• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگر ہماری عمر کے لوگ موجودہ حالات کی سنگینی کی نشاندہی کریں اور حالات کو ماضی کے تناظر میں سمجھانے کی کوشش کریں تو کہا جاتا ہے کہ ہم پرانی یادوں (NOSTALGIA) یا ماضی کیساتھ رومانیت کا شکار ہیں اور اب ہم غیر متعلق ہو چکے ہیں، اسلئے مایوسی پھیلا رہے ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ آج کے حالات کا ادراک آج کے نوجوان خود کریں لیکن آج کے نوجوان دانشور، صحافی، اینکر پرسن اور سیاست دان اپنی تحریروں، تجزیوں اور تبصروں میں حالاتِ حاضرہ کا جس طرح ادراک کر رہے ہیں، اس پر رائے زنی کے بجائے میرا دِل چاہتا ہے کہ پُرانی یادوں (ناسٹلجیا) کو بیان کیا جائے۔ یہ اور بات ہے کہ یادِ ماضی عذاب ہے یا رب!جب ہمارا عہدِ شباب شروع ہوا تو پوری دنیا انقلابات، آزادی اور جمہوری تحریکوں کی لپیٹ میں تھی۔ یہ وہ عہد تھا، جس میں ہر فرد زندگی اور جذبات سے بھرپور تھا۔ اس کی آنکھوں میں خواب تھے اور ایک خاص قسم کی چمک تھی۔ ظلم اور ناانصافی کے خلاف لوگوں کو غصہ تھا اور مزاج باغی تھے۔ غربت اور مصائب کے باوجود اُداسی اور مایوسی نہیں تھی۔ فرد کا نظریہ کوئی بھی، دائیں یا بازو کی سوچ رکھتا ہو، کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق ہو یا نہ ہو، کوئی حیثیت ہو یا نہ ہو، بچہ ہو، بوڑھا ہو یا نوجوان، مڈل کلاس ہو یا محنت کش، ہر فرد مذکورہ بالا خصوصیات کا حامل تھا۔ اس عہد میں کسی بھی عمر کا فرد غیر متعلق نہیں تھا۔ نہ تو اسے کوئی غیر متعلق کہتا تھا اور وہ خود غیر متعلق تصور نہیں کرتا تھا۔ جنریشن گیپ نہیں تھا۔ نسلوں کے مابین بیگانگی نہیں تھی۔ ہر فرد ماضی اور مستقبل سے جڑا تھا۔ یہ عہد بہت دیر تک چلا، یہاں تک کہ ہم اس عمر میں بھی اپنی سوچ اور اپنی روح میں اس عہد کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ ہم آج بھی مایوسی اور لاتعلقی کو گناہ تصور کرتے ہیں۔

