• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مُلا برادرکی افغان طالبان کے قتل کے سیاسی شعبے کے سربراہ کے طور پر تعیناتی ایک ایسی خبر ہے کہ جس سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ افغانستان میں ایک نیا منظر نامہ تشکیل دیئے جانے کی کوششیں برق رفتاری سے جاری ہیں ۔ زبانی کلامی گفتگو کو ایک طرف کرتے ہوئے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ موجودہ حکومت اس سلسلے میں کیا تیاریاں کر رہی ہے اور وہ ان حالات میں پاکستان کے مفادات کا تحفظ کرنے کی غرض سے کس حد تک صلاحیتوں کی حامل ہے۔ اس کو سمجھنے کی غرض سے حکومت کی گزشتہ پانچ ماہ کی کارکردگی اور بالخصوص حالیہ ترکی ،متحدہ عرب امارات اور قطر کے دوروں میں صلاحیت اور سنجیدگی کے عنصر کو پر کھا جا سکتا ہے ۔ جو بدقسمتی سے سرے سے موجود نہیں ۔ متحدہ عرب امارات میں ایک برادر اسلامی ملک کے صدر کے حوالے سے غیر ذمہ دارانہ گفتگو وزیر اعظم کی ناپختگی کو واضح کرتی ہے ۔ اسی طرح قطر میں بھی وہ معاملات کو حل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے بلکہ بیان کرنے والے تو یہ بھی بیان کر رہے ہیں کہ ان سے سوال کیا گیا کہ آپ ہمیں پاکستان کی عدالتوں میں کیوں بلا نا چاہتے تھے اور ہماری تحریر پر اُدھر کیوں بھروسہ نہیں کیا گیا، تیاری موجود نہیں تھی لہٰذا کوئی جواب نہ بن پڑا؟ ویسے قطر کے معاملے میں خیال رکھنا چاہیے کہ پاکستان میں اس کے موجودہ سفیر پاکستان کے حوالے سے بہت مثبت شخصیت ہیں۔ معاملات مزید بہتر ہو سکتے ہیں اگر ذمہ داری کا احساس کیا جائے ،سنجیدگی برتی جائے۔ ذمہ داری کے احساس کی بات اور سنجیدگی ملا برادر کی تعیناتی سے شروع ہوئی تھی۔ خبروں کے مطابق ملا برادر افغان طالبان کے امیر کے نائبین میں بھی شمار ہوں گے ۔ملا برادر گزشتہ اکتوبر میں پاکستان سے رہاہوئے۔ وہ آٹھ سال تک پاکستان میں زیر حراست رہے۔ ان کی تازہ تعیناتی نے اس تصور کو بھی چکنا چور کر دیا کہ افغان طالبان زیر حراست رہنے والے اپنے رہنمائوں پر اعتماد نہیں کرتے ۔ان کی رہائی کے بعد نومبر میںزلمے خلیل زاد کے دورے کے موقع پر مزید افغان طالبان رہنمائوں کی رہائی کی خبریں سامنے آتی رہیں جن کے متعلق اس سے قبل امریکی انتظامیہ صریحاً دہشتگرد ہونے کے الزامات عائد کرتی رہی تھی۔ ان حالات میں قطر میں جاری امریکہ طالبان مذاکرات میں کسی پیش رفت کا امکان بہرحال رد نہیں کیا جا سکتا اور اگر ایسا واقعہ پیش آجاتا ہے افغانستان اور اس سے متعلقہ ممالک میں اس کے اثرات ضرور غیر معمولی طور پر وقوع پذیر ہوں گے۔

