• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بات سال 2007کی ہے ،گئے تو ہم جنوبی وزیرستان کی تحصیل سرہ روغہ کے علاقہ غورلامہ میں تحریک طالبان پاکستان کے اس وقت کے امیربیت اللہ محسود کی پریس کانفرنس کورکرنے تھے جوانہوں نے اس لئے منعقد کی تھی تاکہ بے نظیربھٹوکوشہید کرنے کے بارے میں خود ان پرلگنے والے الزام کی صفائی دے سکیں کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ عورت کو مارے جانےکے الزام میں ان کی عزت پرجوآنچ آئی ہے اسے ختم کیا جاسکے۔ کسے پتہ نہیں کہ قبائل میں عورت پروارکرنے کو مرد کی مردانگی کے خلاف سمجھا جاتا ہے ،اس کے بعد کیا ہوا وہ پوری قوم کو یاد ہے لیکن یہ ہمارا موضوع بحث نہیں ۔ہمارا جو آج کا موضوع بحث ہے وہ اس پریس کانفرنس سے پہلے ملنے والے اضافی وقت میں ہماری کچھ تفریح طبع کے دوران جو دیکھا وہ ہے۔ ہم سب صحافی اس علاقے میں پھیل گئے جہاں پرملنے والے ہرشخص کی زبان پر ایک ہی شکایت تھی کہ حکومت اورطالبان کی لڑائی میں ان کے گھر گر گئے ہیں۔
اس کے کچھ عرصے بعد ہی جب اسلام آباد میں روزگارکی غرض سے موجود تھا توایک نواحی علاقے میں رہنے والے آئی ڈی پی عبدالحق بابا سے ملاقات ہوئی جوجنت نظیروادی تیراہ سے ہجرت کرکے اسلام آباد کے ایک کھیت میں بنے چھوٹے سے گھرمیں رہ رہے تھے ان سے زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ پوچھا توان کا بھی جواب ملتا جلتا نکلا کہ ان کا بھی قبائلی علاقے تیراہ میں واقع گھر گرگیا ہے اور اب جب وہ اسلام آباد میں مہاجرت کی زندگی گزار رہے ہیں توان کا وہ گھر جسے وہ بھرا پراچھوڑآئے تھے اس میں نہ ہی کوئی دروازہ بچا ہے اورنہ ہی کوئی پنکھا اورچارپائی، ہم نے پوچھا کون لے گیا یہ سب کچھ؟ تومسکرادئیے اورکہا کہ چھوڑوجی۔بابا عبدالحق کا ایک ہی ارما ن تھاکہ وہ کسی بھی قیمت پر واپس اپنے گھر جانا چاہتے ہیں لیکن وسائل اورجانے کی اجازت نہ ملنا آڑے آرہا ہے۔
پھراب سے کچھ دن پہلے سابق گورنرخیبرپختونخوا سردارمہتاب احمد خان کے ہمراہ خیبرایجنسی کے علاقے مستک جانے کا اتفاق ہوا علاقے کی خوبصورتی سے متاثرہوکر، وہاں پرگاڑیوں میں پہنچنے والے قبائلیوں سے پوچھا کہ کتنا امن اورسکون ہے اس علاقے میں توان کا کہنا تھا کہ یہ امن اورسکون توقبرستان میں بھی ہوتا ہے ۔ بات کارخ بدلنے کے لئے ان سے کہا کہ یہاں کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے توان کا یہی کہنا تھا کہ مٹی کے بنے خالی گھرمکینوں کی راہ تکتے اورموسموں کے سردو گرم سہتے سہتے ڈھے گئے ہیں، اس لئے گھروں کے اس قبرستان کو مزید تباہی سے بچانے کے لئے ان گھروں کے مکینوں کو یہاں واپس آنا چاہئے۔
اس دورے کے تین دن بعد اتفاق سے کراچی جانے کا موقع ملا ائیرپورٹ پرہمیں لینے آنے والی ہوٹل کی کار کے ڈرائیور سے علیک سلیک کے بعد جب بات شروع کی تو کہنے لگے بس یاد رکھیں صاحب، اب کی بار حکومت نے میرے گرے ہوئے گھر کودوبارہ نہ بنایا تومیں کچھ ایسا کرجاونگا کہ لوگ رہتی دنیا تک یاد کرینگے۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ عرصہ تیس سال سے کراچی میں مزدوری کرکے پیسے کمارہا ہے اورپیچھے اس کے گائوں درہ آدم خیل میں ایک گھرجو اس نے بڑی محنت سے بنایا تھاگر گیا ہے۔
اب ان چاروں باتوں میں پائے جانے والے ربط اورمشترکہ بات کو لے لیں توپتہ چلا کہ سب سے زیادہ سوچی جانے والی بات ایک ہی ہے کہ لوگ اپنے گھروں کو ایسے چھوڑکربھول نہیں پائے۔ گورنرکے اس دورے کے دوران کچھ اراکین پارلیمنٹ بھی ساتھ تھے واپسی پرجب پوری کی پوری آبادیوں میں کوئی ایک شخص بھی نظرنہیں آیا توتب معاملے کی سنگینی کا احساس ہوا مستک سے لے کرباڑہ بازارتک قریبا تمام گھرخالی ہیں۔ آئی ڈی پیز کی واپسی کے بارے میں حکومتوں کے اعلانا ت ختم نہیں ہورہے کہ تقریباآدھے سے زیادہ آئی ڈی پیز کو واپس بھیج چکے ہیں لیکن جب قبائلی آبادیوں کو دیکھا جاتا ہےتب پتہ چلتا ہے کہ پتہ نہیں کون کہاں واپس لوٹا ہے۔ گھروں سے محروم ہونے والے ان لوگوں کا ایک ہی شکوہ اب تک سمجھ آسکا ہے کہ ان کے گھرواپس بنادئیے جائیں جو یقینا ممکن نہیں، لیکن اگراب بھی ان قبائل کوواپس بھیجاجاسکے توشاید ان کے بچے کچھے گھروں کو بچایا جاسکے۔ گھربھی کیا چیزہوتی ہے مکینوں کے جانے کے بعد یہ گوڈوں پرگرکرمرجاتا ہے۔ قبائل یوں بھی مٹی کے گھر بناتے ہیں جنہیں جب بارش اوردھوپ لگتی رہے تویہ گھربچائے جاسکتے ہیں۔گزشتہ دس سے زیادہ سالوں کے دوران جب بھی کسی بے گھر قبائلی سے ملاقات ہوئی اس کی ایک ہی خواہش دیکھی کہ حکومت انہیں ان کے گھروں کی تعمیر نو یا مرمت کیلئے فنڈ مہیا کرئے، جبکہ حکومت پچاس ساٹھ لاکھ روپے مالیت کے گھرکودوبارہ بنانے کے لئے رقم دیتی نظر نہیں آرہی یا اگر دے گی بھی تو چند لاکھ روپے دے گی، جو اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہوگا۔ یہ بات توسب کو معلوم ہے کہ ہرکسی کے لئے اس کا گھرجنت ہوتا ہے ایسے میں جب دنیا میں ہی بننے والی جنت نہ رہے توزندگی جہنم بن جاتی ہے یہی حال ان لوگوں کا ہےجو گزشتہ کئی سالوں سے مختلف شہروں کے قریب پناہ گزین کیمپوں میں رہ رہے ہیں جہاں پرترپال کے بنے ٹینٹوں میں نہ یہ گرمی سے بچ سکتے ہیں اورنہ ہی سردی سے ،نہ ہی وہاں باضابطہ کچن ہوتا ہے نہ ہی لیٹرین جیسی بنیاد ی ضرورت۔ اس لئے قبائل کی پریشانی حق بجانب ہے جوچاہتے ہیں کہ اب انہیں بس اپنے گھرواپس جانےدیاجائے اوریوں بھی اب توقبائلی علاقوں میں امن قائم ہوچکا ہے توقبائل کی یہ بات اوربھی جائز لگتی ہے۔ اس لئے اس بات میں اب کوئی شبہ نہیں رہا کہ قبائلی عوام کی پریشانی کو ختم کرنا ہے تواس کے لئے انہیں واپس اپنے علاقوں میں بھیجنا ہوگا تاکہ وہ اپنے بچے کچھے گھروں کو سمیٹنے کے قابل ہوسکیں دوسری صورت میں مزید دیر ہوئی توپریشانی کا یہ لاوا بڑھ کرکسی اوربڑی پریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔
تازہ ترین