• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پنجاب اور وفاق میںبیوروکریسی اور ترقیاتی کاموں پر مامور سرکاری عملے کی توجہ چند کلیدی امور کی طرف دلانا چاہوں گی جن کو حل کرنے سے نہ صرف حکومت کی نیک نامی میں اضافہ ہوگا بلکہ عوام دعائیں بھی دیں گے ۔اول یہ کہ ملک خداداد میںٹریفک حادثات شیطان کی آنت کی مانند بڑھتے جارہے ہیں۔ریسکیو 1122رپورٹ کے مطابق پنجاب میںگزشتہ12سالوں میں ساڑھے 12لاکھ روڈ حادثا ت ہوئے ۔یعنی 1 لاکھ سالانہ اور8 ہزار ماہانہ اور 266 روزانہ ہورہے ہیں۔ان میں 70فیصد حادثات موٹر سائیکل ، پیدل اور سلو موونگ وہیکلز کی وجہ سے ہوئے۔مجموعی طور پر سوا 39لاکھ افراد کو اسپتال منتقل کیا گیا ۔اسپتال منتقل کرنے والوں کا کیا ہوا کتنے بچے اور کتنے راہی عدم ہوئے خدا جانے۔ایک سال قبل بھی اس ریکارڈ کو مرتب کرنے کیلئے ریسکیو حکام کی توجہ دلائی گئی تھی لیکن ویب سائٹ پر بچنے والے یا مرنے والوں کا کالم ہی نہیں بنایا گیا اور نہ ہی متاثرین حادثات کی اصل تعداد جنس اور عمر کا کسی کو معلوم ہے۔کیا یہ پیشہ ورانہ نااہلی نہیں ہے۔ صوبائی دارالحکومت لاہور کی بات کی جائے تو 12سالوں میں 3لاکھ31ہزار 158 سڑک حادثات ہوئے۔یعنی کینسر جیسی موذی بیماری سے اتنے زیادہ لوگ متاثر نہیں ہیں جتنے حادثات کا شکار ہوجاتے ہیں۔ان حادثات میں مجموعی طور پر 7لاکھ 36ہزار افراد کواسپتال منتقل کیا گیا۔ یعنی سالانہ27ہزار5 سو 96حادثات ہوئےاور61ہزار افراد اسپتال منتقل ہوئے۔ یعنی حادثات کی ماہانہ تعداد2299ہے جن میں 5111افراد اسپتال منتقل ہوئے۔روزانہ ہونے والے 76حادثات میں 170 افراد اسپتال منتقل ہوئے۔یہ تو رپورٹ ہونے والےحادثات ہیں ایسے حادثات کی تعداد یقیناً کئی گنا زیادہ ہوگی جو رپورٹ نہ ہوسکے۔نتیجہ یہ ہے کہ لاہور میں ہر گھنٹے بعد 3حادثات کے نتیجے میں 7افراد اسپتال منتقل ہوتے ہیں۔جن میں سے 4یا زائد افراد موٹر سائیکل یا سلوموونگ وہیکل پر سوار یا پیدل ہوتے ہیں۔وطن عزیز میں چالیس لاکھ افراد کے ٹریفک حادثات میں موت معذوری اورزخمی ہونے کا کوئی پرسان حال نہیں۔جوافراد مارے جاتے ہیں انکی نہ ہی ہیلتھ اور نہ ڈیتھ انشورنس ہوتی ہے۔ان 12 سالوں میں بم دھماکوں،عمارتوں کے انہدام اور آگ سے متاثر ہونےکے 81ہزار واقعات بھی ہوئے۔ان میں کتنے مرے،زخمی یا معذور ہوئے ویب سائٹ اس بارے میںبھی خاموش ہے۔پتہ چل بھی جائے تو یہ ہرگز خوش کن نہیں بلکہ خوفناک تعدادہی ہوگی۔کیا ریاست ان حادثات میں مرنے والوں کی کوئی داد رسی نہیں کرسکتی؟ یقیناًکر سکتی ہے اور وہ ایسے کہ بشمول نابالغ، ریاست کے ہر فرد کی انشورنس ہونی چاہئے۔اس انشورنس کی رقم کو محکمہ ایکسائز تما م وہیکلز کی رجسٹریشن میںشامل کرے۔ اس میں معذور ،زخمی اورمرنے والوں کا کور شامل ہونا چاہئے تاکہ ہر شہری کو فائدہ ہو نہ کہ وہ حکومت کی طرف سے بھیک کی طرح ملنے والے زر تلافی کےا علان کا انتظار کرے۔اس طرح حکومت پر بھی کوئی مالی بوجھ نہیں پڑے گا اور عین عوامی فلاحی سسٹم بن جائیگا۔