ایک دیرینہ دوست سے ملاقات ہوئی جو بچپن یاجوانی ہی سے عاشق بامراد ہے۔ عاشق نامراد ہرگز نہیں۔ عشق بامراد اِس سے زندگی بھر جھوٹ بلواتا رہا ہے۔ وہ یوں کہ ہر نئی محبوبہ سے جھوٹ بولنا اور اسے پہلی محبوبہ قراردینا اور پھرماں یا بیوی سے اس عشق کو چھپانے کے لئے جھوٹ بولنا ایک ایسا سلسلہ ہے جو ختم ہی نہیں ہوتا۔ یہ صاحب یا ”حضرت“‘ کم از کم چونسٹھ پینسٹھ برس کے ضرورہوں گے۔ انہوں نے بالوں پر اس قدر سیاہ رنگ چڑھایا ہوا تھا کہ جوانوں کو بھی بہت پیچھے چھوڑ گئے تھے۔ میں نے چائے کی پیالی پر انہیں چھیڑتے ہوئے پوچھا کہ ماشا اللہ جوان لگ رہے ہو۔ بالوں کو بوٹ پالش سے خوب چمکایا ہے۔ وہ میری بات سن کر مسکرائے اوردل کا دروازہ کھولتے ہوئے کہنے لگے ”سچ پوچھو تو آئینے میں اپنے سفید بال دیکھ کر میں ہر وقت بڑھاپے اور ”اگا نیڑے آیا“ کے خوف میں مبتلا رہتا تھا۔ جب سے میں نے بالوں کو ڈائی کرنا شروع کیا ہے میں اس خوف سے نکل آیا ہوں اور مجھے یوں احساس ہوتا ہے کہ جیسے ”ابھی تو میں جوان ہوں“ چنانچہ میں اب دل کھول کر جوانوں کی سی حرکتیں کرتا ہوں اور جھوٹ وغیرہ بھی آسانی سے بول لیتا ہوں۔ پھر کہنے لگے کہ یار بال کالے کرنے کا ایک اور فائدہ بھی ہوا ہے۔ پہلے مارکیٹ کے رش میں خواتین راستہ مانگنے کے لئے کہتی تھیں ”بزرگو! راستہ دے دیجئے یا انکل ذرا ایک طرف ہٹ جایئے“ جب سے میں نے بالوں کو جوان کیا ہے اب مسکراہٹ کے ساتھ کھکنتی ہوئی آواز آتی ہے ایکسکیوز می (معاف کیجئے گا) تو پھر آنکھیں دوچار ہوتی ہیں اور مزا ہی آجاتا ہے۔“
کہنے کا مقصد یہ تھا کہ اگر لوگ بالوں کو فتح کرنا چھوڑ دیں تو شاید آئینے کے بار بار یاد دلانے پر جھوٹ بولنا بھی کم کردیں یا ترک کردیں۔ میں جب ہر روز ٹی وی چینلوں پر سیاستدانوں ، وفادار کارکنوں اور سیاسی رہنماؤں کو ایک دوسر ے پرتابڑ توڑ حملے کرتے، الزامات کی بارش کرتے اور جھوٹے طعنے دیتے دیکھتا ہوں تو لامحالہ میری نظریں ان کے سروں کی جانب اٹھ جاتی ہیں۔ جب سے سیاستدانوں کی لوٹ مار اوراثاثوں کی کہانیوں کا دروازہ کھلا ہے ماشااللہ جھوٹ کی فیکٹریاں دن رات تیزی سے کام کرنے لگی ہیں۔ قوم یوں محسوس کرنے لگی ہے جیسے سیاست محض جھوٹ کا کاروبارہے۔ اس لئے میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگرسیاستدانوں اور ان کے وفاداروں پر قانون کے ذریعے بال رنگنے پر پابندی لگا دی جائے توشاید جھوٹ کے کاروبار میں کمی آ جائے کیونکہ اب تو جھوٹ اور سچ میں تمیز مٹتی جارہی ہے جو بذات ِ خود سیاست اور جمہوریت کے لئے بھی زہرقاتل ہے۔ کیا آپ مجھ سے متفق ہیں؟
تازہ ترین