• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ لگ بھگ بیس برس پہلے کی بات ہے جب امریکہ، انگلینڈ او ر کئی یورپی ممالک میں ایک فلم ایک ساتھ دکھائی گئی۔ فلم کے بعد امریکہ اور انگلینڈ کے 5بڑے شہروں میں بیٹھے ہوئے دانشوروں نے اس فلم پر لائیو گفتگو کی۔ فلم کا نام ہے Threads اور یہ امریکہ اور روس کے درمیان ہونے والی ایک خیالی جنگ کی تصویر کشی کرتی ہے جس میں ایک نیو کلیئر بم انگلینڈ پر گر جاتا ہے۔ جس بڑے پیمانے پر اس سے تباہی ہوتی ہے اور جس طرح 50برس بعد پیدا ہونے والی نسلیں بھی اس کے نتائج بھگتتی ہیں، یہ اس فلم کا موضوع ہے۔ فلم کے بعد سائنسدانوں اور سیاستدانوں نے جو گفتگو کی وہ یورپ اور امریکہ میں ناظرین کو ڈرانے کے لئے کافی تھی۔ بے شمار اخبارات نے ان موضوعات کو اٹھایا اور امن پسند شہریوں نے حکومتوں پر زور دینا شروع کیا کہ خدارا نیو کلیئر بموں کی اندھا دھند پروڈکشن سے بچو، اور انہیں بنانے سے گریز کرو۔ جس نیو کلیئر ٹیکنالوجی کے حصول کے لئے ہندوستان اور پاکستان نے اپنے وسائل کو بے دریغ خرچ کیا اور جس کے حصول کے لئے ایران نے نجانے کیا کچھ قربان کیا غور کریں تو ہمیں سوچنا چاہئے کہ کیا یہ نیو کلیئر ٹیکنالوجی حاصل کر کے اور سینکڑوں کی تعداد میں بم بنا کر ہمیں کچھ ملا بھی؟ اور یہ بھی کہ ہم نے اس لئے کیا کچھ قربان کر دیا ہے؟
Confronting the Bomb ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کی ایڈٹ کی ہوئی وہ کتاب ہے جو ان موضوعات کا تفصیل سے احاطہ کرتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ برس ہا برس پہلے جب امریکہ کے ہاتھ نیو کلیئر بم بنانے کی ٹیکنالوجی آ گئی تو کچھ ہی عرصے میں یہ سائنسدانوں کے ہاتھ سے نکل گئی اور اب اس کی ملکیت سیاسی اور فوجی ماہرین کے ہاتھ آ گئی۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہیروشیما اور ناگا ساکی پر بم گرانے کا فیصلہ کیا گیا تو اس میں فیصلہ کن کردار ملٹری اور گرے سوٹوں میں ملبوس سیاستدانوں کا تھا۔ بم بنانے والے اوپن ہائمر جیسے لوگ تو اس کی تباہ کاریوں کے بارے میں فکر مندتھے اور اسی وجہ سے اوپن ہائمر نے بم بنانے کے بعد کہا کہ ”میں نے موت تخلیق کر دی ہے“ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کی اس وارننگ کو اہمیت نہیں دی گئی اور ہیرو شیما اور ناگاساکی پر بم گرا دیئے گئے۔ ایسا کسی غصے کی وجہ سے نہیں کیا گیا بلکہ جانتے بوجھتے ہوئے فیکٹریوں کے علاقے میں جہاں زیادہ سے زیادہ لوگ کام کر رہے تھے اور جن فیکٹریوں کے پاس مزدوروں کی کالونیاں تھیں یہ بم گرائے گئے۔بم گرانے کے نتیجے میں لاکھوں لوگ صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔
صرف پلک جھپکتے ہی معصوم لوگ زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اخبارات نے ہیڈ لائنز لگائیں کہ "Jap cities no more" اور ہیری ٹرومین نے بیان دیا کہ اگر آپ کا سامنا درندوں سے ہو تو ان کے ساتھ سلوک بھی درندوں جیسا ہونا چاہئے۔ ڈاکٹر ہود بھائی کی کتاب اس درندگی کے بعد پیدا ہونے والی درندوں جیسی جنگ اور ہولناکی کی بھیانک تصویر پیش کرتی ہے۔