دوم یہ کہ صوبائی دارالحکومت میں بالخصوص اور دیگر شہروں میں بالعموم جمعہ ، ہفتہ اور اتوار کی را ت سڑکوں پر ون ویلنگ میں ہزاروں نوجوان موٹر سائیکل سوار ریس میںمختلف حادثات کا شکار ہو کر نہ صرف زخمی اورمعذور ہو رہے ہیںبلکہ بعض جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔جو بچ جاتے ہیں انھیںپولیس گرفتا رکرلیتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا انھیں گرفتار کرنا اخلاقی اورقانونی ضوابط کے پیرائے میں آتا ہے؟ہرگز نہیں۔کبھی لاہورا سٹیڈیم میں پیالہ ہوا کرتا تھاجہاں سائیکل سوار ریس لگایا کرتے تھے جو اب معدوم ہوگیا ہے۔ریاست کی ذمہ داری ہے کہ جدید ترین اسٹیڈیم بنائے جائیں جن میں موٹر سائیکلنگ اور سائیکلنگ ٹریک موجود ہوں ۔ نوجوانوں کو گرفتار نہ کریں بلکہ تربیت یافتہ ٹرینرز کو انکی تربیت پر مامور کریں ۔ہر سال مقابلے منعقد کروا کر یوتھ کی توانائیوں کو مثبت بنائیںا ور بین الاقوامی مقابلوں میں بھیجیں۔سوم یہ کہ لائسنس یافتہ اور بغیر لائسنس افراد عدم آگاہی اور عدم تربیت کے باعث سڑکوں پر ٹریفک قوانین کی شدید ترین خلاف ورزیاں کررہے ہیں ۔لائن، لین اور رائونڈ ابائوٹ کی خلاف ورزی ثواب سمجھ کر کی جاتی ہے۔انکی کوئی غلطی نہیں کیونکہ نہ ہی انکو پڑھایا اور نہ ہی سکھایا گیا ہے کہ اشاروں کا مطلب کیاہے؟ انھیں تو ڈ پر دینے کامطلب بھی معلوم نہیں ؟اکثر جگہوں پر جیسے ہی اشارہ پیلا ہوتا ہے اس پر رکنے کی بجائے جلدی سے نکلنے کی روایت کی وجہ سےبہت سے سنگین حادثات ہورہے ہیں۔ یوتھ کو تو لفظ لائٹ انڈیکٹر کا بھی پتہ نہیں ہو تا کہ یہ کس بلا کا نام ہے؟ اکثر گاڑیوں کے اشارے ٹوٹے ہوتے ہیں یا جلے ہوتے ہیں۔سگنل فری سڑکیں بنانے کے بعد بھی پیدل چلنےوالوں کیلئے مسائل ختم نہیں ہوئے ہیں۔ تجویز ہے کہ پرائمری سے لیکر یونیورسٹی تک ہر تعلیمی ادارے میں ہفتہ وار ٹریفک قوانین پر لیکچر دیا جائے۔اس میں حاضری اور کورس پاس کرنا لازم قرار دیا جائے۔ شہریوں کیلئے تربیتی کلاسز بڑے پارکس میں منعقد کروائی جائیں۔ شرکا ء کو سر ٹیفکیٹ جاری کئے جائیں جو لائسنس کے حصول کیلئے لازم ہوں ۔سٹی ٹریفک پولیس لاہور کی ویب سائٹ پر قواعد و ضوابط کا خالی صفحہ منہ چڑاتا نظر آتا ہے۔ ایک سال ہوگیا کسی نے اس صفحے پر معلومات درج کرنے کی زحمت نہیں کی۔محض ہفتہ ٹریفک نہ منائیں بلکہ موٹر سائیکل سواروں کیلئے اور سلو موونگ ٹریفک کیلئے علیحدہ رنگ کی لینز بنائی جائیں اورلینز میں چلنے کی تربیت کو یقینی بنایا جائے۔ ہر اتوار خصوصی آن اسپاٹ تربیت فراہم کی جائے ۔ایک اور بڑے مسئلے پر بات کرنا ضروری ہے وہ یہ کہ اورنج لائن ٹرین بنانا عظیم کام ہے۔ میٹرو بس کی طرح مخالفین بھی اسے استعمال کریں گے لیکن آج کل شہریوں کو بڑی شدید تکالیف درپیش ہیں۔اس کے روٹ میںجہاں ترقیاتی کام ہورہے ہیں وہاں گزر گاہیں نہایت تنگ اور غیر ہموار ہیں۔گرد وغبار کی وجہ سے مسائل اور سانس کی بیماریاں پیدا ہورہی ہیں ۔ گڑھوں کی وجہ سے متعدد اموات ہوچکی ہیں۔ سرکاری افسران اس طرف کوئی توجہ نہیں دے رہے ہیں۔یہ منصوبہ شارٹ ٹرم نہیںاس لئے اس تکلیف کو فوری طور پر دور کرنا چاہئے۔اپوزیشن و دیگر مخالفین کو چاہئے کہ وہ مخالفت کو چھوڑ دیں اور عوامی اجتماعی مفاد کے منصوبوں کی حمایت کریں۔
تازہ ترین