• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سمندر میں پلاسٹک کی آلودگی کے نتیجے میں کچھوئوں کے 40فی صد بچے ہلاک ہو جاتے ہیں، یہ امر زیادہ باعث تشویش ہے کہ زہریلا پلاسٹک نگل جانے کی وجہ سے بالغ کچھوئوں کے مقابلے میں ان کے بچوں کی اموات چار گنا زیادہ ہوتی ہیں اور یہ اپنی خوراک ساحلوں کے نزدیک تلاش کرتے ہیں جہاں پلاسٹک کی آلودگی زیادہ ہوتی ہے۔ساحلی علاقوں میں پلاسٹک کی اشیا سے پھیلنے والی آلودگی کی شرح بھی زیادہ ہے جب کہ پلاسٹک کی آلودگی ان کے نظام ہضم کو ناکارہ کرنے اور بعد ازاں موت کا سبب بھی بن جاتی ہے۔ماہرین آبی حیات کی جانب سے تقریباً1000مردہ کچھوئوں کا پوسٹ مارٹم کیا گیا تھا، اس کی رپورٹ کے مطابق ان میں سے نصف نومولود تھے جب کہ پلاسٹک کھا کر ہلاک ہونے والوں میں سے ایک چوتھائی نوعمر اور سات میں سے صرف ایک بالغ کچھوا تھا۔اسٹڈی میں کچھوئوں کی جن اقسام پر تحقیق کی گئی تھی ان میں گائودی ، سبز کچھوا ، سنگ پشت ،باز منقار ،کیمپس رڈلے ، اولائیو رڈلے اور آسٹریلین فلیٹ بیک شامل تھے۔ مطالعے کے دوران سائنسدانوں نے مشاہدہ کیاکہ کچھوئوں کے معدے میں مختلف مقدار پائی گئی۔ بعض میں پلاسٹک کا ایک اور دیگر میں سے329 ٹکڑے نکالے گئے۔ معدے سے نکالے گئے پلاسٹک کے ٹکڑے کا زیادہ سے زیادہ وزن 10.41 گرام 0.4) اونس) تھا۔

سائنس دانوں کے مطابق جانور کے معدے میں پلاسٹک کے 14 ٹکڑے پہنچنے کے بعد موت کا امکان 50 فی صدبڑھ جاتا ہے۔ سمندر میں پلاسٹک کی آلودگی میں پلاسٹک کی تاروں سے بنے مچھلیاں پکڑنے کے جال، نائیلون کے رسے، ڈھکن، تھیلے، بوتلیں، سٹرا اور پلاسٹک کے ٹکڑے شامل ہیں۔ ا پنی نوعیت کی اس پہلی تحقیق کی قیادت ہوبارٹ، تسمانیہ میں کامن ویلتھ سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ آرگنائزیشن کے سائنس دانوں نے کی۔ اس مطالعے کے تحت دنیا بھر میں پلاسٹک کی آلودگی سے سمندری کچھوئوں کی آبادی میں کمی کے خدشات پر روشنی پڑی ہے ،جس کی مختلف نسلیں پہلے ہی ناپید ہوتی جا رہی ہیں۔ کامن ویلتھ سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ آرگنائزیشن کی ڈاکٹر ڈینس ہارڈیسٹی کے مطابق سمندری ماحولیات میں پلاسٹک کے ملبے کی مستقل موجودگی تشویش میں اضافہ کر رہی ہے۔ ایک محتاط تخمینے کے مطابق صرف 2010میں زمینی ذرائع سے دنیا کے سمندروں میں 4.8ملین سے 12.7ملین ٹن پلاسٹک کا ملبہ داخل ہوا ،جس میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے جب کہ ماہرین کو خدشہ ہے کہ سمندروں میں پلاسٹک کی آلودگی مستقبل میں زیادہ تیزی سے بڑھے گی۔

دنیا میں سب سے زیادہ پلاسٹک کا کچرا چین میں پیدا ہوتا ہے جب کہ دوسرے نمبر پر انڈونیشیا آتا ہے۔ پلاسٹک کے یہ ٹکڑے آبی حیات کے گلے یا معدے میں پہنچنے کے سبب بہت بڑا خطرہ بن گئے ہیں ۔ماہرین کو پلاسٹک کے جس ملبے پر زیادہ تشویش ہو رہی ہے، اس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اس آلودگی کی ذمہ داری خود انسان پر عائد ہوتی ہے۔ان کی ٹیم نے 1992ء میںکوئینزلینڈ کے ساحل پر مردہ پائے جانے والے کچھوئوں کے 952پوسٹ مارٹم کئے۔ ان کی ریسرچ سے اس خدشہ کی تصدیق ہوگئی کہ پلاسٹک کچھوئوں بالخصوص ان کے بچوں پر جان لیوا اثرات مرتب کر رہا ہے۔معدے میں زہریلا پلاسٹک جانے سے ہلاک ہونے والے کچھوئوں کی تعداد مجموعی طور پرہلاک ہونے والوں سے مختلف پائی گئی۔ جن کی موت نامعلوم وجوہات کے باعث ہوئی ۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ہماری نئی تحقیق کے نتیجے میں یہ حقائق بھی سامنے آ گئے ہیں کہ پلاسٹک کھا کر ہلاک ہونے والے کچھوئوں کی شرح کیا ہے اور سمندری آلودگی آبی حیات کی زندگی پر کس حد تک سنگین اثرات مرتب کر رہی ہے۔ ایک تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ خوراک کھانے کامقام اور زندگی کی تاریخ کا مرحلہ کچھوے کی ہلاکت کے خدشات پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ڈاکٹر ہارڈیسٹی کا مزید کہنا ہے کہ نوعمر کچھوے لہروں کے ساتھ بہہ کر آنے والی اشیا میں اپنی خوراک تلاش کرتے ہیں جب کہ وہ پانی کی سطح کے نزدیک موجود خوراک کھاتے ہیں۔لہروں کے ساتھ بہہ کر آنے والی اشیا میں پلاسٹک کے بڑے ٹکڑوں کی موجودگی زیادہ ہوتی ہے جو کہ ان کے معدے یا آنت میں پہنچ کر ہلاکت کا باعث بن جاتے ہیں۔ سمندری کچھوے پہلی آبی حیات ہے، جس کے پلاسٹک کھانے کے ثبوت مل چکے ہیں۔عالمی جائزہ کے مطابق تمام نسلوں سے تعلق رکھنے والے 52فی صد سمندری کچھوے دنیا کے ہر خطے میں پلاسٹک کھاتے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ آبی حیات کی کم از کم700اقسام پلاسٹک کے ملبے سے خوراک تلاش کرتی ہیں جب کہ نئی تحقیقی رپورٹس ملنے پر ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ بھی ظاہر ہو رہا ہے۔

