• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہماری سروسز خراب نہیں، حکومتی اداروں سے عوام کا اعتماد اُٹھ گیا ہے، پوسٹ ماسٹر جنرل، پشاور، ظہیر اللہ خٹک سے بات چیت

جنگ پینل : ارشد عزیز ملک ،سلطان صدیقی،پشاور

عکّاسی: فرمان اللہ جان

 ظہیر اللہ خٹک کا تعلق پشاورکےایک بارانی ضلعے ،کرک کی تحصیل، تخت نصرتی کے گائوں ’’ورانہ‘‘ سے ہے۔ انہوںنے1997ء میں پشاوریونیورسٹی سے پبلک ریلیشن میں ماسٹرزکیا۔چھے سال تک فیڈرل انویسٹی گیشن ایجینسی (ایف آئی اے )کے کائونٹر ٹیر راِزم سرکل میں بہ حیثیت فیلڈ اِن چارج، پشاور یونٹ ذمّے داریاں ادا کیں۔یہ اُن کی محنت،لگن اور اعلیٰ کارکردگی ہی کا نتیجہ تھا کہ اُنہیں صدارتی پولیس میڈل سے نوازا گیا،ظہیر اللہ خٹک، ایف آئی اے کی تاریخ میں یہ ایوارڈ حاصل کرنے والے، پہلے اور کم عُمر ترین افسر ہیں۔وہ صوبۂ پنجاب، ایبٹ آباد اور وفاقی دار الحکومت اسلام آباد میںبھی مختلف عُہدوں پر تعینات رہے۔انہوںنے2009ء میں پوسٹل گروپ میں شمولیت اختیار کی۔ظہیر اللہ خٹک پوسٹل اسٹاف کالج کے جوائنٹ ڈائریکٹر بھی رہے ۔ تقریباً تین ماہ قبل ان کی تعیناتی بہ حیثیت پوسٹ ماسٹر جنرل، پشاور ہوئی ہے۔ گزشتہ دنوں انہوں نےروزنامہ جنگ، پشاورکے دفترکا دَورہ کیا ، اس موقعے پر اُن سے ہونے والی بات چیت نذرِ قارئین ہے۔

ہماری سروسز خراب نہیں، حکومتی اداروں سے عوام کا اعتماد اُٹھ گیا ہے، پوسٹ ماسٹر جنرل، پشاور، ظہیر اللہ خٹک سے بات چیت
جنگ پینل سے گفتگو کرتے ہوئے

