• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کمال احمد رضوی اور طلعت حسین جیسے صاحبان ہنر سے لے کر ڈاکٹر انور سجاد اور پروفیسر شائستہ سونو جیسے دانشوروں تک ہمارے بہترین دماغ ایک سوال سے نبرد آزما رہے ہیں کہ آخر ہمارے ہاں تھیٹر کی روایت کیوں نہیں پنپ سکی ۔ ہماری معاشرت میں امانت لکھنوی کے اندر سبھا سے لے کر پارسی تھیٹر تک اس فن کی بنیاد ایسی کمزور تو نہیں تھی۔ صفدر میر صاحب فرماتے تھے کہ تھیٹر کا پودا جمہوری ثقافت کی مٹی میں بہار دیتا ہے۔ صفدر میر کا مقام تسلیم، مگر بھائی ان کی رائے دل کو ٹھکی نہیں۔ ایک بات تو یہی کہ شیکسپیئر اور کرسٹوفر مارلوکا انگلینڈ جمہوری معاشرہ تو نہیں تھا۔ ادھر ہمسایہ ملک بھارت میں جمہوریت کا تسلسل چھ دہائیوں پر محیط ہے لیکن بھارت نے فلم کی دنیا میں تو اپنے جھنڈے گاڑے ہیں، تھیٹر کا حال وہاں بھی تھوڑے بہت فرق کے ساتھ کچھ ہم جیسا ہی ہے۔ البتہ کچھ عرصے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تھیٹر کا ارتفاع تو ہمیں نصیب نہیں ہوا مگر ہم نے اپنی قامت کے مطابق ایک صنف دریافت کر لی ہے جسے ہم ”ڈرامہ“ کہتے ہیں۔ تھیٹر اور ڈرامے کا فرق جاننے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ عطاء الحق قاسمی کے کردار ادّھا پہلوان ٹھنڈی کھوئی والے سے رابطہ کیجئے جو فلم دیکھنے کے بعد کئی روز اپنے دوستوں کو بتاتا رہتا ہے کہ ”فلم کی کہانی تو کچھ خاص نہیں مگر اسٹوری بہت اچھی ہے“۔ اور دوسرا طریقہ یہ کہ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ، اخبار پڑھیے ، ٹیلی ویژن دیکھیے، کسی سیانے کی گفتگو سنیے ۔ آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ ہمارے ارد گرد جو ہو رہا ہے، ڈرامہ ہے۔
مثلاً یہ کہ ہم گزشتہ دس برس سے دہشت گردی کا شکار ہیں۔ ہماری سرزمین پر بھانت بھانت کے مسلح غیرملکی عناصر آ کر بیٹھ گئے ہیں جو ہم پر اپنی حکومت مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے بہترین سیاسی رہنماؤں سمیت چالیس ہزار معصوم ہم وطن اس عفریت کا شکار ہو چکے ہیں۔ دنیا کے کسی اور ملک میں دہشت گردوں کی اتنی بڑی تعداد ہلاک اور گرفتار نہیں ہوئی۔ ان عناصر کا رہنما اپنے اہل خانہ سمیت ہمارے ملک سے برآمد ہوا۔ لیکن... ہمارے ملک کی قدیم ترین یونیورسٹی کا وائس چانسلر کہتا ہے کہ یہ سب ڈرامہ ہے۔
ہمارے ملک میں بچیوں کی تعلیم کے لیے آواز اٹھانے والی ایک کم عمر بچی ملالہ یوسف زئی پر حملہ کیا گیا ۔ حملے کے وقت اس گاڑی میں درجن بھر سے زیادہ بچیاں موجود تھیں جن میں سے دو زخمی بھی ہوئیں۔ اس بچی کو سوات کے ہسپتال میں لے جایا گیا، جہاں سے اسے پشاور منتقل کیا گیا۔ پشاور میں ہماری مسلح افواج کے سپہ سالار نے اس کی عیادت کی۔ اسے تشویش ناک حالت میں پنڈی کے فوجی ہسپتال میں لایا گیا۔ پھر اسے علاج کے لیے برطانیہ لے جایا گیا جہاں اس سے ملاقات کرنے والوں میں ہمارے صدر مملکت بھی شامل تھے۔ اس عرصے میں غیرملکی رہنماؤں سمیت ہزاروں افراد نے اس بچی کو زخمی حالت میں دیکھا۔ لیکن... ہمارے ملک کی قدیم ترین مذہبی سیاسی جماعت کا رہنما کہتا ہے کہ یہ سب ڈرامہ ہے۔
