• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تیزی سے گزرتی ہوئی زندگی کے قیمتی لمحات سے خوشیاں کشید کرنے کی کوشش کرتے رہو کہ گزرا ہوا لمحہ پھر کبھی واپس نہیں آئے گا۔ گزرتے ہوئے لمحات سے ناخوش، رنجیدہ یا ڈیپریس(depress)رہنا آپ کے رویے اور سوچ کا نتیجہ ہے ورنہ اگر آپ کوشش کریں تو ان کیفیتوں سے عہدہ برآ بھی ہوسکتے ہیں اور خوشی بھی نچوڑ سکتے ہیں۔ بدمزگی، موڈ کا خراب ہونا یا مزاج میں تلخی کا عود آنا فطری اور قدرتی بات ہے چونکہ جب انسان کو کسی وجہ سے ٹھیس لگتی ہے، دل پہ چوٹ لگتی ہے یا صدمہ برداشت کرنا پڑتا ہے تو انسان فوری طور پر پریشان، اداس، دل گرفتہ یا صدمے میں چلا جاتا ہے لیکن یہ کیفیت کب تک جاری رہتی ہے، اس کا انحصار خاص حد تک آپ کی ذات پر ہے۔ آپ چاہیں تو اس کیفیت کو طول دے لیں، چاہیں تو سوچ سوچ کر اس میں اضافہ کرتے چلے جائیں یا پھر شعوری طور پر کوشش کرکے تھوڑے ہی وقت میں اس کیفیت سے باہر نکل آئیں۔ اس صورتحال کا انحصار خاصی حد تک انسان کی اپنی سوچ اور کوشش کا مرہون منت ہوتا ہے۔

خوشی، اطمینان اور قلبی راحت کی کئی قسمیں اور بہت سی وجوہ ہوتی ہیں۔ فقراء اور صوفیاء کا فرمان ہے کہ دل کا اطمینان ذکرِ الٰہی میں ہے۔ بے شک ذکرِ الٰہی نہ صرف دنیاوی دکھوں کا مداوا اور زخموں کا مرہم ہے، بلکہ روح کی روشنی ہے، قلب کی صفائی ہے، نگاہ کی عظمت ہے اور قناعت کا خزانہ بھی ہے۔ مگر ہم جیسے دنیادار جن کی افتاد طبع اس جانب مائل نہیں ہوتی یا ان کا ذہنی پس منظر مذہبی نہیں ہوتا وہ کیسے زندگی کے لمحات سے خوشی کشید کرسکتے ہیں؟ میں یہ عرض کرچکا کہ اصلی او ر سچا اطمینان ِقلب تو ذکرِ الٰہی اور درود شریف کی کثرت میں مضمر ہے کیونکہ ان سے روح منور ہوتی ہے اور جب روح منور ہوتی ہے تو خوشی اور سکون کی لہریں پھوٹتی ہیں جو انسان کے رگ و پے میں خون کی مانند حرکت کرنے لگتی ہیں۔ انسان یوں محسوس کرتا ہے جیسا اس کے روئیں روئیں سے خوشی پھوٹ رہی ہے۔ ایک دم اس کی ساری شخصیت خوشی کے سمندر میں تیرنے لگتی ہے۔ میرے تجربے اور مشاہدے کے مطابق ایسی خوشی کی لہریں اکثر وقتی ہوتی ہیں اور ایسے لمحات جلد گزر جاتے ہیں، پھر انسان نارمل زندگی میں لوٹ آتا ہے۔ یہ علامت ہے اس کمزور انسان کی جس نے اپنی روح کو ذکر الٰہی یا درود شریف پڑھنے سے پوری طرح منور نہیں کیا۔ جتنے وقت تک وہ اس مبارک کیفیت میں جذب رہا اس کا اسے انعام مل گیا، جب وہ اس سے غافل ہوا تو جلد یا بدیر واپس دنیا کے جھگڑوں، اتار چڑھائو، بدمزگیوں اور آلائشوں میں لوٹ آیا۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ آپ اپنے حال سے گزررہے ہیں یا زندگی سے نبرد آزما ہیں تو اچانک ایک انجانی اور غیر مرئی مسرت آپ کو ٹیک اوور کرلیتی ہے یعنی آپ پہ پوری طرح چھا جاتی ہے اور اچانک آپ محسوس کرتے ہیں جیسے آپ کے جسم سے مسرت کی لہریں نکل رہی ہیں۔ یہ بھی ا سی ذکر ِالٰہی اور درود شریف کے پڑھنے کا انعام ہوتا ہے جو آپ کو کچھ وقت کے لئے’’نہال‘‘ کرجاتا ہے یا پھر کسی نیک روح کی آپ کی جانب توجہ کا اثر ہوتا ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے نظام میں جزا فوری بھی ہے لیکن کبھی طویل عرصے کے بعد بھی ملتی ہے۔ آخرت میں یا یوم حساب تو بہرحال ملے گی جہاں میرے رب کا وعدہ ہے کہ ذرے ذرے کے شر اور ذرے ذرے کے خیر کا اجر دیا جائے گا یعنی ذرہ بھر بدی کی ہے تو سزا اور ذرہ بھر نیکی کی ہے تو انعام، مطلب کچھ بھی ضائع نہیں ہوگا۔ ہر عمل کا حساب محفوظ ہے اور اپنے وقت پہ دیا جائے گا۔ مثلاً اگر آپ کسی مظلوم کی خلوص نیت سے مدد کرتے ہیں، کسی غریب مریض کا علاج کروا کر اسے صحت یابی سے ہمکنار کرواتے ہیں، کسی مفلوک الحال یا بھوکے لئے بھوک مٹانے کا انتظام کرتے ہیں تو آپ کو وقتی طور پر خوشی اور قلبی راحت محسوس ہوتی ہے چونکہ اللہ پاک نے ہر نیکی میں راحت اور قلبی سکون کی جزا رکھی ہے۔ یہ کیفیت وقتی ہوتی ہے، جبکہ ذکر الٰہی سے اور نبی کریم ﷺ پر کثرت سے درود بھیجنے والے اس قلبی مسرت سے اس وقت تک مستفید ہوتے رہتے ہیں جب تک وہ دنیا کی کثافتوں میں ملوث نہیں ہوتے۔البتہ جن کے قلب ذکر سے جاری ہوجاتے ہیں اور ہر دھڑکن کے ساتھ ذکر کو وابستہ کرلیتے ہیں وہ ہمہ وقت قلبی سکون، ذہنی اطمینان اور مسرت کی کشتی میں سوار رہتے ہیں۔