س: پاکستان پوسٹ کےسیٹ اَپ کے حوالے سےکچھ بتائیے۔

ج : پوسٹ ماسٹر جنرل کی ذمّے داری پورے صوبے پر محیط ہے، اسے کے پی سرکل کہا جاتا ہے۔ اب سابق فاٹا کے خیبر پختو نخوا میں انضمام کے باعث سات ایجینسیاں اور چھے ایف آرز کے علاقے بھی اسی سرکل میں شامل ہوگئے ہیں۔ یعنی ہمارا سرکل 35 ملین سے زائد آبادی پر مشتمل ہے۔اس سرکل یا صوبے میں مجموعی طورپر 1993 پوسٹ آفس ہیں، جن میں 11جی پی او ز،1 ٹریننگ سینٹر اور باقی پوسٹل یونٹس ہیں۔ ان میں5240 ملازمین کام کرتے ہیں، جن میں سے 3723 ریگولر اور1570 پارٹ ٹائم ملازمین ہیں۔ یعنی 17812 افراد کی آبادی کے لیے صرف ایک فرد ہے۔یہ محکمہ، پوسٹ آفس ایکٹ 1898ء کے تحت قائم کیا گیا تھا ، قیامِ پاکستان کے وقت بھی یہی برٹش پوسٹل سسٹم چل رہا تھا، بعدازاں پوسٹ آفس نے پوسٹ ، ٹیلی گراف اینڈ ٹیلی فون ( پی ٹی اینڈ ٹی ) ڈیپارٹمنٹ کی حیثیت سے وزارت ِمواصلات کے تحت کام شروع کیا۔1962ءمیں پوسٹ اور ٹی اینڈ ٹی کے محکمے الگ کر دیئے گئے۔ 1992-96ء تک یہ محکمہ ایک کارپوریشن کی حیثیت سے کام کرتاتھا۔ پاکستان پوسٹل سروسز مینجمنٹ بورڈ(پی پی ایس ایم بی) کا قیام 2002ء کے آرڈیننس کےتحت عمل میںآیا،پوسٹل سروسز کی الگ وزارت 3 نومبر 2008ء کو قائم ہوئی،جو7 جون 2013ء کو ختم اور 4 اگست 2017ء کو پھر قائم کر دی گئی۔پاکستان پوسٹ، یونیورسل پوسٹل یونین (یوپی یو)کا رُکن بھی ہے۔ یو پی یو 1874 میں قائم ہوا، اس کا ہیڈ کوارٹر سوئیٹزر لینڈ میں ہے ،دنیا کے 192 ممالک اس کے رکن ہیں۔ یہ ادارہ، عالمی سطح پر میل ، پارسل اور فنانشل سروسزکے لیے قواعد و ضوابط وضع کرتا ہے، تاکہ صارفین کومعیاری سروسزفراہم کی جاسکیںاور پاکستان پوسٹ ،یو پی یو کے معیار پر پورا اُترنےاور اپنے صارفین کو بہتر سروسز فراہم کرنے کی بھر پور کوشش کر رہا ہے۔

س:پاکستان پوسٹ عوام کو کیا سروسز فراہم کررہا ہے ؟

ج: اکستان پوسٹ ،عوام کو پوسٹل سروسز، ایجینسیزسروسز اور بین الاقوامی پوسٹل سروسز فراہم کررہاہے۔ جہاں تک پوسٹل سروسز کا تعلق ہے ، تو ان میں روایتی پوسٹل سروسز،ایکسپریس میل سروسز ، منی ٹرانسفر سروسزشامل ہیں۔ روایتی سروسز میں لفافے، ایروگرامز ، پوسٹ کارڈ ز، پرنٹڈ پیپرز ،ٹکٹس ،باکسز ، چھوٹے پیکٹس، رجسٹریشن آف پوسٹ آرٹیکلز، انشورنس آف پوسٹ آرٹیکلز، لیٹریچر برائے نابینا افراد، ویلیو پے ایبل لیٹرز،پارسلز وغیرہ ،ایکسپریس میل سروسزمیں ارجنٹ میل سروس( یوایم ایس) کیش آن ڈیلیوری، ، فیکس میل سروس ، منی ٹرانسفر سروسزمیں عام منی آرڈر ، فیکس منی آرڈر ، ارجنٹ منی آرڈر ، الیکٹرانک منی آرڈر ، پوسٹل آرڈر ، پوسٹل ڈرافٹ ، اور ویسٹرن یونین منی ٹرانسفر شامل ہیں۔ایجینسی سروسز میں سیونگ بینک ، پینشن کی تقسیم و ترسیل ،غریبوں کے لیےفنڈز کی وصولی و تقسیم ، پوسٹل لائف انشورنس ، یوٹیلٹی بلز ، صوبائی و وفاقی ٹیکسوں کی وصولی ،ا سٹیمپس اینڈ اسٹیشنری وغیرہ کی چھپائی و فروخت ، سیونگ بینک میں سیونگ اکائونٹس ، خصوصی سیونگ اکائونٹس ، ڈیفینس سیونگ سرٹیفکیٹس اورریگولر انکم سرٹیفکیٹس شامل ہیں ۔ پینشن کے سلسلے میںافواجِ پاکستان، ایف سی ، پی ٹی سی ایل، سی ڈی اے اور پوسٹل پینشن کی تقسیم بھی پاکستان پوسٹ ہی کے ذریعےہوتی ہے ۔صوبائی ٹیکسوں کی وصولی میں اسلحے اور ڈرائیونگ لائسنس کی تجدید، فیڈرل ٹیکسوں کی وصولی، ایکسائز ڈیوٹی ، وِدہولڈنگ ٹیکس ، پرائیویٹ موٹر کار زپر انکم ٹیکس ، کسٹم ڈیوٹی،زکوٰۃ کی وصولی و تقسیم ،بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور چائلڈ سپورٹ پروگرام شامل ہیں۔پھر ٹیلی فون ، بجلی ، گیس وغیرہ کے بلوں کی وصولی اور پوسٹل لائف انشورنس کی سروس ہے ۔یاد رہے پوسٹل لائف انشورنس برِصغیر پاک وہند کی سب سے پرانی لائف انشورنس اسکیم ہے۔