ناسٹلجیا! دنیا کو بدل دینے اور کایا پلٹ کرنے کا وہ جذبہ تھا، جس نے ہماری اور ہمارے بعد کی نسلوں کو متحد رکھا۔ مایوسی ہماری نسلوں کی شناخت نہیں تھی۔ کسی کی بے خواب اور پھیکی آنکھیں نہیں تھیں۔ بھوک کی نقاہت کے باوجود نعرے لگاتے وقت لوگوں کی آواز کی گرج سے ایوان ہلنے لگتے تھے۔ اس زمانے میں بھی سیاسی پولرائزیشن (تقسیم) تھی۔ سیاسی اختلاف بھی تھے۔ دائیں بازو کا بائیں بازو کے ساتھ اختلاف تھا اور وہ کبھی بھی بائیں بازو کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کرتا تھا۔ اس کے باوجود رواداری تھی، برداشت تھی۔ اس زمانے میں جنگیں ہوتی تھی، دہشت گردی نہیں۔ ایسی دہشت گردی نہیں تھی، جو آج ہے۔ یہ دہشت گردی ایک ایسی جنگ ہے، جو نہ کبھی علانیہ شروع ہوئی، نہ اس کے کوئی اسباب ہیں اور نہ اس کا کوئی انت ہے۔ اس زمانے میں سیاسی صف بندی، طبقات، گروہوں، قومی اور عالمی سطح پر واضح تھی۔ عالمی سطح پر بلاک بنے ہوئے تھے۔ اس زمانے میں جمہوریت، بنیادی حقوق، آزادی، مظلوم طبقات، قوموں اور گروہوں کی جدوجہد کرنے والے سیاسی کارکنوں کو روکنے، کچلنے یا ختم کرنے کیلئے ریاست کھل کر اپنا کردار ادا کرتی تھی یا زیادہ سے زیادہ کوئی فسطائی گروہ کھل کر سامنے آتا تھا۔ یہ کام نامعلوم دہشت گرد نہیں کرتے تھے۔یادِ ماضی سے پیار یا ناسٹلجیا! سیاسی، فلسفیانہ اور نظریاتی مباحث کا بہت اعلیٰ معیار تھا۔ دائیں اور بائیں بازو کے لوگوں کی تقریروں اور تحریروں سے محسوس ہوتا تھا کہ ان کا مطالعہ بہت وسیع ہے۔ تاریخ اور موجودہ حالات کی وہ جس طرح توضیح کر رہے ہیں، اسے ردّ کرنا اگرچہ ناممکن نہیں تو بہت مشکل ہے۔ ترقی پسندوں، قوم پرستوں کے ساتھ ساتھ نسل پرستی اور انتہا پسندی کی سوچ کے لوگوں کی اس وقت کی تحریروں اور تقریروں کا مطالعہ کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ انصاف اپنی دانش کی انتہا پر تھا۔ مغربی دنیا میں تو بڑے بڑے مفکرین پیدا ہوئے، جن کے فلسفوں نے دنیا کی کایا پلٹ دی لیکن برصغیر خصوصاً موجودہ پاکستان میں بھی دائیں اور بائیں بازو کے مفکرین نے وہ لکھا اور کہا، جو آج کے لوگ تصور بھی نہیں کر سکتے اور ان کے معیار تک پہنچ بھی نہیں سکتے۔ اس عہد میں عام آدمی کی بھی دانشورانہ سطح بہت بلند تھی۔تھوڑا سا مزید ناسٹلجیا! لوگوں کی سوچ اپنی تھی۔ استحصالی، استبدادی، سامراجی اور مقتدر قوتوں کا بیانیہ وسیع تر حلقوں میں قبول نہیں کیا جاتا تھا۔ جو حلقے اس بیانیے کو قبول کرتے تھے، وہ بھی لاشعوری طور پر ایسا نہیں کرتے تھے بلکہ اس بیانیے کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتے تھے۔ اس عہد میں ’’ایجنٹ‘‘ تھے، ’’گماشتے‘‘ نہیں تھے۔ ان کا غصہ اپنا تھا اور ان کی مصلحت اپنی تھی۔ اگرچہ اس عہد میں ’’میڈیا‘‘ محدود تھا۔ سوشل میڈیا نہیں تھا۔ اس وقت کا میڈیا انقلاب اور تبدیلی کو روکنے کیلئے تھا۔ غیر قانونی میڈیا یعنی سیاسی اور انقلابی جماعتوں کے ’’آرگنز‘‘ (ORGANS)، لٹریچر یا پمفلٹ وغیرہ تھے لیکن دنیا میں استبداد اور سامراج کے خلاف مضبوط تحریکیں تھیں۔ اس وقت بھی ظلم و استبداد تھا۔ جیلیں، قید و بند کی صعوبتیں، قید کے دوران تشدد، تشدد کے دوران موت، پھانسیاں، مجبور عدالتیں، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا نو آبادیاتی رویہ، غرض سب کچھ تھا لیکن اس جبر و استحصال کا مقابلہ کرنے والوں کو اس بات پر پچھتاوا نہیں ہوتا تھا کہ انہوں نے اس جہدوجہد میں کیا قربان کیا یا کیا مشکلات برداشت کیں۔ آخری بات یہ ہے کہ اس عہد میں سیاست دان کرپٹ نہیں تھے بلکہ اپنی فقیری اور قلندرانہ حالات میں بدترین استبداد اور سامراج کو للکارتے تھے۔ اس عہد میں سیاست کے افق پر عظیم سیاسی رہنمائوں کی ایک کہکشاں نمودار ہوئی۔ وہ عہد بڑے لوگوں کا عہد تھا۔ اپنی جانوں پر کھیل گئے لیکن نظریات اور اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔

اب آج کی بات کرتے ہیں۔ ناسٹلجیا میں نہیں الجھتے۔ اس حقیقت کا ہمیں ادراک ہے کہ آج کی دنیا میں انقلاب کے حالات نہیں ہیں اور کوئی بڑی سیاسی تحریکیں نہیں ہیں حالانکہ میڈیا پہلے سے زیادہ مضبوط ہے۔ اس میں آج کے لوگوں خصوصاً نوجوان نسل کا قصور نہیں ہے۔ آج سیاسی پولرائزیشن اس قدر خوفناک ہے کہ عالمی استعماری اور سامراجی قوتوں کے ساتھ ساتھ ہر ملک کی اصل مقتدرہ نے اپنی زر خرید حزب اختلاف (اپوزیشن) پیدا کر لی ہے اور حقیقی اپوزیشن کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ انقلاب اور تبدیلی کے نعرے پر بھی ان قوتوں نے قبضہ کر لیا ہے، جو حقیقی انقلاب اور تبدیلی کی تاریخی دشمن رہی ہیں۔ اس میں بھی آج کے لوگوں کا تصور نہیں ہے کیونکہ ترقی پسند، جمہوری اور انقلابی قوتوں کی وقتی شکست کا یہ عبوری تاریخی مرحلہ ہے۔ اس پر بھی کوئی شکوہ نہیں ہے کہ لوگ حق بات کہنے کی تکلیف برداشت کرنے کو فضول کام تصور کرتے ہیں۔ اس امر پر بھی کوئی دکھ نہیں ہے کہ صرف سیاست دانوں کو میڈیا میں گالی دے کر آج کے لوگ اپنا غیر نقصان دہ غصہ نکال لیتے ہیں اور ان میں اصلی غصہ پیدا نہیں ہوتا۔ انہیں یہ احساس نہیں ہوتا کہ دہشت گردی ریاست کی بے رحمی سے زیادہ خطرناک ہے۔ کرپشن کے خلاف احتساب کی اہم وجہ کے پیچھے کچھ وہ ہے جو آنے والی نسلیں سمجھیں گی۔ تبدیلی کے نام پر تبدیلی کے آگے بند باندھ دیئے گئے ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے، جو بقول کسے ’’جو بات ماضی میں لوگوں کو سمجھ آجاتی تھی، وہ آج کے لوگوں کو سمجھ نہیں آتی‘‘۔ مہنگائی، بیروزگاری اور غربت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دنیا میں غریب اور امیر کا فرق تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اگرچہ ایسے حالات میں پوری دنیا میں ہیں، لیکن پاکستان میں ان کی سنگینی دنیا کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ ہم ناسٹلجیا کا شکار نہیں ہیں۔ ہمارا آج کے حالات سے تعلق اس لئے پہلے کی طرح ہے کہ ہم لاتعلقی کو جرم تصور کرتے ہیں۔ پہلے ہم یہ شاعری گنگناتے تھے کہ ’’آئو کہ کوئی خواب بُنیں کل کے واسطے...‘‘ آج قتیل شفائی کا یہ شعر یاد آرہا ہے:۔

نہ کوئی خواب ہمارے ہیں، نہ تعبیریں ہیں

ہم تو پانی پہ بنائی ہوئی تصویریں ہیں

تازہ ترین