• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں کراچی میں چوتھی پاکستان ایڈیبل آئل کانفرنس 2019ء کا انعقاد ہوا، جس میں کانفرنس کے چیئرمین اور میرے دوست شہزاد علی خان اور سی ای او رشید جان محمد نے مجھے خصوصی طور پر مدعو کیا تھا۔ میں نے اس اہم کانفرنس میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز (FPCCI) کی نمائندگی کی۔ کانفرنس کے مہمان خصوصی وزیراعظم کے مشیر برائے تجارت رزاق دائود تھے جبکہ کانفرنس میں ملائیشین وفد کی سربراہی ملائیشیا کی پرائمری انڈسٹریز کے وزیر سری شمس السکندر بن محمد ایکن نے کی۔ پاکستان میں کینیڈا کی نئی ہائی کمشنر لیزا اسٹاڈیل بیور خصوصی طور پر اسلام آباد سے کانفرنس میں شرکت کیلئے آئی تھیں۔ کانفرنس میں انڈونیشیا اور ملائیشیا کے قونصل جنرل بھی شریک تھے۔ 18اور 19جنوری تک جاری رہنے والی اس کانفرنس میں دنیا بھر میں خوردنی تیل کے خریدار، اسپلائرز، ماہرین، پام آئل بورڈز کے 100سے زیادہ غیر ملکی مندوبین نے شرکت کی۔ کانفرنس کے پہلے دن صنم ماروی جبکہ دوسرے دن عاطف اسلم نے مہمانوں کو اپنے فن سے محظوظ کیا۔ کانفرنس میں ماہرین کے خطاب سے میں نے پاکستان میں خوردنی تیل کی بڑھتی ہوئی کھپت اور امپورٹ سے زرمبادلہ کے ذخائر پر دبائو اور اس کے اثرات کا جو ذکر کیا، آج کے کالم میں قارئین سے شیئر کرنا چاہوں گا۔

پام آئل سورج مکھی، سرسوں اور کینولا بیجوں سے نکالا جاتا ہے جو پاکستان میں سندھ اور بلوچستان کے سمندری علاقوں میں کاشت کئے جا سکتے ہیں۔ پام آئل ویجی ٹیبل آئل ہے جس میں کوکونٹ آئل کے مقابلے میں کولیسٹرول نہایت کم ہوتا ہے اور اسے صحت مند کھانا پکانے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اسکے علاوہ پام آئل چاکلیٹ، آئس کریم اور کنفکشنری میں بھی استعمال ہوتا ہے جبکہ خوردنی تیل سے حاصل ہونیوالے اسکے بائی پروڈکٹس صابن، موم بتی، ڈٹرجنٹ، لبریکنٹ، کاسمیٹکس اور پولٹری فیڈ میں استعمال ہوتے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کی چار بڑی ایسوسی ایشنز، بناسپتی، سولوینٹ ایکسٹریٹر، ایڈیبل آئل اور سوپ مینو فیکچررز نے مل کر اس کانفرنس کا انعقاد کیا تھا۔ دنیا کی خوردنی تیل کی پیداوار تقریباً 22ملین ٹن سالانہ ہے جس میں ملائیشیا، انڈونیشیا، نائیجریا اور کولمبیا سرفہرست ہیں۔ ملائیشیا دنیا کی تیل کی پیداوار کا 50فیصد طلب پوری کرتا ہے لیکن اب انڈونیشیا انٹرنیشنل مارکیٹ میں تیزی سے اپنا حصہ بڑھا رہا ہے۔

دنیا میں سب سے زیادہ خوردنی تیل کی کھپت 50کلو گرام فی کس امریکہ کی ہے، دوسرے نمبر پر یورپ 47کلو گرام، تیسرے نمبر پر جاپان 21کلو گرام، چوتھے نمبر پر چین 17کلو گرام، بھارت 12کلو گرام اور پاکستان میں 11کلو گرام ہے جبکہ دنیا کی تیل کی کھپت کا فی کس اوسط 18.7کلو گرام ہے۔ پاکستان میں پام آئل کی امپورٹ میں 8.14فیصد اضافہ ہوا ہے اور جولائی سے مئی 2017-18ء تک 1.8ملین ڈالر مالیت کا 2.6ملین ٹن پام آئل امپورٹ کیا گیا ہے جبکہ ہماری مجموعی ملکی طلب اور کھپت 4.2ملین ٹن سالانہ ہے جس کو پورا کرنے کیلئے ہمیں سالانہ 3ملین ٹن خوردنی تیل اور 3ملین ٹن آئل سیڈز امپورٹ کرنا پڑتا ہے جبکہ ہماری خوردنی تیل کی مقامی پیداوار صرف 0.4ملین ٹن ہے۔ اسکے علاوہ ہم 0.8ملین ٹن خوردنی تیل درآمد شدہ تیل کے بیجوں سے بھی حاصل کرتے ہیں۔ حکومت نے پام آئل کی امپورٹ پر 30فیصد ڈیوٹی اور ٹیکسز عائد کر رکھے ہیں۔

