• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگر وزیرِ اعظم، عمران خان کے اب تک کے بیرونی مُمالک کے دوروں پر نظر ڈالی جائے، تو یوں لگے گا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی شاید پھر سے ستّر اور اَسّی کے عشروں میں داخل ہوگئی ہے۔ یہ وہ دَور تھا، جب مُلک کا ارتباط عرب ممالک اور مشرقِ وسطیٰ سے بڑھ گیا تھا۔ اُسی زمانے میں لاہور میں اسلامی سربراہ کانفرنس ہوئی، جس میں سعودی عرب کے فرماں روا، شاہ فیصل(مرحوم) کا کلیدی کردار رہا۔ گو کہ اُس کانفرنس کا بنیادی موضوع چوتھی عرب، اسرائیل جنگ تھا، تاہم پاکستان اپنا یہ دیرینہ دعویٰ ثابت کرنے میں کام یاب رہا کہ اسلامی ممالک کا اتحاد اُس کی خارجہ پالیسی کا محور ہے۔اس کانفرنس نے پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد کے مسائل بھی حل کرنے میں مدد دی۔ وہ یوں کہ شیخ مجیب کانفرنس میں شریک ہوئے اور بھٹّو حکومت نے بنگلا دیش کو تسلیم کر لیا، اس سے اُنہیں سُکھ کا سانس لینے کا موقع ملا، کیوں کہ’’ بنگلا دیش نامنظور تحریک‘‘ اُن کے لیے دردِ سر بنی ہوئی تھی۔ اس کانفرنس نے جس اور کو سب سے زیادہ نمایاں کیا، وہ اسلام آباد اور عرب مُمالک کی قربت میں اضافہ تھا۔ اس سے پاکستان کو بہت سے فوائد حاصل ہوئے، جس میں سرمائے اور تیل کی شکل میں ملنے والی امداد بھی شامل تھی، جس کی اُن دنوں مُلک کی بحالی کے لیے غیرمعمولی اہمیت تھی۔ آج جب پی ٹی آئی حکومت کو اسی طرح کی امداد کی ضرورت ہے، تو اس کی پہلی نظر انہی عرب ریاستوں پر پڑی۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عرب دنیا سے اچھے، بلکہ بہترین تعلقات ہماری خارجہ پالیسی کا مستقل اور بنیادی ستون ہے۔ پھر یہ بھی کہ یہ عرب ممالک ہمارے قابلِ اعتماد دوست ہیں، جو ہر مشکل میں کام آتے ہیں۔دِل چسپ بات یہ ہے کہ سعودی عرب اور یو اے ای کے دَورے کے فوراً بعد وزیرِ اعظم، عمران خان نے چین کا دَورہ کیا اور اسی قسم کی امداد کی درخواست کی، جو وہ عرب مُمالک سے حاصل کرنے میں کام یاب رہے تھے۔1972 ء میں بھی جب مُلک انتہائی نازک دَور سے گزر رہا تھا، ذوالفقار علی بھٹّو بھی چین گئے تھے، جو اُن کا پہلا غیر مُلکی دَورہ تھا۔ چین نیا نیا اقوامِ متحدہ کی سلامتی کاؤنسل کا مستقل رُکن بنا تھا اور امریکا سے اس کے باضابطہ طور پر روابط قائم ہوئے تھے، جن میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ چین کے اُس وقت کے وزیرِ اعظم، چو این لائی نے، جو ایک ماہر سفارت کار اور خارجہ امور کے مدبّر تھے، گریٹ ہال میں منعقدہ استقبالیہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کو بھرپور تعاون کی یقین دہانی کروائی، وہیں یہ مشورہ بھی دیا کہ اب نئے پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی کا محور مشرقِ وسطیٰ کو بنانا چاہیے۔ اُنہوں نے یہ بھی اشارہ دیا کہ عرب، پاکستان کے فطری اتحادی اور ساتھی ہیں۔ بھٹّو صاحب نے اس مشورے پر عمل کیا اور خُوب فوائد سمیٹے۔ اُس زمانے میں ہر طرف تیل کا چرچا تھا اور عالمی سیاست اسی کے گرد گھوم رہی تھی۔ ہر مُلک کی خواہش تھی کہ وہ عرب مُمالک سے بہتر سے بہتر تعلقات رکھے تاکہ تیل کی فراہمی میں کسی رکاوٹ کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ جب عرب، اسرائیل جنگ کے بعد سعودی عرب نے تیل کی ترسیل پر پابندی لگا دی، تو دنیا ہل کر رہ گئی، لیکن پاکستان اُن چند ممالک میں سے تھا، جن پر اُس’’ آئل وار‘‘ کا نہ ہونے کے برابر اثر پڑا، کیوں کہ اس کے عرب دنیا سے بہت قریبی روابط تھے۔ اس قربت کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ پاکستانیوں کے لیے روز گار کے مواقع بھی کُھل گئے۔اُس وقت زرِ مبادلہ کی بہت ضرورت تھی اور ساتھ ہی روز گار کی بھی، کیوں کہ مُلک کے دولخت ہونے کے بعد معاشی سرگرمیاں سُست رَوی کا شکار تھیں۔یہ وہ زمانہ تھا، جب مشرقِ وسطیٰ میں’’ پیٹرو ڈالرز‘‘ کی ریل پیل تھی اور وہاں تعمیر و ترقّی کی ایک نئی دنیا وجود میں آرہی تھی۔ ایسے میں پاکستان جیسے بڑی آبادی کے مُلک کے ہنر مند اور غیر تربیت یافتہ افراد کو عرب ممالک میں روزگار کے وسیع مواقع حاصل ہوئے۔ اِس وقت بھی دنیا بھر میں نوّے لاکھ سے زیادہ پاکستانی تارکینِ وطن ہیں اور اُن میں سے نصف سے بھی زیادہ عرب ریاستوں میں اپنی روزی روٹی کما رہے ہیں۔ یہی وہ محنت کش ہیں، جن کے ذریعے پاکستان کوسب سے زیادہ زرِ مبادلہ حاصل ہوتا ہے۔

ظاہر ہے، جب مُلکی اقتصادیات کے دو اہم عناصر، زرِ مبادلہ اور روزگار کے مواقع، عرب دنیا سے حاصل ہو رہے ہوں، تو وہ ہماری خارجہ اور داخلہ پالیسیز پر بھی اثر انداز ہوں گے۔ اسی لیے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت، قطر، بحرین اور لیبیا کا پاکستان کی تاریخ میں ذکر ملتا ہے۔ یہ کہا جاتا رہا ہے کہ پاکستان کے بہت سے سیاسی معاملات سُلجھانے میں عرب رہنماؤں کا ہاتھ رہا ہے۔ اسی حوالے سے ایران کا بھی ذکر آتا رہا ہے، لیکن ایران میں انقلابی حکومت آنے کے بعد مشرقِ وسطیٰ کی صُورتِ حال میں یک سَر تبدیلی آئی ہے۔ شاہِ ایران کے زمانے تک اس کے عرب دنیا سے معمول کے تعلقات تھے، بلکہ اسرائیل سے بھی اچھے روابط تھے۔ وہ پاکستان کے ساتھ’’ سینٹو فوجی معاہدے‘‘ اور’’ آر سی ڈی‘‘ میں شامل تھا، لیکن امریکا اور مغربی دنیا سے تہران کے تعلقات منقطع ہونے کے بعد مشرقِ وسطیٰ کی صُورتِ حال میں بھی انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ اُدھر ایک اور بحران مغربی ایشیاء میں بھی جنم لے چُکا تھا۔ یہ افغانستان کی ایک طویل جنگ کی شروعات تھی، جو بھٹّو صاحب کے دَور یعنی1974 ء میں شروع ہوئی اور چوالیس برس بعد بھی جاری ہے۔ پہلے یہ سویت یونین کے، جو اُس وقت سُپر پاور تھا، خلاف تھی اور آج امریکا کے خلاف لڑی جا رہی ہے، جو اب واحد سُپر پاور ہے۔ اس جنگ میں پاکستان بھی چاہتے نہ چاہتے ملوّث ہوگیا کہ اس کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں۔ تقریباً ستّر لاکھ افغانی بارڈر کراس کر کے پاکستان میں پناہ گزین ہوئے اور ان کی بڑی تعدا آج بھی یہاں مقیم ہے۔ نیز، اس افغان جنگ میں سعودی عرب، قطر اور یو اے ای بھی کسی نہ کسی طور شامل رہے، تو تُرکی اور ایران بھی اہم کھلاڑی تھے۔بہرحال، افغان مجاہدین فتح یاب ہوئے اور سویت یونین بکھر کر روس میں سِمٹ گئی۔ بعدازاں، خانہ جنگی کے بعد وہاں طالبان حکومت بنی، جسے صرف اسلام آباد اور ریاض ہی نے تسلیم کیا۔ پھر نائن الیون کا واقعہ رونما ہوا، جس کے نتیجے میں نیٹو فورسز نے افغانستان پر حملہ کرکے اُس پر قبضہ کرلیا، جسے بیش تر ممالک نے اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق تسلیم بھی کیا۔ اگر دیکھا جائے، تو ان واقعات میں بھی کسی نہ کسی طور پر عرب دنیا کی دِل چسپی نظر آتی ہے۔ خاص طور پر آج جب طالبان، افغان حکومت اور امریکا کے درمیان مذاکرات ہو رہے ہیں، تو اس میں سعودی عرب، قطر اور یو اے ای کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ طالبان کا بیرونِ مُلک پہلا دفتر بھی قطر ہی میں قائم کیا گیا، جس سے اُن کے لیے دنیا سے روابط قائم کرنے میں آسانی ہوئی۔ اسلام آباد بڑی حد تک ان معاملات میں عرب ممالک کے ساتھ ایک پیج پر رہا، گو نشیب وفراز آتے رہے اور اس کی بڑی وجہ شام اور عراق کا بحران تھا، جس میں ایران نے فعال کردار ادا کیا۔ شام میں تو اُس نے باقاعدہ طور پر صدر اسد کی حمایت میں فوجیں اُتاریں، پھر اُس کی مدد سے قائم ہونے والی مسلّح تنظیموں کا، جن میں لبنان کی حزب اللہ بھی شامل ہے، لڑائی میں بڑا اور براہِ راست کردار دیکھا گیا، لیکن اس مداخلت کا منفی نتیجہ یہ نکلا کہ مسلم دنیا کے دو اہم ستون، ایران اور سعودی عرب، علاقے میں برتری کے لیے ایک دوسرے کے مقابلے پر آ گئے۔ پاکستان کے دونوں سے اچھے تعلقات ہیں، اسی لیے اُسے مشرقِ وسطیٰ میں معاملات طے کرتے وقت تنی رسّی پر چلنا پڑتا ہے، کیوں کہ ان دونوں ممالک کے پاکستان کے اندر بھی اثرات ہیں۔

عمران خان کی حکومت کو مُلکی اقتصادی صُورتِ حال کی بحالی کا فوری چیلنج درپیش ہے، جس کے لیے ڈالرز کی شکل میں امداد چاہیے، تو پھر تیل کے لیے بھی رعایات درکار ہیں، جو درآمدات کا سب سے بڑا حصّہ ہے اور جس سے زرِ مبادلہ پر بوجھ پڑتا ہے۔ اسی لیے عمران خان کو فوری طور پر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر سے رجوع کرنا پڑا اورجہاں سے اُنھیں مثبت ریسپانس بھی ملا۔ ان ممالک کی جانب سے اربوں ڈالرز پاکستان کے اسٹیٹ بینک میں منتقل کیے جا چُکے ہیں، جب کہ تیل اور گیس پر بھی اربوں ڈالرز کی ادائی مؤخر کیے جانے کا اعلان ہوا ہے۔ ایران سے ایسی اُمید کرنا مشکل ہے، کیوں کہ اس کی معیشت امریکی پابندیوں کی وجہ سے شدید دبائو میں ہے۔ ایرانی ریال کی قدر کم ترین سطح پر ہے اور اس کے پاس بہت کم ڈالرز رہ گئے ہیں، جب کہ براہِ راست تیل کی خریدو فروخت پر بھی پابندی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ پاکستان، مشرقِ وسطیٰ کے کسی ایسے تنازعے میں، جس کا تعلق عرب، ایران کشیدگی سے ہو، فریق نہیں بنے گا، بلکہ وہ مفاہمتی کردار ادا کرنے کو پسند کرے گا۔ تاہم، جس طرح کی خون ریزی جاری ہے، اس میں پاکستان کے لیے ثالثی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ دراصل ہر مُلک کی خارجہ پالیسی اُس کے مفادات کے تابع ہوتی ہے اور جس قسم کے حالات سے پاکستان گزر رہا ہے، اس میں اقتصادیات کو اولیت حاصل ہے۔کسی بھی خود مختار خارجہ پالیسی کے لیے ایک مضبوط معیشت لازمی ہے۔پھر ایک مشکل یہ بھی ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی میں طویل المیعاد پلاننگ کا فقدان ہے، تو کوئی بڑا ویژن ہے اور نہ ہی واضح اہداف، اس لیے کبھی ایک طرف لُڑھک جاتے ہیں، تو کبھی جھکائو دوسری طرف ہوجاتا ہے۔ پھر اکثر جماعتوں میں خارجہ امور سے متعلق بہت کم ادارک پایا جاتا ہے، جو دو چار ماہرین ہیں، وہ بھی پارٹی بیانیے کے سامنے مجبور ہوجاتے ہیں۔اِس وقت صُورتِ حال یہ ہے کہ مُلک اقتصادی بحران سے گزر رہا ہے،معیشت سخت دبائو میں ہے، جس کے سبب امداد اور آئی ایم ایف ہماری ترجیحات میں سرِ فہرست ہیں۔ وزیرِ اعظم کے تمام دَورے اِنہی اہداف کے حصول کے لیے کیے گئے۔اس لیے یہ کہنا کہ ہم کوئی بڑا کردار علاقائی تنازعات یا اکھاڑ پچھاڑ میں ادا کرسکیں گے، محض خام خیالی ہوگی۔ہم دوست ضرور ہیں، لیکن ہمارے پاس کوئی ایسی طاقت نہیں، جس سے تنازعات کے حل میں کوئی کردار ادا کرسکیں۔اسی لیے ہمیں اپنے اقتصادی معاملات کے حل کے لیے خارجہ پالیسی ترتیب دینا ہوگی۔ اس کے لیے دوستیاں بھی کرنی ہوں گی اور دشمنیوں کو ختم نہیں، تو کم ضرور کیا جا سکتا ہے۔ عرب مُلک ہماری فوری امداد کو آئے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ قابلِ اعتماد ساتھی ہیں اور وہ افراد کی بجائے مُلک اور عوام کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ اس سلسلے میں یہ بات اہم ہے کہ ذاتی مفادات اور سیاسی فوائد کے لیے مُلکی سیاست میں ان ممالک کو ملوّث کرنا مناسب نہیں ہوگا۔ ماضی میں پی ٹی آئی کی جانب سے سعودی عرب سے تعلقات پر نواز شریف اور شہباز شریف پر غیرمناسب تنقید کی گئی، حالاں کہ عمران خان کو امداد کے لیے پہلے دو دورے ریاض ہی کے کرنے پڑے اور شاہی خاندان سے تعلق بھی استوار کرنا پڑا۔ نیز، اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہر غیر مُلکی دَورے میں کرپشن کے خلاف تقریر کرنا مناسب عمل ہے؟کچھ بیانات اپنے عوام کے لیے ہوتے ہیں اور کچھ بیرونِ مُلک اپنی ساکھ قائم کرنے کے لیے ، تو وقت کا تقاضا ہے کہ اس فرق کو سمجھا جائے۔ سعودی ولی عہد پاکستان آرہے ہیں، جن کے دَورے سے مزید توقّعات وابستہ کی جارہی ہیں۔ تاہم، گوادر میں جس آئل ریفائنری کی سعودی امداد سے تعمیر کا چرچا ہے، وہ ڈیل اطلاعات کے مطابق نواز شریف کے دَور میں طے ہوئی تھی۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ مُلکی خارجہ اور اقتصادی پالیسی میں تسلسل کس قدر ضروری ہے۔ اسی طرح پاناما کیس میں قطری شہ زادے پر بہت منفی اور شدید قسم کی تنقید کی گئی۔خود عمران خان اُن کے متعلق سخت زبان استعمال کرتے رہے، لیکن قطر کے دَورے میں اُسی شہ زادے کے خاندان سے وزیرِ اعظم کو بات کرنی پڑی۔ ایل این جی معاہدے پر شاہد خاقان عبّاسی پر کرپشن کا الزام لگا اور منصوبے کو مُلک کے لیے نقصان دہ بتایا گیا، اب اسی کو بحال کرنے کے لیے قطر کے دورے میں بات چیت کی گئی، کیوں کہ صنعتوں کو توانائی کے بحران کا سامنا ہے۔ یہ سیاسی قیادت اور جماعتوں کے لیے واضح پیغام ہے کہ وہ مُلکی خارجہ امور اور غیر مُلکی شخصیات سے متعلق بیانات میں احتیاط کریں تاکہ اپنے اور مُلک کے لیے مشکلات پیدا نہ ہوں۔

اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان سب سے پہلے اپنے اندرونی معاملات کی درستی کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے۔ بلاشبہ اس مُلک میں بہت سی خوبیاں ہیں،عوام میں مُلک کی تعمیر و ترقّی کے لیے غیر معمولی جوش و جذبہ ہے، تاہم اس توانائی کو صحیح سمت میں لگانا لازمی ہے، وگرنہ غیر ضروری بیانات اور غلط پرواز اسے ضائع کرسکتی ہے۔ خارجہ پالیسی کی سمت اور کام یابی کا دارومدار اندرونِ مُلک کام یابی اور استحکام پر ہے۔ عوام جس قدر مطمئن اور خوش حال ہوں گے، اتنی ہی مُلک کی بیرونی دنیا میں توقیر اور عزّت ہوگی۔آج جاپانی، کورین اور چینی باشندوں کی بیرونِ مُلک اس لیے عزّت ہے کہ اُن کا مُلک ترقّی یافتہ ہے۔ وہاں کی معیشت مضبوط ہے اور اُن کے مصنوعات ہر جگہ خریدی جاتی ہیں۔ یہی مصنوعات، ایک بے زبان سفیر بن کر گھر گھر اُن ممالک کی نیک نامی کا ذریعہ بن رہی ہیں۔ یہ سب ہم بھی کرسکتے ہیں، لیکن حکومتوں کا کام ہے کہ مُلک میں وہ فضا اور ماحول پیدا کریں، جن میں یہ سب ممکن ہوسکے ۔یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں، اردگرد نظر ڈالیں، تو ہر مُلک اسی تگ ودَو میں مصروف ہے۔رول ماڈل موجود ہیں، لیکن اس ماڈل پر عمل خود ہی کرنا پڑے گا۔ 

تازہ ترین