• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرے ملک کے 18سے 19کروڑ لوگو!بڑا چرچا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک جمہوری حکومت اپنے پانچ سال پورے کرنے جا رہی ہے الیکشن کے بعد ایک مرتبہ پھر آپ کے قیمتی ووٹ سے ایک نیا جمہوری بچہ جنم لے گا ۔ گو سرد ہواؤں کی طرح یہ خبریں بڑی گرم ہیں کہ شاید الیکشن نہ ہوں اور پندرہ جنوری کے بعد سارا منظر ہی تبدیل ہوجائے مگر چیف آف دی آرمی اسٹاف جنرل پرویز کیانی اور چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرڈ فخرالدین جی ابراہیم کی ملاقات کے بعد شاید یہ خبریں کچھ ٹھنڈی ہو جائیں کہ الیکشن نہیں ہوں گے۔ کیونکہ چیف آف دی آرمی اسٹاف نے چیف الیکشن کمیشن کو فیئر‘ شفاف اور بروقت الیکشن کیلئے فوج کے بھر پور تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔اب آپ آئندہ الیکشن کیلئے ایک بار پھر ” آنرایبل ممبرز “ منتخب کرنے جارہے ہیں۔ انہیں منتخب کرنے سے پہلے ایک تو آپکو اپنی حیثیت و اہمیت کا پتہ ہوناچاہئے اور ان آنرایبل ممبرز کے بارے میں بھی معلومات ہونی چاہئیں۔ پاکستانی عوام کے بارے میں کچھ تصورات پائے جاتے ہیں کہ یہ بڑے بیوقوف ، نااہل ، ناسمجھ ،گونگے بہرے اور یہاں تک کہ اندھے ہیں۔ انہیں نہ تو سنائی دیتا ہے کہ کون لوگ اچھے اور بے داغ ہیں نہ انہیں دکھائی دیتا ہے اس لئے وہ بولتے بھی نہیں اور اندھے پن میں ووٹر پرچی پر مہریں لگادیتے ہیں۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ وہ بہت سمجھ دار ہیں انہیں یہ معلوم ہے کہ ان ” آنریبل ممبرز“ کے ظلم سے بچنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ انہیں ہی منتخب کیا جائے کیونکہ کوئی بھی اصلی ڈگری اور امانت داری رکھنے والا شریف آدمی انکے کسی کام نہیں آ سکتا۔ اب الیکشن کا میدان سجنے والا ہے ہم تو عوام کو صرف یہ بتانا چاہتے ہیں کہ آپ جب کوئی بھی چھوٹی سے چھوٹی ضرورت کی چیزخریدتے ہیں تو اس پر بھی ٹیکس دیتے ہیں۔ مرغی ،گوشت ، انڈے ، چائے ، چاول ، آٹا یا دیگر کوئی بھی مصنوعات حتیٰ کہ دوائی خریدنے پر بھی ٹیکس دیتے ہیں اور ایک آپ کے آنریبل ممبرز ہیں جنہیں آپ نے گزشتہ انتخابات میں چنا تھا اور آپکے اس چناؤ کی وجہ سے یہ آنریبل ممبرز اپنے پانچ سال پورے کرنے کا ریکارڈ بنا رہے ہیں ۔ انہوں نے اس ملک کی معیشت کو استحکام بخشنے کیلئے کتنا ٹیکس دیا ہے۔ آپ جس کو مرضی ووٹ دیں بے شک اندھے پن کے ساتھ جس جگہ مہریں لگائیں لیکن تھوڑی دیر کیلئے کھلی آنکھوں سے یہ ضرور دیکھ لیجئے کہ سنٹرفار انوسٹی گیٹو رپورٹنگ ان پاکستان نے یہ انکشاف کیا ہے کہ موجودہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کے 446ارکان میں سے 300ایسے ہیں جنہوں نے ٹیکس ریٹرن تک جمع نہیں کروائی یعنی انہوں نے یہ تک بتانا گوارا نہیں کیا کہ ان کے کون کون سے دھندے ہیں وہ اپنی شاہانہ زندگی کے دن کن کے پیسوں سے گزار رہے ہیں۔ جن چند نے جو ٹیکس جمع کرایا وہ دنیا کے سامنے یہ ثابت نہیں کر سکتے کہ ان کے ٹیکس اور لائف اسٹائل میں مطابقت بھی ہے یا نہیں۔ ٹیکس جمع کرانے والے 126میں سے صرف پندرہ نے دس لاکھ روپے سے زائد ٹیکس دیا جبکہ 68نے 10لاکھ سے بھی کم رقم جمع کرائی اور تو اور 54ارکان کی کابینہ میں سے 34ایسے ہیں جنہوں نے ٹیکس ریٹرن جمع ہی نہیں کروائیں۔
انہوں نے 2008ء کے الیکشن میں حصہ لیتے وقت جوکاغذات نامزدگی الیکشن کمیشن میں جمع کرائے تھے ان سے معلوم ہوتا ہے کہ 61فیصد نے صرف 16.893 روپے اُس سال ٹیکس جمع کرایا تھا ۔ اسوقت تک 88 سینٹرز اور اراکین کے پاس نیشنل ٹیکس نمبر تک موجود نہیں تھا اور 35نے تو الیکشن کے بعد یہ نمبر حاصل کرنے کیلئے درخواست دی تھی۔ گزشتہ دنوں شائع ہونیوالی ایک رپورٹ کے مطابق ایف بی آر کا کہنا ہے کہ 69فیصد ارکان پارلیمنٹ نے ٹیکس جمع نہیں کرایا اور ہم 200ارکان قومی اسمبلی، 60سنیٹرز سمیت88ہزار ایسے انفرادی ٹیکس دہندگان کو نوٹس جاری کر رہے ہیں ۔ دنیا کے مختلف ممالک میں ٹیکس نہ دینا ایک سنگین جرم خیال کیا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں ٹیکس نہ دینے والے آنرایبل ممبرزبن جاتے ہیں اور جب یہ منتخب ہوتے ہیں تو یومیہ 7ارب روپے کے قریب کرپشن ہوتی ہے۔ عالمی ادارہ ٹرانسپرنسی نے سال 2012ء کی جو رپورٹ شائع کی ہے اسکے مطابق پاکستان بدعنوان ترین ممالک کی فہرست میں ترقی کر کے 47سے 33ویں نمبرپر آگیا ہے ۔ہر سال کرپشن میں ریکارڈ اضافہ ہو رہا ہے اور گزشتہ 5برس میں 12ہزار 600ارب روپے کی کرپشن ہوئی ہے۔ اس طرح پاکستان سی پی آئی رینک میں سب سے کرپٹ ملک بن گیا ہے۔ اور قانون کی حکمرانی کے اشارے میں پاکستان 97ممالک میں 7واں سب سے کرپٹ ملک قرار دیا گیا ہے۔ ہمارے ہاں آنرایبل ممبرز کا وتیرہ ہے کہ وہ ہرکسی کی بات کو جھوٹ کا پلندہ قراردیتے ہیں ۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے بارے میں بھی ایسا ہی رویہ اختیار کیا گیا اس رپورٹ کے آنے کے کچھ ہی روز بعد پاکستان میں نیب کے سربراہ نے پہلے یہ انکشاف کیا کہ روز انہ 7ارب روپے تک کی کرپشن ہوتی ہے پھر چند روز بعد اپنی پریس کانفرنس میں یہ انکشاف کیا کہ یہ کرپشن 7نہیں بلکہ 12سے 15ارب روپے تک ہے ۔مگر حکومت نے تو اسے بھی جھوٹ کا پلندہ قرار دیا اور ایک چار رکنی وزارتی کمیٹی بنا دی کہ وہ تحقیقات کر ے کہ یہ کیسے ممکن ہے ۔ بس اب عوام نے دیکھنا ہے کہ الیکشن سے پہلے یہ کمیٹی کس طرح اپنے آنرایبل ممبرزکو ” اشنان “ کراکے ان کے سامنے پھر پیش کرتی ہے۔
بات شفاف اور پرامن فیئر الیکشن کے انعقاد کیلئے چیف آف دی آری سٹاف کے مکمل تعاون سے شروع ہوئی تھی ۔ شفاف اور فیئر الیکشن کیلئے شفاف اور فیئر نظام انتخاب کا ہونا ضروری ہے۔ انتخابی قوانین میں اصلاحات کے حوالے سے ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے ایک بہت بڑے جلسے میں نہ تو کوئی نئی بات کی ہے اور نہ ہی غیر آئینی بات بلکہ آئین کے مطابق انتخابات کو یقینی بنانے کا ایجنڈا دیا ہے جس پر مختلف سیاسی جماعتیں سیخ پا ہو رہی ہیں۔ چلئے مان لیا کہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری سے ہر کسی کو اختلاف ہو سکتا ہے اور یہ بات بھی کہی جا سکتی ہے کہ الیکشن سرپر ہیں اور ایسے موقع پہ اصلاحات کی بات کرنا الیکشن کو ختم کرانے کے مترادف ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم ملک میں آزاد الیکشن کمیشن کے قیام کو کریڈٹ سمجھتے ہیں تو اس آزاد الیکشن کمیشن کے ذریعے پورا انتخابی عمل اس وقت تک ٹرانسپرنٹ نہیں ہو سکتا جب تک آئین اور قانون پر اسکی صحیح اسپرٹ کے مطابق عمل نہیں کیا جاتا۔ آئین کے مطابق الیکشن ہوں گے تو بہتر نتائج سامنے آئیں گے اور ملک سے اربوں روپے کی کرپشن کا خاتمہ اور ٹیکس کا موثر نظام آسکے گا جو ملکی معیشت کے استحکام کا ضامن ہے ۔ اگر انتخابی اصلاحات کے بغیر الیکشن ہوتے ہیں تو پھر اسی طرح کے آنرایبل ممبرز منتخب ہوں گے اور اسی طرح کی کرپشن اور دھندے چلتے رہیں گے ۔ عوام کو کسی بہتری کی توقع نہیں رکھنی چاہئے ۔ بہتر تبدیلی کیلئے آواز اٹھانا ہوگی اور یہ آواز الیکشن نظام میں اصلاحات اور بروقت الیکشن کی ہونی چاہئے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو عوام کی اس آواز کو سن کر اپنا لائحہ عمل ترتیب دینا چاہئے ۔ جہاں تک ڈاکٹر طاہر القادری کی ڈیڈ لائن کا تعلق ہے تو انہیں اس سے پہلے اپنے سیاسی عزائم کو واضح کرنے کے ساتھ ساتھ کینیڈا کی شہریت چھوڑ کر پورا پاکستانی بننا ہوگا ۔ پھر ہی ان کی بات کا وزن محسوس کیا جا سکتاہے!
تازہ ترین