اللہ پاک کے پسندیدہ لوگوں کی باطنی کیفیات کے بارے میں ہم جنرل نالج سے زیادہ نہیں جانتے، ہم دنیاداروں کا مسئلہ تو یہ ہے کہ دنیا میں رہتے ہوئے اور دنیاوی کثافتوں کا بوجھ اٹھا کر زندگی کے گزرتے لمحات سے خوشی کیسے حاصل کریں؟ اس حوالےسے ہر شخص کا اپنا اپنا انداز اور اپنی اپنی سوچ ہے۔ ذاتی حوالے سے کچھ عرض کرنے سے قبل یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ انسان اپنی حد تک اپنی ذات اور کیفیات پر خاص حد تک قادر ہے۔ وہ چاہے اور ارادہ کرے تو خود کو بدل بھی سکتا ہے اور کسی سانچے میں ڈھال بھی سکتا ہے مگر اس کے لئے محنت اور شعوری کوشش کرنا پڑتی ہے۔ ہماری ناخوشی، رنجیدگی اور ڈیپرشن کی عمومی وجوہات ناکامی، محرومی، احساس کمتری، مالی نقصان، چھوٹا موٹا حادثہ، زیادتی، توقعات کا ٹوٹنا یا کسی مہربان کے ہاتھوں جذبات کا مجروح ہونا ہوتا ہے۔ میں نے اکثر لوگوں کو مالی امور کے سبب ناخوش یا پریشان پایا۔ یقین کیجئے اگر آپ چاہیں اور شعوری کوشش کریں تو قلب کو مال کی محبت، حُبِ جاہ، ہوس یا مالی نقصان کے صدمے سے پاک کرسکتے ہیں۔ آپ کوشش کریں اور خداوند قدوس پہ بھروسہ اور سچا ایمان رکھیں تو ان معاملات کو اپنے خالق حقیقی کے سپرد کرکے اپنے آپ کو اس ذہنی عذاب سے آزاد کرلیں۔ دل سے ان خواہشات کو زور لگا کر اس طرح نکالیں جیسے کنویں سے ’’بوکے‘‘ کے ذریعے پانی نکالا جاتا ہے۔ اسی طرح قلب یا باطن سے غصہ، انتقام، کدورت اور بغض کو محنت کرکے نکالیں بلکہ اس عمل سے گزرتے ہوئے اپنے آپ کو حکم دیں جیسے بادشاہ اپنی رعایا کو حکم دیتا ہے ،کہ میرے اندر سے نکل جائو، ابھی فوراً میرے سامنے سے غائب ہوجائو، اگر آپ خلوص سے قلب کو ان ا ٓلائشوں سے صاف کرلیں تو طبعیت ہلکی پھلکی ہوجائے گی۔ یہ معرکہ ایسا نہیں جسے صرف اولیاءیا عابد و زاہد انسان ہی سر کرسکیں، یہ ایسی کشمکش ہے جس پر عام دنیادار انسان بھی کوشش کرکے فتح پاسکتا ہے۔ مجھے ایک بزرگ انگریز خاتون یاد آتی ہے جو پیشے کے لحاظ سے استاد تھی، ہماری اصطلاح کے مطابق وہ کوئی نیک، عبادت گزار یا روحانی شخصیت نہیں تھی لیکن وہ ایسی مطمئن اور مسرور زندگی کی زندہ تصویر تھی جسے بڑی سے بڑی ناکامی، نقصان، مخالفت یا تلخی بھی ڈسٹرب نہیں کرتی تھی، اگر کبھی اس کی پیشانی پر سلوٹیں ابھرتیں تو دوسرے لمحے غائب ہو جاتیں۔ ایک روز میں نے اس کی کیفیت کو بھانپ کر اس اطمینان، سکون اور قلبی مسرت کا راز پوچھا تو اس نے جواب دیا کہ میری اس کیفیت کا راز فقط ایک لفظ میں مضمر ہے اور وہ لفظ ہے’’معاف‘‘۔ میں ہر ایک کو معاف کردیتی ہوں چاہے وہ مجھ سے کتنی ہی زیادتی کرے، چنانچہ میرے اندر غصہ، انتقام، بغض، حسد اور نفرت کبھی پیدا نہیں ہوتے۔ اگر ان جذبات میں سے کوئی جذبہ میرے اندر سر اٹھائے تو میں اسے سختی سے کچل دیتی ہوں، چنانچہ میں پچاسی 85سال کی عمر تک ہر لمحہ خوشی سے سرفراز رہی ہوں اور زندگی کے تیزی سے گزرتے ہوئے لمحات سے خوشی کشید کرتی رہی ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ دوسروں کو معاف کردینے اور ہر قسم کے مَیل سے دل کو صاف رکھنے میں سچی خوشی کا قیمتی خزانہ پوشیدہ ہے۔

تازہ ترین