• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لفظ ”صوفی“ میں نے پہلی مرتبہ سات سال کی عمر میں سنا تھا جب میں ”صوفی جنرل سٹور“ سے ٹافیاں خریدا کرتا تھا ۔ان دنوں ایک روپے میں چار ٹافیاں مل جاتیں تھی اور ہر ٹافی کا جثّہ اتنا ضرور ہوتا تھا کہ منہ میں گھلنے کے بعد بھی تا دیر اس کا نشہ قائم رہتا ۔اس ”صوفیانہ نشے“ کا سب سے بڑا گاہک چونکہ میں تھا لہٰذامیری huge buyingکے نتیجے میں وہ جنرل سٹور چند سال میں ہی سپر سٹور بن گیا ، مطلب یہ کہ ایک تھڑے سے دکان میں تبدیل ہو گیا۔ جینوئین صوفیوں سے میری شناسائی آٹھویں جماعت کی معاشرتی علوم کی کتاب سے ہوئی جن کی بدولت برصغیرمیں اسلام پھیلا ۔عین ممکن تھا کہ اپنی selective studyکی تکنیک کی بدولت میں صوفیائے کرام والا باب گول کر جاتا مگر مصیبت یہ تھی پچھلے پانچ سال سے مسلسل اس پر سوال آ رہے تھے لہٰذا میں نے وہ باب یوں رٹ لیا جیسے ہمارے ہاں چند دانشوروں نے ایک آدھ انقلاب ،پانی پت کی جنگ اور مغلوں کا عروج و زوال رٹا ہوا ہے۔ شومئی قسمت، اس سال ممتحن نے وہ باب گول کردیا ۔
اب وقت بدل چکا ہے ،اب دنیا میں اس طرح کے صوفی بچے ہیں اور نہ ہی دنیا کو خالص صوفیوں کی ضرورت ہے ۔آج کل ہمیں صرف وہ صوفی سوٹ کرتے ہیں جو اپنے چہرے پر مصنوعی رقت طاری کر کے آنے والے حالات کی پیش گوئی کردیں ،ہمیں اپنے مسائل کے حل کے لئے کوئی وظیفہ بتا دیں یا پھر ہر تین ماہ بعد ایک عذاب کی وعید سنا کر لوگوں کے نیندیں حرام کر دیں ۔صوفیوں کے یہ تینوں ماڈل بازار میں دستیاب ہیں اور دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں ۔پہلے ماڈل کا صوفی آج کل کے ماڈرن ذہن، جو اپنے آپ کو مولوی کے روایتی حلیے میں دیکھنا پسند نہیں کرتا، کو بہت بھاتا ہے۔اس فیشن زدہ کلاس کو جینوئن صوفیائے کرام تو وارے میں ہی نہیں کیونکہ وہ تو شریعت اور صوم و صلوٰة کے پابند تھے، یہ بیچارے روزہ رکھیں تو انہیں nauseaہو جاتا ہے ۔ انہوں نے اپنے آپ کو ”حقیقی“ معنوں میں خدا کے قریب کر نا ہے لیکن مذہب کا کوئی نیا ورژن ایجاد کر کے ۔انہیں روحانیت کی بھی تلاش ہے اور چرس کی بھی ۔انہیں اپنے ضمیر کی خلش بھی مٹانی ہے اور نیوایئر ڈانس پارٹیز میں بھی جانا ہے۔ انہوں نے اپنی فیکٹری کے ملازمین کااستحصال بھی کرنا ہے اور مہینے میں ایک دن اپنی روح کی بالیدگی کے لئے بھی مختص کرنا چاہتے ہیں ۔انہیں اپنی پوسٹنگ بھی عزیز ہے اور تصوف سے بھی شغف ہے ۔ انہیں کوئی ایسا صوفی چاہئے جو گاہے بگاہے انہیں یہ کہہ کر تسلی دیتا رہے کہ جو کچھ تم کرتے ہو، اس سے خدا کو کوئی سروکار نہیں بشرطیکہ تم اپنے دل میں اس کی محبت پیدا کر لو ۔مذہب کی اس تشریح کا کچھ بھی مطلب نکالا جا سکتا ہے !
ایسے شارٹ کٹ صوفیوں کی مارکیٹ میں بہت ڈیمانڈ ہے اور ان کے مریدین کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ ان صوفیوں کی وضع قطع اور لباس جدید ہوتا ہے اور یہ اپنے مریدوں کو خلاف شریعت کام سے اس طرح نہیں روکتے جیسے روکے جانے کا حق ہے لہٰذا ماڈرن ذہن کے لوگ ان کی مجلس میں اپنے آپ کو بہت پر سکون محسوس کرتے ہیں۔ جرنیلوں سے لے کر اداکاراؤں تک ،کاروباری سیٹھ سے لے کر چرس یافتہ نوجوانوں تک اور سیاستدانوں سے لے کر صحافیوں تک،ہر قسم کا بندہ ان کے حلقہ مریدین میں شامل ہے ۔لگتا ہے اداکار ہ نرگس بھی ایسے ہی کسی صوفی سے متاثر ہوئی ہیں۔یہ شارٹ کٹ صوفی صرف جدید ذہنوں کو ہی متاثر نہیں کرتے بلکہ ان کے فرائض میں گاہے بگاہے ملکی سیاست و حالات کے بارے میں پیش گوئیاں کرنا بھی شامل ہوتا ہے لیکن یہ تمام پیش گوئیاں اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں او ر حکمت عملی کے عین مطابق جاری کی جاتی ہیں۔ جن صاحب یا صاحبہ کو اس بیان میں شبہ ہو وہ اسٹیبلشمنٹ کے ان صوفیوں کی پچھلے پانچ سال کی ایسی تمام پیش گوئیاں نکال کر پڑھ لے جو مختلف کالموں میں شائع ہوتی رہی ہیں ،ہاضمہ درست ہو جائے گا۔
صوفیوں کا دوسرا ماڈل وہ ہے جو اپنے تئیں پردے میں رہتے ہیں ،خود نمائی کا شوق نہیں البتہ تمام باطنی حالات کا بخوبی علم ہے ۔ان کے ذمے عذا ب کی خبر دینے کا فریضہ ہے ۔جب بھی ملک میں سیلاب یا زلزلہ آتا ہے ،ان کے پیروکار خم ٹھونک کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور دہائی دینا شروع کر دیتے ہیں کہ اگر قوم اب بھی نہ سنبھلی اور گناہوں سے توبہ نہ کی تو آئندہ آنے والے سیلاب یا زلزلے میں کوئی بھی نہیں بچے گا (ماسوائے خود صوفی صاحب کے)۔ ان صوفیوں کو فوری طور پر محکمہ موسمیات میں بھاری مشاہرے پر بطور کنسلٹنٹ تعینات کر دینا چاہئے لیکن مجھے یقین ہے کہ مال و زر سے بے نیاز یہ صوفی ایسی کسی نوکری کو جوتے کی نوک پر رکھیں گے ۔ان صوفیوں کا تھیسس یہ ہے کہ جب تک پوری قوم ایک ساتھ اپنے گناہوں کی معافی نہیں مانگے گی تب تک عذاب کی تلوار ہمارے سروں پر لٹکتی رہے گی ۔نہ جانے ان کا اشارہ کس معافی کی طرف ہے کیونکہ اجتماعی استغفار کا یہ عمل رائے ونڈ کے تبلیغی اجتماع سے لے کر حج اور عمرے کے مقدس فریضے تک اور رمضان سے لے کر ربیع الاوّل کے بابرکت مہینے تک، سال میں کئی مرتبہ دہرایا جاتا ہے ۔یہی نہیں بلکہ قران میں خود اللہ نے کئی جگہ فرمایا ہے کہ جب بھی وہ کسی بستی پر عذاب ناز ل کرتا ہے، اس سے پہلے نیک لوگوں کو وہاں سے نکال لے جاتا ہے (مفہوم)۔یہ عجیب و غریب صوفی ہیں جو آئے دن اٹھارہ کروڑ لوگوں کو عذاب کی بریکنگ نیوز دیتے رہتے ہیں جبکہ کروڑ وں عوام تو پہلے ہی اس ملک میں عذاب سہہ رہے ہیں جن پر اصل عذاب آنا چاہئے وہ ان صوفیوں کے مریدوں میں شامل ہیں ۔
تیسرا ماڈل ”صوفی ٹی وی“ کا ہے ۔یہ عجیب ہی مخلوق ہے ۔ہاتھ میں ٹیبلٹ پی سی ہوتا ہے جس کی مدد سے ناظرین کے مسائل کا حل آن لائن بتاتے ہیں ۔علم نجوم، ستارہ شناسی، فلکیات،علم الاعدادغرض تمام علوم کی ایک کاک ٹیل سی بنا کر پیش کر دیتے ہیں کیونکہ ضرورت مند دیوانہ ہوتا ہے، کہیں تو گرے گا۔ یہی نہیں بلکہ آخر میں 17یا 29مرتبہ کوئی سورت بھی پڑھنے کے لئے بتا دیتے ہیں تاکہ لوگوں کو تسلی رہے کہ وہ کوئی غیر اسلامی کام نہیں کر رہے ۔
ذاتی طور پر مجھے وہ صوفی پسند ہے جو لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرے اور فی زمانہ یہ کام صرف سائنٹفک صوفی کرتے ہیں۔یہ وہ صوفی ہیں جو عذاب کی پیش گوئی کرنے کی بجائے یہ بتاتے ہیں کہ اگلے ساٹھ برسوں میں ہمارے دماغ میں ڈیجیٹل ڈیٹا ”زپ“ کر دیا جائے گا ،بیس برس بعد خود کار موٹریں مارکیٹ میں عام ہو جائیں گی،فرش کے لئے ایسے قالین وجود میں آ جائیں گے جو چوروں کو پہچان لیا کریں گے ،گھر کا اپنا تھرموسٹیٹ ہوگا جو آپ کی پسند کے مطابق ہر کمرے کا درجہ حرارت متعین کرے گا (دبئی کے بعض مہنگے ترین اپارٹمنٹس میں یہ سہولیات ابھی سے موجود ہیں ) ،پوری دنیا کی 13کروڑ کتابیں digitizedکر دی جائیں گی جس کے بعدانسانیت کی یہ لائبریری ایک ہارڈ ڈسک میں سما سکے گی۔ انسان کسی بھی زبان میں گفتگو کر سکے گا۔اور ان سائنٹفک صوفیوں کی بدولت وہ دن بھی دور نہیں جب غذا کی کمی مسئلہ بھی حل ہو جائے گا ،پوری دنیا کی خوراک ایک امریکی ریاست کے آدھے رقبے سے بھی کم علاقے پر پیدا کی جا سکے گی ۔مجھے تو صوفی کا یہ جدید ترین 2013ء کا ماڈل پسند ہے ۔
تازہ ترین