امریکہ افغانستان میں جاری اپنے اخراجات سے جان چھڑانا چاہتا ہے ،وہ وہاں پر تقریباًایک ٹریلین ڈالر خرچ کر چکا ہے ۔ دوم امریکہ کی بیان کردہ پالیسی چاہے کچھ بھی ہو لیکن یہ تصور کرنا کہ وہ افغانستان میں حقیقی معنوں میں امن قائم کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے، درست نہ ہو گا۔ وہ اپنے مقاصد حاصل کرنے کے قریب پہنچ چکا ہے اور اب اپنی مزید دولت خرچ کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔امریکہ اپنی کامیابی کا اعلان اس لئے کرنا چاہتا ہے کہ یہ طے ہو جائے کہ افغانستان کی سر زمین سے کوئی اقدام اب امریکہ کے خلاف نہیں ہو گا۔ افغان طالبان کی جانب سے مذاکرات کی بنیادی شرط یہ ہے کہ امریکی افواج افغانستان سے نکل جائیں اور اب امریکہ کا مفاد بھی یہی ہے۔ وہ اسی نکتےپر مذاکرات کر رہا ہے کہ اس کی افواج کی واپسی کے وقت افغان طالبان عارضی جنگ بندی کر دیں تاکہ وہ باآسانی واپسی کا سفر اختیار کر سکے اور اس بات کی ضمانت دی جائے کہ افغانستان سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر کوئی حملہ نہیں ہوگا۔ یہ معاملہ کہ امریکہ افغان طالبان سے عارضی جنگ بندی پر مذاکرات کر رہا ہے ،بہت معنی خیز ہے۔ جیسے سابقہ سوویت یونین جنیوا معاہدے کے تحت اپنی ساری فوجی طاقت کو بحفاظت واپس لے جانے میں کامیاب ہو گیا تھا مگر اس کے بعد افغانستان میں کوئی محفوظ نہ رہا ، بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر افغان طالبان سے کوئی معاہدہ ہو جاتا ہے ، اگر یہ معاہدہ صرف افغان طالبان اور امریکہ کے مفادات کی حد تک رہا تو افغانستان میں نئی خانہ جنگی یقینی ہے ۔ پہلے بھی متعدد مرتبہ عرض کیا تھا کہ داعش کو ایک منصوبہ بندی کے تحت افغانستان میں مربوط کیا جارہا ہے تاکہ بعد میں افغان طالبان کو اور دیگر کو سبق سکھایا جا سکے ۔ ان مذاکرات سے بھارت کو باہر رکھا گیا ہے لیکن یہ حقیقت ناقابل تردید ہے کہ بھارت افغانستان میں اپنے قدم جما چکا ہے۔ پاکستان میں افغانستان کی سرزمین سے ہونے والی دہشت گردی کے پیچھے بھی بھارت کا ہی ذہن اور وسائل کار فرما ہیں ۔ بھارت یقیناً امریکہ کو تو نقصان نہیں پہنچا سکتا اور نہ ہی پہنچانا چاہے گا مگر وہ پاکستان کے لیے تکلیف دہ حالات کو افغانستان سے جاری رکھنا چاہے گا۔ اس لئے ضروری ہے کہ بھارت کو لگام دینے کا بھی کوئی معاہدہ ان تمام امور کے حل کے ہمراہ ہو اورپاکستان کو بھی اپنا اثرورسوخ اس وقت تک استعمال نہیں کرنا چاہیے، جب تک اسے اپنے مفادات کے تحفظ کی ضمانت میسر نہ ہو لیکن یہ ضمانت کون دے گا؟ جتنی غیر ذمہ داری کے ساتھ حکومتی معاملات چلائے جارہے ہیں اس کے بعد افغانستان کے حوالے سے کسی ذمہ دار رویے کی توقع عبث ہے تاہم اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ اگر پاکستان کی موجودہ سیاسی حکومت اس قابل نہیں تو صرف بیٹھ کر منہ دیکھا جائے کیونکہ یہ ناکامی ملک اور ریاست کی ناکامی تصور ہو گی۔ اس لیے ریاستی اداروں کی ذمہ داری زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ وہ تمام معاملات کو ذہن میں رکھتے ہوئے فریقین کے درمیان کوئی ایسا معاہدہ کروانے میں کامیاب ہو جائیں جو قابل عمل ہو۔

تازہ ترین