ماضی میں شناختی کارڈ بھی ڈاک خانے ہی میں بنتےتھے،بلکہ اب بھی کئی جگہوں پر جہاں نادرا کی براہِ راست رسائی نہیں، وہاں نادراکا اسٹاف ڈاک خانے ہی میں بیٹھ کر آن لائن کام کر تا ہے ۔بیرونِ ملک سے آنے والے سامان پرکسٹم ڈیوٹی کی وصولی بھی پاکستان پوسٹ کررہاہے ۔ تقریباً 8 لاکھ طالبات کو اسٹائپنڈ منی آرڈر کے ذریعے اسکالر شپ کی ترسیل بھی ہم ہی کرتے ہیں۔جہاں تک بین الاقوامی پوسٹل سروسزکا تعلق ہے، سوائے اسرائیل کے،یوپی یوکے تمام رکن ممالک کو آنے،جانےوالے لیٹرز اورپارسل میل سروس، سرفیس ائیر لفٹیڈ(ایس اے ایل) میل سروس اور 29 ممالک (جن میںہم سایہ ممالک افغانستان ، چین ایران اور انڈیا شامل ہیں)کے لیےسرفیس میل سروس اور 104 سمندر پار ممالک کے لیےایکسپریس میل سروس ہم ہی فراہم کر رہے ہیں۔

س: پاکستان پوسٹ کا بجٹ کتنا ہے، کیا یہ ادارہ خسارے میں جا رہا ہے اور کیوں؟

ج:پاکستان پوسٹ کا ،کُل بجٹ14 ارب روپےکا ہے،جس میں سے10 ارب روپےخسارےمیںجارہے ہیں۔ سال 2000ء میں نجی کارگو اور کورئیر کمپنیوں کے قیام کے بعدسے زیادہ ترکاروبار ان کے پاس چلا گیا ،اُن کی مارکیٹنگ اچھی ہے، وہ دُکان، اسکول، گھر، دفتر وغیرہ میں جا کر پارسلزوصول کرتے ہیں۔ وہ ادارے کاروبار کرنا جانتے ہیں، اُن کے ہاں فیصلہ سازی کاعمل آسان ہے اورزیادہ تر کاروبارشہری علاقوں میں ہوتا ہے،جب کہ ہمارے ہاں فیصلہ سازی کاعمل مرکز کے تحت(سینٹرلائزڈ) ہوتاہے ۔پاکستان پوسٹ کا 85 فی صد سیٹ اَپ دیہی علاقوں پر مشتمل ہے ۔جب کاروبارنجی اِداروں کے پاس گیا، تو اس کے اثرات سرکاری ادارے پرتو پڑنے ہی تھے۔ دوسری اَہم بات یہ ہےکہ پاکستان پوسٹ اور پاکستان ریلوے ، اپنے ریٹائرڈ ملازمین کو پینشن اپنے بجٹ سے دیتے ہیں، باقی تمام محکموں کو سالانہ بجٹ کےساتھ ، حکومت کی جانب سےپینشن کے لیے علیحدہ فنڈز دیئےجاتے ہیں ۔یعنی جب حکومت تنخواہوں اور پینشز میں اضافے کا اعلان کرتی ہے، تو ہمارے ادارے کومختص بجٹ ہی سے یہ پینشن دینی پڑتی ہے، یعنی جوبھی منافع ہوتا ہے، وہ پینشنز کی نذر ہوجاتا ہے، اِس وقت پاکستان پوسٹ پر صرف پینشنزہی کا بوجھ 7ارب روپے سے زیادہ ہے۔ ریونیو میں اضافہ ہونے کے باوجود خسارہ بڑھنے کی ایک بڑی وجہ پینشن میں اضافہ اور اپنے پلّے سے اَدائی ہے۔