گزشتہ سال یونیورسٹی آف ایکسٹر کے تحقیقی ماہرین نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ سمندروں اور ساحلوں کے نزدیک ہر سال 1000سے زائد سمندر ی کچھوے پلاسٹک کھا کر ہلاک ہو جاتے ہیں۔برطانوی حکومت نے مارچ 2018ءمیں جاری کی جانے والی ایک رپورٹ میں متنبہ کیا کہ سمندروں میں پلاسٹک کی آلودگی اگلے10برسوں میں تین گنا ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ 2025ءتک سمندروں میں پلاسٹک کی آلودگی 150ملین ٹن ہو جائے گی جو کہ 2015کے تخمینے50ملین ٹن سے تین گنا زیادہ ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 2015 کے دوران32 کروڑ 20لاکھ ٹن پلاسٹک بنایا گیا اور 2050 تک اس مقدار میں چار گنا اضافہ ہو سکتا ہے۔ انہیں تشویش ہے کہ پلاسٹک کی پیداوار بڑھنے سے لازمی طور پر اس کی سمندری آلودگی میں بھی اضافہ ہوگا۔دنیا کے سمندروں میں ہر منٹ کے بعد کوڑے کرکٹ کے ایک ٹرک کے برابر پلاسٹک کا فضلہ داخل ہو رہا ہے اور ہر سال یہ مقدار 80 لاکھ ٹن کے برابر بنتی ہے۔

ایک نئی تحقیقی رپورٹ کے مطابق سمندر میں داخل ہونے والی اس آلودگی کا ذریعہ صر ف 10 بڑے دریا ہیں۔ اس کاایک تشویش انگیز پہلو یہ ہے کہ کچھ عرصہ قبل کی جانے والی ایک تحقیق میں ماہرین نے قطب شمالی کے سمندر کی برف میں بھی پلاسٹک کا کچرا جما ہوا پایا۔تحقیق میں شامل ماہرین نے بحر آرکٹک کے 5 مختلف مقامات کا تجزیہ کیا،جس میںاوسطاً ایک لیٹر کی برف میں مختلف جسامت کے 12 ہزار پلاسٹک کے ٹکڑے موجود تھے۔عالمی اقتصادی فورم میں بھی ماہرین کی یہ بازگشت سنی جا چکی ہے کہ دنیا بھر کے سمندروں میں 5 کھرب پلاسٹک کی اشیا موجود ہیں۔ ان سب کا اگر وزن کیا جائے تو یہ 2 لاکھ 68 ہزار ٹن بنتا ہے۔اس تشویش ناک صور ت حال کو دیکھتے ہوئے دنیا بھر کےسائنسی ماہرین نے سمندری آلودگی کے خاتمے کے لیے کوششیں شروع کر دی ہیں ۔سائنس دان 40ملین پونڈز کی لاگت سے تیار کی گئی ماحولیاتی بوٹ تیار کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں جو کہ روزانہ سمندر سے پانچ ٹن پلاسٹک نکال سکے گی جسے بعد ازاں قابل تجدید فیول کی تیاری میں بھی استعمال کیا جائے گا۔ سائوتھمپٹن ، برطانیہ میں ڈیزائن کی گئی یہ بوٹ ’’ اوشین سیویئر‘‘ پہلا ویسل ہوگا جو پلاسٹک آلودگی جمع کر کے اسے قابل تجدید توانائی میں تبدیل کر ے گا۔ بوٹ پر جمع کئے گئے پلاسٹک کو پہلے باریک ٹکڑوں میں تبدیل کر دیا جائے گاجسے بوٹ پر ہی نصب مشینری کے ذریعے پیس اور پروسس کرکے اس کی ماحولیاتی آلودگی کی صلاحیت کو ختم کرکے قابل تجدید توانائی میں تبدیل کر دے گا۔اقوامِ متحدہ کے سمندروں سے متعلق ادارے کی سربراہ لیزا سوینسن کے مطابق سمندروں میں پلاسٹک کی آلودگی کے ماحولیاتی اثرات کا انداز لگانا اتنا آسان نہیں ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین