• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میاں نواز شریف کہتے ہیں : انتخابات میں ایک لمحہ تاخیر برداشت نہیں کریں گے۔ حکمرانوں کا ایک ایک دن کسی عذاب سے کم نہیں۔
میاں صاحب کہتے ہیں تو ٹھیک ہی کہتے ہوں گے، یہ تو ملک کا ہر ذی روح چاہتا ہے کہ انتخابات میں تاخیر نہ ہو ، لیکن کیا کیا جائے کہ اگر شیخ الاسلام نے ایک اجتماع اور کر دیا تو تاخیر بھی ہو سکتی ہے، کیونکہ کچھ تو باعث ِ تاخیر بھی ہونا چاہئے۔ جمہوریت بڑی مشکل سے ہاتھ آئی ہے، اب صرف برے حالات کے باعث اسے ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ انشاء اللہ قوم اچھے لوگ برسر اقتدار لائے گی تو ضرور افاقہ ہو گا، اور یہ کرپشن وغیرہ بھی ختم ہو جائے گی لیکن جمہوری سسٹم ختم نہیں ہونا چاہئے۔ اگر یہ نہ رہا تو پھر یہ ڈیوٹی بھی کسی اور کو کرنا ہو گی اور وہ جو کوئی اور ہے وہ دودو ڈیوٹیاں کیسے کرے گا۔ لوگوں کو اپنے حواسِ خمسہ مجتمع کر لینے چاہئیں تاکہ وہ پھر سے کوئی غلط سلط فیصلہ نہ کر بیٹھیں ۔ حاضر سڑک میں جو بھی کم اچھا ہو اسے بھی موقع دینے میں حرج نہیں کیونکہ پاکی ٴ داماں کی حکایت بڑی طویل ہے، اور فیصلہ پھر بھی قوم کو صحیح کرنا ہے۔ زیادہ سے زیادہ لوگ ووٹ ڈالنے کے لئے گھروں سے باہر نکلیں اور میاں صاحب وڈے کی یہ بات پلے باندھ لیں کہ انتخابات میں ایک لمحہ کی تاخیر برداشت نہیں کریں گے۔
#####
وفاقی وزیر تجارت امین فہیم کہتے ہیں : بھارت سمیت تمام پڑوسی ممالک اور دنیا سے تجارت چاہتے ہیں۔
یہی ہو سکتا ہے وزیر تجارت اپنے مربعے بیچنے کا کاروبار شروع کر دیں اور تو یہاں کسی ملک کے ہاتھ بیچنے کو کچھ بھی نہیں رہا۔ کارخانے بند اور ساتھ ہی محکمہ بہبود آبادی بھی کھلا ہونے کے باوجود بند ہے، اس لئے کھانے والے بہت اور کمانے والا کوئی نہیں، اخلاقیات سے لے کر مصنوعات تک ہر چیز کا بحران ہے بلکہ فقدان ہے، یہ ملک ہے یا کسی کنگلے نواب کا پاندان ہے بس جان جہاں ایک تنہائی ہے جہاں یہ عالم ہو کہ بابائے قوم کے جانے کے بعد
ویراں ہے میکدہ خم و ساغر اداس ہے
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے
وزیر تجارت کا چھابا خالی ہے اور آواز لگائے جا رہے ہیں
بولو جی تم کیا کیا خریدو گے
البتہ دوسروں کا مال یہاں منگوا کر انہیں فائدہ پہنچا کر اپنا نقصان کرانے کے امکانات روشن ہیں۔ بھارت سے تجارت کا سودا تو پہلے ہی اربوں ڈالرز کے حساب سے چکھ چکے ہیں، اب مزید کتنا چوپنا ہے۔ فرماتے ہیں پوری دنیا سے تجارت کرنی ہے، اس سے اچھی تو کہہ مکرنی ہے۔ ویسے وزیر تجارت کتنے زیرک ہیں، ان کو سو فیصد معلوم ہے کہ آئندہ انتخابات ان کی پارٹی جیتے گی وہ پھر سے وزیر تجارت ہوں گے اور یہی بیان جو آج دیا ہے پچھلی تاریخوں کی اتباع میں جاری کر دیں گے۔ اگرچہ ملک میں تب پانی نہ ہو گا لیکن بجلی کے دریا بہا دیں گے، پھر کارخانے چلیں گے اور چیزیں بنیں گی تو برآمدات بڑھیں گی اور خوب تجارت ہو گی۔
#####
آسٹریلیا میں ایک انجینئر نے اڑنے والی بائیک ایجاد کر لی ہے۔
اس انجینئر نے تو گویا ہم پر بڑا احسان کر دیا کیونکہ ہمارے ہاں بائیکس حشرات الارض کی طرح غول در غول سڑکوں پر تارکول کی طرح بچھی نظر آتی ہیں، کہنے کا مقصد یہ ہے کہ سڑک نظر نہیں آتی بائیکس ہی بائیکس دکھائی دیتی ہیں۔ لوگ بھی کیا کریں کہ ٹرانسپورٹ کا کوئی مربوط نظام ہی نہیں، شہر اتنا پھیل گیا ہے کہ اس ایک لاہور کے کتنے ہی لاہور بنائے جا سکتے ہیں، مال روڈ تک ایک لاہور اور مال روڈ کے پار دوسرا لاہور تو فی الفور بن سکتا ہے۔ ایک کو لاہور رہنے دیا جائے دوسرے کا نام لاہورن رکھا جائے اس طرح حقوق نسواں کو بھی تحفظ مل جائے گا اور ایک نیا شہر بھی وجود میں آ جائے گا۔ انتظام سنبھالنا بھی آسان ہو جائے گا اور شہباز شریف بھی اتنے تھکے تھکے سے نہیں لگیں گے دوسرے لاہور کے لئے ایک ڈی سی او ہی کافی رہے گا۔ اڑنے والی موٹر سائیکل آ گئی تو سڑکوں پر ان کا رش گھٹ جائے گا اور ہوائی حادثے تو ویسے بھی کم ہوتے ہیں، ہمارے بائیکرز نکے سے لے کر وڈے تک اتنے مشاق ہیں کہ وہ تو زمین پر بھی چلتے نہیں اڑتے ہیں، ون ویلنگ بھی ایئر ویلنگ میں تبدیل ہو جائے گی، ہر چیز کے نقصانات و فوائد تو ہوا کرتے ہیں لیکن اس ایئر بائیکنگ کے فوائد زیادہ ہیں ، البتہ یہ ہے کہ زمین پر دو بائیکوں کا حادثہ ہو جائے تو "There you are" اور ہوا میں ہو جائے تو "Where you are"
#####
بالی وڈ کی اداکارہ دیپکا نے کہا ہے : شاہ رخ کواپنے دل کے قریب سمجھتی ہوں۔
لیجئے ایک اور بت ِکافر نے میزبانِ بتانِ ہند شاہ رخ کا رخ کر لیا، ایک تو انہوں نے گھر میں سجا لیا دوسرا دل میں بسا لیں کہ حسین مہمان کا بھی یہی مطالبہ ہے، اسد اللہ خان غالب نے اسی لئے تو فرمایا تھا
اک بت کا بنانا ہے بت خانہ بنا دینا
شاہ رخ اور ماہ رخ کا بڑا جوڑ ہے، اسی لئے بالی وڈ کی فلموں میں ایسی جوڑی ہٹ ہو جاتی ہے۔ بھارتی فلم انڈسٹری کو حکمران اور دھنوان دونوں کھل کر سپورٹ کرتے ہیں، ہمارے ہاں فلمیں صرف امپورٹ کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ خوبصورت پاکستانی کلچر کے سیمیں بدن پر ماتا کے دانے نکل آئے ہیں۔ یہاں قدم قدم پر کہانی دفن ہے، لیکن کوئی کیا لکھے کہ سٹوڈیوز فارم ہاؤس اور سنیما گھر شادی گھر بنتے جا رہے ہیں، پاکستان فلم انڈسٹری میں کوئی سرمایہ کاری نہیں کرتا، یہاں کے اداکار بھارت میں جا کر عالمی شہرت پا لیتے ہیں اور اپنے ملک میں انہیں کوسنے دیئے جاتے ہیں۔ کوئی ایسی فعال فلم اکیڈمی نہیں کہ جہاں سنیما ٹو گرافی کی تعلیم دی جائے اور صاف ستھری اپنی تہذیب اور تمدن کے رنگ میں رنگی فلمیں پردئہ سیمیں پر نظر آئیں۔ ہماری فلمی دنیا کا ماضی سنہرا حال بے بہرہ اور مستقبل کا اتہ پتہ نہیں۔ اب ایک اڑتی سی خبر ہے کہ پرویز رانا، سید نور، مسعود بٹ اور حسن عسکری 2013 میں نئی فلموں کا آغاز کریں گے۔ ان دنوں حالات اگرچہ سازگار نہیں اس لئے دوسرے کئی شعبوں کی طرح فلم کا خانہ بھی خالی ہے اور خالی گھر کے بارے کہتے ہیں کہ اس میں دیو ڈیرہ جما لیتے ہیں۔
#####
تازہ ترین