یہ کتاب جسے انڈیا اور پاکستان کے سائنسدانوں نے تخلیق کیا ہے بتاتی ہے کہ جہاں یورپ اور امریکہ میں سیاستدانوں، سائنسدانوں اور فوجی جرنیلوں نے ایٹم بم بنانے اور اکٹھے کرنے کی حماقت کا ادراک کر لیا ہے وہاں پاکستان اور ہندوستان کے سائنسدان، فوجی جرنیل اور سیاستدان ابھی تک اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ہولناکی سے پوری طرح آگاہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک میں بے شمار پیسہ اس ٹیکنالوجی پر خرچ کیا جا رہا ہے۔کتاب کے ابتدائیہ میں جان لولیانی جنہیں 1986ء میں کیمسٹری کا نوبل انعام دیا گیا تھا لکھتے ہیں کہ نیو کلیئر بم انسان کی بنائی ہوئی طاعون ہے اور اس سے ہر ممکن بچنا چاہئے جبکہ ڈاکٹر ہود بھائی کہتے ہیں کہ عجیب بات یہ ہے کہ اس بم کی ملکیت کے دعوے اور اس پر فخر ہمارے ہاں کے مذہبی جماعتوں کے لوگ کرتے ہیں۔ خود پاکستان کے فوجی اور سیاسی اداروں کے لوگ اس بم کو اس مقصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں کہ مغربی ممالک سے زیادہ سے زیادہ رقوم حاصل کریں، انہیں ڈرا ڈرا کر کہ اگر ہمیں پیسے نہ ملے اور ہمارے ہاں کوئی کرائس شروع ہوا تو بم جہادیوں کے ہاتھ لگ جائیں گے۔کتاب میں شامل مضامین اس بات کا بھی احاطہ کرتے ہیں کہ اگر کبھی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشیدگی بڑھی اور نوبت جنگ تک جا پہنچی تو اس کے نتائج کیا ہوں گے؟ خاص طور پر ایسے میں جب حالات نیوکلیئر بم استعمال کرنے تک جا پہنچیں۔ ایسے سوالات بھی موجود ہیں کہ جو ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں یہ تصور تو پایا جاتا ہے کہ امریکہ ہمیں ہمارے بم سے ہمیں محروم کرنا چاہتا ہے لیکن اگر کبھی حالات خراب ہو گئے اور ہمارے بم کسی غلط ہاتھ لگ گئے تو کیا ہو گا؟کیا ہمارے سیاسی دانشور، فوجی جرنیل اور عام پبلک جانتے ہیں کہ کسی بھی نیوکلیئر جنگ کے اثرات کیا ہوں گے؟ ہیروشیما اور ناگا ساکی اور Threads جیسی فلموں میں تباہی کی تصویر شاید ہمیں کچھ بتا سکے۔ کتاب کے حوالے سے ایسے سوالات بھی ہیں کہ جو ہمیں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ اگر نیوکلیئر بموں کی بجائے ہم نے یہ پیسہ اپنے ملک میں بچوں کی تعلیم اور خاص طور پر اعلیٰ سائنسی تعلیم پر خرچ کیا ہوتا تو کیا ہم زیادہ مضبوط نہ ہوتے؟ اس وقت جب نیوکلیئر بم کے ہوتے ہوئے بھی ہم اپنی بقاء کے لئے دوسرے ملکوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہیں۔ ہمارے ادارے ناکام ہو چکے ہیں، معیشت دن بدن روبہ زوال ہے، اخلاقی و تعلیمی نظام کی دھجیاں بکھر رہی ہیں، عوام فاقوں مر رہے ہیں تو ایسے میں یہ نیو کلیئر بم ہمیں کیا دے سکے گا؟
کتاب میں ہود بھائی نے اپنے سائنسی ذہن کے ساتھ پاکستان کی موجودہ حالت میں آ جانے تک کے واقعات کا استدلالی جائزہ لیا ہے۔ انہوں نے پاکستان کی آئیڈیالوجی نیشنل میک اپ اور آرمی کی قوت کا اپنے مضمون Post-bin Laden. میں بہت اچھا موازنہ پیش کیا ہے اور ان کے لئے پاکستان میں شدت پسندی کے رجحانات میں اضافہ ایک انتہائی لمحہ فکریہ ہے۔ جو چیز اس کتاب کو اہم بناتی ہے وہ یہ کہ اس کے مصنفین نے جذباتیت پیدا کرنے کی بجائے استدلالی انداز میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ بم امن کی ضمانت نہیں بن سکتے۔ ہمارے لیڈر، سیاستدان اور جرنیل اگر یہ کہتے ہیں کہ بم سے ہندوستان یا پاکستان محفوظ ہوئے ہیں تو یہ سچ نہیں ہے اور جہاں تک پاکستان کی بات ہے تو اس کے تحفظ کے لئے ہمیں امن، معیشت اور تعلیم کو بہتر کرنے کے لئے اقدامات کرنے ہوں گے۔
تازہ ترین