پاکستان کی پیٹرولیم مصنوعات کی امپورٹ 12سے 13ارب ڈالر سالانہ ہے، دوسرے نمبر پر پام آئل اور تیل کے بیجوں کی درآمد ہے جس کی سالانہ امپورٹ 2.5ارب سے 3ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ پاکستان میں خوردنی تیل کی سالانہ امپورٹ 2.6ملین ٹن اور تیل کے بیجوں کی درآمد 2.2ملین ٹن ہے۔ خوردنی تیل کے ماہرین نے پاکستان کو چین اور بھارت کے بعد دنیا کی تیسری بڑی مارکیٹ قرار دیا ہے۔

پام آئل کا سب سے بڑا اسپلائر ملائیشیا تھا لیکن اب گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان نے انڈونیشیا کے ساتھ ایک ترجیحی معاہدہ کیا ہے جس میں انڈونیشیا کو کسٹم ڈیوٹی پر 15فیصد مراعات دی ہیں جس سے انڈونیشیا پاکستان کو 15فیصد سستا پام آئل اسپلائی کر رہا ہے اور اس وجہ سے انڈونیشیا سے پام آئل کی درآمد میں 80فیصد اضافہ جبکہ ملائیشیا سے پام آئل کی درآمد میں 48فیصد کمی ہوئی ہے لیکن اس کے بدلے انڈونیشیا نے پاکستان کو اب تک مراعات کا اعلان نہیں کیا ہے۔ پاکستان، پام آئل کی امپورٹ کے علاوہ کینیڈا سے کینولا جبکہ امریکہ اور برازیل سے سویا بین بھی امپورٹ کرتا ہے۔ پاکستان میں خوردنی تیل کی امپورٹ، ریفائنری، پروسیسنگ اور اسٹوریج پر پورٹ قاسم میں اب تک 50ارب روپے کی سرمایہ کاری کی گئی ہے جس سے مقامی طلب کا تقریباً 75فیصد پورا کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں ملائیشیا کیساتھ پام آئل ریفائنریز لگانے کا سہرا میرے دوست بشیر جان محمد کے سر جاتا ہے جو 1968ء سے پاکستان میں پام آئل کے بزنس سے منسلک ہیں اور ایک بڑی ملٹی نیشنل کمپنی کے مالک ہیں۔ اس وقت پاکستان میں تقریباً 20پام آئل ریفائنریز لگ چکی ہیں جبکہ پام آئل سے گھی بنانے کی 60سے 70فیکٹریاں ہیں۔وزیراعظم کے مشیر برائے تجارت عبدالرزاق دائود نے اپنی تقریر میں اس بات کا اعتراف کیا کہ ان کی حکومت نے خوردنی تیل کی بڑھتی ہوئی امپورٹ پر ابھی تک ترجیحی بنیادوں پر توجہ نہیں دی، جس کی وجہ سے پاکستان میں سورج مکھی اور کینولا تیل کے بیجوں کی کاشت کو فروغ نہیں دیا جا سکا لیکن آئندہ ماہ حکومت ایک پالیسی کا اعلان کرے گی، جسکے تحت پاکستان میں کینولا اور سورج مکھی کی پیداوار سے مقامی طور پر خوردنی تیل پیدا کرنے کو فروغ دیکر ملکی زرمبادلہ بچایا جا سکے گا۔ زرعی اجناس کی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی کارگل نے پاکستان میں زرعی اجناس اور تیل کے بیجوں میں 2سو ملین ڈالر سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے جس سے مقامی سطح پر خوردنی تیل کی پیداوار میں اضافہ ہو گا۔

گزشتہ چند سالوں سے یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ پاکستان کے گیہوں اور گنے کی کاشت کے رقبے میں اضافہ جبکہ کپاس اور تیل کے بیجوں کے رقبے میں کمی کی گئی ہے حالانکہ گیہوں اور شکر اضافی پیداوار کی وجہ سے ہمیں سبسڈی دے کر ایکسپورٹ کرنا پڑ رہے ہیں جبکہ کپاس اور خوردنی تیل قیمتی زرمبادلہ خرچ کرکے امپورٹ کرنا پڑ رہے ہیں جو لمحہ فکریہ ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ کپاس اور تیل کے بیجوں کی کاشت میں اضافے کیلئے نہ صرف پرکشش مراعات دے بلکہ پاکستان آئل سیڈ ڈویلپمنٹ بورڈ کو مزید فعال کرے تاکہ وہ سورج مکھی اور سرسوں کے بیجوں پر ریسرچ کرکے فی ایکڑ زیادہ پیداواری بیج دریافت کرے تاکہ مقامی طور پر خوردنی تیل حاصل کرکے اسکی امپورٹ پرخرچ ہونیوالے خطیر زرمبادلہ میں کمی لائی جا سکے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین