• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک معتدل مزاج عالم ِ دین کے طور پر شہرت پانے والے ڈاکٹر طاہر القادری، جن کے لاکھوں عقیدت مند ہیں، کینیڈاکی سرزمین سے پاکستان میں ایک ڈرون کی طرح دھماکہ خیز انداز میں وارد ہوئے اور اعلان فرمایا کہ جلد ہی اُن کا رخ دارالحکومت کی طرف ہوگا۔ ایم کیو ایم نے بھی ان کی بھرپور حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔ اب کیا ہونے جارہا ہے؟ڈاکٹر صاحب دہری شہریت رکھتے ہیں، چنانچہ قانونی طور پر وہ پاکستان میں انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے ہنوز اپنی کینیڈا کی شہریت ترک نہیں کی ہے کیونکہ اُن کا انتخابات میں حصہ لینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ تاہم اُنہوں نے 23 دسمبر کو لاہور میں منہاج القرآن کے لاکھوں کارکنوں کو جمع کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اگلے پندرہ دن کے اندر اندر انتخابی اصلاحات نافذ کی جائیں ورنہ وہ لاکھوں افراد کا لانگ مارچ لے کر اسلام آباد پہنچ جائیں گے اور پارلیمنٹ کے سامنے احتجاج کریں گے۔ انٹرویو دیتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے 1992-3 میں نواز شریف حکومت کے خلاف لانگ مارچ کی دھمکی دی۔ اس کی وجہ سے فوج نے نواز شریف کو اقتدار سے چلتا کیا۔ اس کے بعد 2009 میں نواز شریف نے عدلیہ کی بحالی کیلئے لانگ مارچ کیا اور ایک مرتبہ پھر فوج نے حکومت پر دباؤ ڈال کر لانگ مارچ کا مقصد پورا کردیا، چنانچہ وہ (طاہر القادری) بھی حقیقی معنوں میں ایک آزاد اور غیر جانبدار نگران حکومت کرانے اور انتخابی اصلاحات کے نفاذ کیلئے لانگ مارچ کا دباؤ ڈالنے میں حق بجانب ہیں۔
ڈاکٹر صاحب اس بات سے بھی باخبر ہوں گے کہ اب تک بنائی جانے والی نگران حکومتیں دفاعی اداروں کی مشاورت سے ہی بنائی گئی تھیں…1988 اور 1990، 1993، 1999 میں قائم ہونے والی نگران حکومتیں بالترتیب جنرل اسلم بیگ، جنرل وحید کاکڑ اور جنرل پرویز مشرف کی پس ِ پردہ مشاورت سے ہی بنی تھیں…تاہم ان میں سے کوئی حکومت بھی قادری صاحب کے طے کردہ پیمانے کے مطابق آزاد اورغیر جانبدار ثابت نہ ہوئی۔ اُن کا مطالبہ ایک طرف، اُنہوں نے اس بات کی وضاحت نہیں کی ہے کہ اس مرتبہ ”آزادی اور غیر جانبداری “ پر مبنی صراطِ مستقیم کی ضمانت کیسے حاصل کی جائے گی ؟ اسی ابہام کی وجہ سے اُن کی دھماکہ خیز آمد کے ساتھ ہی سازش کی تھیوریاں گردش میں آگئی ہیں کہ اُن کا اصل ایجنڈا کسی نہ کسی قسم کی فوجی مداخلت کا راستہ ہموار کرنا ہے۔ تاہم شبہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اس مرتبہ بندوق کی بجائے ”عوامی “ طاقت استعمال کی جائے گی کیونکہ ”جمہوری دور “ ہے۔
ملک میں یہ تاثر پیدا کرنے کی ذمہ داری بنیادی طور پر ڈاکٹر صاحب پر عائد ہوتی ہے۔ اپنے انتخابی اصلاحات کے ایجنڈے کیلئے اُنہوں نے آئین کی ایسی دفعات کا سہارا لیا ہے جن میں درج شرائط پر پورا اترنے والے امیدواروں کی تلاش انتخابات لامتناہی وقت کیلئے ملتوی کرانے کے مترادف ہے۔ اگر ملک کی دونوں بڑی جماعتوں کے متوقع انتخابی امیدواروں کا جائزہ لیا جائے تو زیادہ تر ان شرائط پر پورا نہیں اترتے۔ پھر اُنہوں نے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے اٹلی میں طویل مدت کے لئے قائم کی جانے والی نگران حکومت ، جو ماہرین پر مشتمل تھی، کا بھی حوالہ دیا ہے ۔ تاہم اس کا حوالہ دیتے ہوئے قادری صاحب نے ایک اہم معروضہ نظر انداز کر دیا ہے کہ اٹلی میں ماریو مونٹی کی سربراہی میں قائم ہونے والی ماہرین کی نگران حکومت ، جو تیرہ ماہ قائم رہنے کے بعد گزشتہ ہفتے ختم ہوئی، کو موجودہ پارلیمنٹ کی غیر مشروط حمایت حاصل تھی اور اس کی فعالیت ٹیکس، نہ کہ انتخابی، اصلاحات کے مشکل فیصلوں کے لئے تھی، جبکہ طاہر القادری صاحب نگران حکومت کا قیام اُس وقت عمل میں چاہتے ہیں جبکہ موجود ہ پارلیمنٹ تحلیل ہو چکی ہو اور اُسے مرکزی سیاسی جماعتوں کی حمایت بھی حاصل نہ ہو۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ پروفیسر صاحب، اگرچہ خود الیکشن لڑنے یا کوئی بھی عوامی عہدہ رکھنے کیلئے نااہل ہیں (دوہری شہریت کی وجہ سے) لیکن وہ نااہل افراد کو انتخابات میں حصہ لینے سے روکنا چاہتے ہیں۔
اس کے علاوہ لاہور کے جلسے پر خرچ ہونے والے کئی ملین روپوں کے بارے میں بھی سوالات پوچھے جارہے ہیں․․․ ابھی لانگ مارچ پر بھی خطیر رقم خرچ ہو گی۔ اُن کا کہنا ہے کہ بیرون ِ ملک مقیم اُن کے لاکھوں عقیدت مندوں نے اس کے لئے عطیات دیے تھے تاہم صاحب ِ فکر پاکستانی، اگرچہ پروفیسر صاحب کے پیروکاروں کی تعداد پر کسی کو کوئی شبہ نہیں ہے، اس بات پر یقین کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ رقوم بیرون ِ ملک سے آئی ہیں۔ چناچہ اس صورت ِ حال میں دونوں مرکزی سیاسی جماعتوں، جن کی طرف لاہور جلسے کی توپوں کا رخ تھا، نے بھی کمر کس لی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر صاحب در اصل اسٹیبلشمنٹ، جو پی پی پی یا پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اقتدار میں آنے کے امکانات کو زائل کرنے لئے انتخابات ملتوی کرانا چاہتی ہے، کے ہاتھوں میں ایک مہرے کے طور پر استعمال ہورہے ہیں۔
پوچھے جانے والے سخت سوالات کی وجہ سے ڈاکٹر قادری اپنے پہلے نعرے ․․․ سیاست نہیں ریاست بچاؤ․․․ میں مناسب ترمیم کرتے ہوئے اب کہہ رہے ہیں کہ وہ نہ تو فوجی مداخلت کے حق میں ہیں اور نہ ہی انتخابی عمل کو التوا میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ تاہم اُن کا کہنا ہے کہ نیک اور صالح افراد پر مشتمل غیر جانبدار نگران حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے ورنہ اسلام آباد پر چڑھائی کے لئے عوامی فوج تیار ہے۔ پی پی پی حکومت نے مئی کے پہلے ہفتے انتخابات کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ بیسویں ترمیم کی روشنی میں نگران حکومت کے قیام کے لئے پی ایم یل(ن) کے ساتھ مذاکرات کی بھی تیاری کررہی ہے ، لیکن قادری صاحب اس آئینی عمل کو ”مک مکا “ کا نام دے کر مسترد کرتے ہیں۔ چنانچہ یہ خدشہ حقیقی خطرے کا روپ اختیار کرتا محسوس ہوتا ہے کہ انتخابات کی بجائے غیر آئینی طریقے سے حکومت کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس کا تدارک کرنے لئے پی پی پی جلدی سے حکومت کی تحلیل ، نگران حکومت کے قیام اور اگلے عام انتخابات کی حتمی تاریخ کا اعلان کر سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ ”عوام “ کی تسلی کے لئے نگران حکومت کے لئے شفاف اور غیر جانبدار کردار کے حامل افراد کے چناؤکے لئے درکار طریق ِ کارکا اعلان کر سکتی ہے۔ تاہم ، جیسا کہ قادری صاحب کے بیانات ظاہر کرتے ہیں، یہ اقدامات لانگ مارچ کو روکنے کے لئے ناکافی دکھائی دیتے ہیں کیونکہ اس کا ہدف ملک سے بدعنوانی اور دیگر برائیوں کا خاتمہ ہے۔ اس کا صاف مطلب دونوں بڑی جماعتوں کو اقتدار سے باہر رکھنا ہے۔
اگر ڈاکٹر طاہر القادری کا لانگ مارچ ہوتا ہے تو خدشہ ہے کہ ملک میں بحرانی کیفیت پیدا ہوجائے گی اور دفاعی ادارے مداخلت پر مجبور ہوجائیں گے۔ اگر حکومت مارچ کے شرکاء کو روکنے کے لئے طاقت کا استعمال کرے یا خدانخواستہ دہشت گردوں نے اس پر حملہ کر دیا تو خون خرابہ ہوگا۔ اس سے امن و امان کا شدید مسئلہ پیدا ہو جائے گا۔ اُس صورت میں عمران خان اور دیگر موقع پرست جماعتیں بھی حکومت کو کمزور کرنے لئے قادری صاحب کے ہم قدم ہو سکتی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اُ س موقع پر عدالتی فعالیت بھی کسی سے پیچھے نہ رہے۔ اگر یہ صورت ِ حال پیدا ہوتی (کی جاتی) ہے تو انتخابات غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی ہوجائیں گے اور ایک یا دوسال کے لئے بنگلہ دیش طرز پر ماہرین پر مبنی نگران حکومت کا قیام عمل میں آجائے گا۔ کیا اس اقدام سے ملک میں استحکام پیدا ہو گا یا نہیں․․․ یہ ایک بحث طلب سوال ہے۔
تازہ ترین