س:جب آپ لوگ اتنی سروسز دے رہے ہیں، تو پھر لوگ نجی کوریئرکمپنیوں کی طرف کیوں جارہے ہیں ؟

ج:اِس میں بنیادی مسئلہ اعتماد کا ہے ۔ ویسے بھی آج کل عوام کا حکومتی اداروں سے اعتماد تقریباً اُٹھ ہی گیاہے ، اس ضمن میں سرکاری اسپتالوں کی مثال آپ کے سامنے ہے، اِن میں اچھے ڈاکٹرز ہیں، مگر لوگ پرائیویٹ اسپتالوں کا رُخ کرتے یا سرکاری اسپتال کے معالجین کے نجی کلینکس میں جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہی حال پاکستان پوسٹ اورنجی کارگو کمپنیوں کا بھی ہے ۔ یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ کئی نجی کارگو کمپنیوں کے پاس زیادہ سہولتیں نہیں ہوتیں، وہ لوگوں سے لیٹرز ، پارسلز جمع کرکے ہمارے ذریعے پارسل کرتی ہیں، جس پر اُن کا خرچہ بھی انتہائی کم آتا ہے۔ وہ سو پارسلزکا ایک پیکٹ بنا کر پاکستان پوسٹ کے حوالے کردیتے ہیں، اس طرح اُنہیں ایک سو کے بہ جائے ایک پارسل کے پیسے ادا کرنے پڑتے ہیں۔ دوسرے شہر میں اُن کانمائندہ پارسل وصول کر کے ، اُن مختلف پارسلزکو منزلِ مقصود تک پہنچا دیتا ہے۔ یہ کمپنیاں ہمارے مقابلے میں ارجنٹ میل یا ایکسپریس میل کے زیادہ پیسے وصول کرتی ہیں، مگر عوام کا رجحان انہی کی جانب زیادہ ہے۔

س: لوگوں کا اعتماد بحال کرنے کے لیےکیا اقدامات کیے جا رہے ہیں؟

ج:اس حوالے سے کام جا ری ہے، مختلف اصلاحات کر رہے ہیں۔ ہم چاہتے کہ وی پی، پارسل،پیکٹس اورمیل ڈیلیوری وقت پر ہو،اس حوالے سے کڑی نگرانی اور پوسٹ مین کو بھی مانیٹر کررہے ہیں۔ فیلڈ سُپروائیزرز، فیلڈ میں ڈیلیوری ورک چیک کرتے ہیں، اب UAN نمبرز ، کال سینٹرز قائم کر دئیے گئے ہیں،ٹریک اینڈ ٹریس ، ارجنٹ میل سسٹم ،رجسٹرڈ میل کو ڈیلیوری ہونے تک دیکھا جاتا ہےاور شکایات درج کروانے کا باقاعدہ آن لائن نظام موجود ہے۔توقع ہے کہ اِن اقدامات سے لوگوں کااعتماد بحال ہوجائےگا ۔

س :دیکھا گیا ہے کہ ملازمین کارویّہ ،صارفین کے ساتھ نامناسب ہوتاہے۔

ج:یہ بات یقیناً کسی حد تک ضرور درست اور ادارے کا ایک کمزور پہلو ہے۔ تاہم اب ملازمین کی تربیت پر بھی توجّہ دی جا رہی ہے۔ کسمٹر کیئر کا نیا ایکشن پلان ترتیب دیا گیا ہے۔ شکایات پر فوری ایکشن لیا جاتاہے، مرکزی جی پی او میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے گئے ہیں۔ جب سے ہم نے کڑی نگرانی و تصدیق کا سلسلہ شروع کیا ہے، تو ڈاکیوں نے فیلڈ میں اور دیگرا سٹاف نے دفاترمیں صحیح کام شروع کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب زیادہ شکایات بھی نہیں آتیں اور جب آتی ہیں، تو ان پر فوری کارروائی کی جاتی ہے۔

س:اب تو دنیا موبائل فون اور سوشل میڈیا میں سماگئی ہے، خط و کتابت کا دَور ہی نہیں رہا،کیا اس سے بھی پوسٹل سسٹم پر اثر پڑا؟

ج:یہ بات درست ہے کہ انٹرنیٹ روابط کا بڑا ذریعہ بن گیا ہے، خصوصاً خط وغیرہ بھیجنے کا نظام تو تقریباً ختم ہی ہوگیا ہے،لیکن آفیشل اورکار سپانڈینس میں اضافہ ہوا ہے۔ مارکیٹ میں کاروبارکی کمی نہیں ہے، بس اُس تک رسائی ہونی چاہیے۔ آج بھی حکومتی لیٹرز صرف پاکستان پوسٹ سے جاتے ہیں،علاوہ ازیں، مختلف محکموں ، جامعات ، کسٹم ڈیپارٹمنٹز وغیرہ سے بھی ہماری بات چیت چل رہی ہے۔

س: میل ڈیلیوری سسٹم کی مزید بہتری کے لیے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں ؟

ج: ہمارے سرکل میں اسٹیٹ میل ایکسپریس کی 5 گاڑیاں اورمیل موٹرگاڑیاں 23 ہیں ۔ اس کے علاوہ ایئر لائنز اور دیگر گاڑیوں کے ذریعے بھی میل ترسیل کی جاتی ہے ۔پشاور جی پی او سے منسلک 40 مو ٹر سائیکلیں فیلڈ میں چلتی ہیں۔ ہم نے شہرمیں مزید میل باکس بھی سپلائی کیےہیں اور ڈیلیوری میں بھی کافی بہتری آئی ہے ۔پہلےسوات میں میل تاخیر سے یعنی کبھی ایک دن بعد بھی پہنچتی تھی،مگر اب ہم نے وہاں بھی مقررہ تاریخ پر ترسیل یقینی بنا دی ہے ۔گزشتہ برس دسمبرکے دوران ہم نےدونئی سروسز ’’سیم ڈے ڈیلیوری اور الیکٹرانک منی آرڈر‘‘ کا بھی آغاز کیاہے۔ سیم ڈےڈیلیوری سے ، صوبے کے 5شہروں پشاور، مردان ، ڈیرہ اسمٰعیل خان ، ایبٹ آباد اور سوات میں اسی روز ڈاک کی ترسیل ہوتی ہے۔ پشاور میںایک ہی دن میں 659 میل کی ترسیل ہوئی، جو ایک ریکارڈ ہے۔ الیکٹرانک منی آرڈر کی سروس پہلے بھی دی جاتی تھی،مگر یہ ایک لاکھ روپے تک آن لائن کاؤنٹر تک ہوتی تھی، اب ہم نے اسے تبدیل کیا ہے اور 50 ہزار روپے تک آن ڈیلیوری ڈورا سٹیپ تک لے آئےہیں ۔نجی سیکٹر کے مقابلے میں ہمارے فیکس، منی آرڈر اور ارجنٹ منی آرڈر کے ریٹس انتہائی کم ہیں۔