ہمارے ملک میں ایک متفقہ آئین موجود ہے جس کے مطابق پانچ برس قبل انتخابات منعقد ہوئے تھے جن کے بعد وفاق اور صوبوں میں منتخب حکومتیں قائم ہوئیں۔ پارلیمنٹ اب اپنی میعاد مکمل کر رہی ہے۔ آئین کے مطابق انتخابات سے پہلے نگران حکومتیں مقرر کی جائیں گی جو انتخابات کی نگرانی کریں گی۔ معروف جمہوری اقدار میں تو نگران بندوبست کی ضرورت پیش نہیں آنی چاہیے لیکن ہمارے مخصوص تاریخی تجربے کی روشنی میں پارلیمنٹ نے غیر جانبدار نگران حکومت کا تصور متعارف کرایا ہے تا کہ انتخابی عمل کی ساکھ قائم ہو سکے۔ اسی تناظر میں حکومت اور حزب اختلاف نے اتفاق رائے سے ایک غیر جانبدار شخصیت کو چیف الیکشن کمشنر مقرر کیا ہے۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نواز، مسلم لیگ قاف ، اے این پی، ایم کیو ایم، جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی جیسی مستند عوامی تائید کی حامل سیاسی قوتیں آئین کی بالادستی اور انتخابات کے بروقت انعقاد کی حامی ہیں۔ لیکن کسی نامعلوم گوشے سے ایک صدائے نارسا تواتر سے بلند ہو رہی ہے کہ نگراں حکومت کو نوے روز کی آئینی مدت کی بجائے چند سال کے لیے ملک کی باگ ڈور سنبھالنی چاہیے ۔
کیوں بھائی کس خوشی میں؟ اور ایسے کسی اقدام کا آئینی جواز کیا ہوگا اور اس سے عوام کی حاکمیت کا اصول کیسے استحکام پائے گا۔ چھوڑیں صاحب، آپ تو کتابی باتیں کرتے ہیں۔ ارے بھائی سب ڈرامہ ہے۔ بات یہ ہے کہ فیصلہ ہو گیا ہے کہ انہیں حکومت نہیں دینا۔ جناب کس نے فیصلہ کیا اور کسے حکومت نہیں دینا۔ حکومت تو لوگوں نے اپنے ووٹوں سے بنانی ہے۔ میاں آپ اتنی گہرائی میں نہ جائیں، بس ڈرامہ دیکھیں۔پچھلے دنوں وطن عزیز میں ایک پارسا ہستی کا ورود ہوا ہے جنہوں نے لاہور میں ایک جلسہ منعقد کر کے اصلاح وطن کے لیے ملکی قیادت کو ایک ہدایت نامہ جاری کیا ہے۔ صاحب موصوف کی عمر عزیز ساٹھ برس ہونے کو آئی اور کم از کم تیس سال سے ہماری خوش عقیدگی کا خراج وصول کر رہے ہیں۔ اس دوران پاکستان میں بنیادی سوال عوام کی حاکمیت سے متعلق رہا ہے۔ اس صاحب رشد نے اس مسئلے پر کبھی استوار موٴقف اختیار نہیں کیا۔ ایک آمر کے عہد تاریک میں نمود پائی، دوسرے آمر کے دور ستم انگیز میں سرسبز ہوئے۔ایک سیاسی جماعت کھڑی کی جس نے چودہ برس میں ایک نشست حاصل کی۔ جسد آئین میں سترہویں ترمیم کا چھرا گھونپا گیا تو یہ سلطان بے اماں کے پہلو میں تھے۔ پھر ایک روز کینیڈا تشریف لے گئے۔ اس سوال کا جواب نہیں دیتے کہ انہیں ملک چھوڑ کر جانے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ داد و ستد کے ایسے کھرے ہوتے تو آپ کی ذات اقدس کو لاہور کی عدالت عالیہ جھوٹا اور دھوکے باز قرار نہ دیتی۔ یوں دوسروں پر آئین کی دفعات 62 اور 63 کی تلوار چمکانا آسان ہے۔ ارے بھائی، آپ پھر وکیلوں جیسی دلیل بازی میں پڑ گئے۔ ڈرامہ نہیں دیکھتے۔
ڈرامے کی ٹھہری تو پھر ڈرامے کی حرکیات میں ایک تصور تشکیک کو عارضی طور پر معطل کرنا بھی ہے۔ لیکن ہم نے تو تنقیدی شعور کو مستقل فارغ خطی دے رکھی ہے۔ تو صاحب یہی فرق ہے تھیٹر اور ڈرامے میں۔ تھیٹر انفرادی اور اجتماعی دائروں میں شفافیت سے جنم لیتا ہے۔ جہاں حقیقت سے انکار کی روایت جڑ پکڑ لے، جہاں اندھیرے میں سائے کا تعاقب سے شغف پایا جائے، وہاں تھیٹر کا پودا برگ و بار نہیں پاتا، ڈرامہ دیکھنا پڑتا ہے۔ اور یہ تو آپ جانتے ہیں کہ ہمارے ڈرامے کی کہانی بھلے مضبوط نہ ہو مگر اسٹوری بہت اچھی ہے۔
تازہ ترین