س:سامان میں منشیات چھپا کربھیجنے کی شکایات پر آپ کیا کہیں گے؟

ج:پاکستان پوسٹ کے ذریعے،جو بھی سامان باہر بھیجا جاتا ہے، اُسے ہم اچھی طرح چیک کرتے اور بھیجنے والے سے قومی شناختی کارڈ کی فوٹو کاپی بھی لیتے ہیں ۔علاوہ ازیں، کسٹم کنٹرول سے بھی سامان چیک ہوتا ہے۔پھر ایئر لفٹ ہوتے ہوئے،وہاں موجود انٹرنیشنل میل آفیسر بھی اُسےچیک کرتا ہے ۔اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ منشیات اسمگل ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

س:پینشن کی ترسیل میں بہتری کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں ؟

ج:جی پی او، پشاور میں پینشن کا سارا نظام ڈیجیٹلائزڈ ہے۔ اس میں روزانہ کی بنیاد پر ڈیٹا فیڈ کیا جاتاہے۔ دُور کے ڈاک خانوں میں یہ نظام ابھی کمپیوٹرائز نہیں،اس لیےڈیٹاکا اندراج بعدمیں کیا جاتا ہے ،مگر اب اس سسٹم کو بھی بہتر کیا جارہاہے ،جلدہی تمام سسٹم کمپیوٹر ائزڈ ہو جائے گا۔ ہمارے پاس ا سٹاف بھی کم ہے۔اس حوالے سے رِیکروٹمنٹ ٹیسٹنگ ایجینسی سے معاہدہ ہورہاہے، بعدازاں آسامیاں مشتہر کرکے یہ کمی پوری کر دی جائے گی۔

س: ضم شدہ قبائلی اضلاع میں پوسٹ آفیسر بحال ہو چکے ہیں؟

ج: اِن علاقوں میں انگریز وں کے دَور سے پوسٹ آفس قائم تھے، جب دہشت گردی کے خلاف ہونے والے آپریشنز کو کام یاب بنانے اور ان میں فوج کےساتھ تعاون کے لیے قبائلی عوام نے رضاکارانہ نقل مکانی کی تو، پوسٹ آفیسز بھی ٹی ڈی پیز (Temporarily dislocated persons) کے ساتھ صوبے کے دیگر علاقوں میں منتقل ہوئے اور کیمپوں میں کام کر رہے تھے،جب ٹی ڈی پیز کی واپسی کا عمل شروع ہوا تو ہمارے پوسٹ آفیسز بھی دوبارہ اپنے علاقوں میں منتقل ہوگئے۔

س: پاکستان پوسٹ کے تحت شجرکاری مہم بھی چلائی جا رہی ہے، اس حوالے سے کیا کہیں گے؟

ج:وزیرِاعظم عمران خان کے نظریےکے مطابق ،جس طرح دیگر ادارے و محکمے شجرکاری مہم میں حصہ لے رہے ہیں، اسی طرح پاکستان پوسٹ نے بھی اس میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا اور 5 لاکھ پودے لگائے ہیں۔ اگلے سیزن میں مزید 5 لاکھ پودے لگائے جائیں گے ، شجرکاری کے علاوہ پاکستان پوسٹ کے تحت نومبر سے صفائی مہم بھی جاری ہے۔

س: پاکستان پوسٹ کے مسائل کیا ہیں ؟

ج:سب سے بڑا مسئلہ سیاسی اونر شپ کا ہے، پہلے ہم وزارتِ ابلاغ کے ساتھ تھے ،تو ہماری حیثیت ایک ذیلی ادارے کی تھی۔اب پہلی بار کسی حکمران جماعت نے کے پی سے اپنی جماعت کے رکن کو یہ وزارت دی ہے ، توقع ہے،ہمارے ادارے کے حالات اور مسائل جلد حل ہو جائیں گے۔

تازہ ترین