• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امرتا پریتم

معروف ادیبہ امرتا پریتم کے ایک مجموعہ ’’میرا کمرہ‘‘ میں کچھ معروف شاعروں اور ادیبوں کے وہ کمرے ہیں جن میں بیٹھ کر وہ لکھتے پڑھتے تھے۔اس مجموعے سے ہم نے چند ادیبوں کے ’’کمروں‘‘ کا انتخاب کیا ہے، ایک گہرے مطالعہ کا پہلو یہ بھی ہوتا ہے کہ گھر کاہر کو نہ، کمرہ ایک ایسا آئینہ ہوتا ہے جس میں اس کے مقیم کی شخصیت کو دیکھا جاسکتا ہےاور اس کے پورے ادھورے سپنوں کو بھی،یوں تو گھر کا کوئی نہ کونا ہر انسان کی نجی ضرورت ہوتا ہے، لیکن جنہوں نے تعمیر کی تقدیر پائی ہے ان کے لیے اس کونے کا وجود اتنی ہی اہمیت کا حامل ہوتا ہے جتنی ان کی شخصیت۔اس ہفتے ’’امرتا پریتم‘‘ کے مجموعے سے ان ہی کے کمرے کا انتخاب کیا ہے، جو نذرِ قارئین ہے۔

میرے ذہن میں ’’میرا اپنا ایک کمرہ‘‘ تھا، بڑی ضد ٹھان کر بیٹھا ہوا، جسے زمین پر اتارنے میں میری عمر کے بیالیس سال لگ گئے۔پہلی بارجب میں نے 6x6 فٹ کا ایک کمرہ ہتھیایا تھا، میں کوئی دس برس کی رہی ہوں گی، وہ اصل میں ہمارے مکان کی سیڑھیوں کے بیچوں بیچ بنی ہوئی ایک نجاری تھی جو لکڑیاں اور کوئلے رکھنے کے لیے تھی، جس کی دہلیز کے ساتھ لٹک کر اندر جاسکتے تھے اور اس سے باہر آنے کے لیے بھی لٹک کر کسی سیڑھی پر پائوں اٹکانا پڑتا تھا اور میں نے اسے دھوکر، اس کے فرش پر دری بچھا کر اسے اپنا کیا تھا۔ لیکن وہ جیسے میرے دل میں کھنچے ہوئے نقشے کے کیل کانٹے تھے۔

لاہور میں ’’دہرہ دون میں‘‘ بمبئی میں کوئی نہ کوئی کمرہ سرکی چھت ضرور بنا لیکن ’’میرا‘‘ نہیں۔ ’’میرا کمرہ‘‘ میں نے پہلی بار 1962ء کے مارچ میں دیکھا تھا۔ زندگی میں پہلی بار گھر بنتا دیکھا اور گھر کے ایک کمرے نے مجھے اپنی دیواروں کی بانہوں میں لپیٹ لیا۔

بنتے ہوئے گھر کو دیکھ رہی تھی کہ شام ہوگئی۔ پشکن کی ’’بے نام محبت‘‘ کی بات کرتے ہوئے تانیا نوف لکھتا ہے۔ ’’گھر ہمیں اس کے مکین کے بارے میں بہت کچھ تباہ ہیں۔ لیکن کئی بار گھر اور گھر کا مکین دونوں ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہوتے ہیں۔‘‘ سو اس شام میں نے جانا کہ وہ کمرہ میرا ہے، اتنا میرا کہ اس رات اس کے پاس سے ہٹ کر کہیں جایا نہیں جاسکتا۔

زیر تعمیر گھر میں ابھی بجلی نہیں تھی، تاہم موم بتی تھی،میں نے جلالی۔ چوکھٹ میں کواڑ لگ چکے تھے۔ میں نے بند کر لیے لیکن کھڑکیوں میں شیشے کی روک نہیں تھی۔ اس لیے ان میں سے باہر اُگے ہوئے لیموں کے پیڑوں کی پتیاں جھڑ جھڑ کر کمرے میں آتی رہیں۔ موم بتی کی کانپتی ہوئی لو میں، برہنہ فرش پر لیٹ کر اس رات ایک نظم لکھی۔ ’’چیترنے بوہا کھٹ کھٹایا…‘‘ (چیت نے دروازہ کھٹکھٹایا)۔

اس رات میں تھی، میرا کمرہ، کمرے کا دروازہ اور اسے کھٹکھٹانے والی میری چیت کی دستک… لگا، آج اگر دنیا سے جانا پڑے تو سکون قلب کے ساتھ جاسکتی ہوں، اپنی دیواروں کی بانہوں میں لپٹی ہوئی، اپنے فرش کی گود میں سر رکھ کے لیٹی ہوئی اور اپنے اوپر نیم کی پتیوں کا سبز کفن لے کر لیٹی ہوئی… پاس ہی کاغذ پر لکھی ہوئی نظم میری وصیت کی طرح تھی…

اس کے بعد کے برس مجھے زندگی کی ’’نئی لیز‘‘ کی طرح ملے ہیں۔ اب وہی بارہ فٹ، بارہ فٹ کا کمرہ ہے جس میں ایک جانب شیشے کے سات خانوں والی الماری ہے، جس میں میری کتابوں کا ایک ایک نسخہ، میرے افکار کے حوالے کی مانند پڑا ہوا ہے۔ اوپر کے خانے میں سب وہ جو میں نے ترجمہ کیے ہیں، دوسرے میں وہ کتب جو میں نے پنجابی میں تصنیف کی ہیں، تیسرے میں وہ جوہندی میں ترجمہ ہوئی ہیں، پانچویں میں سب کتابوں کے پیپر بیک ایڈیشن اور چھٹے اور ساتویں میں وہ سب جو دنیا کی مختلف زبانوں میں مختلف لوگوں نے مرتب کی ہیں اور جن میں دو دو چار چار صفحات میری نظموں یا کہانیوں کے ہیں۔ اس سات خانوں کی الماری میں کرشن کی چندن کی مورتی بھی ہے، موتیوں سے مرصع ناریل بھی ہے، نگوں والی مٹی کی صراحی بھی اور ساتھ ہی یادوں کے کچھ ٹکڑے بھی جو مجھے اپنے ملک یا باہرکے ملکوں سے خاص موقعوں پر ملے ہیں۔کھڑکی والی سمت میں خانوں والی ایک میز ہے جس میں امروز کے خطوط ہیں ز ندگی کے ساٹھ برسوں کی اپنی اور اپنے دوستوں کی تصاویر ہیں اور ناشروں سے کیے ہوئے اقرار نامے ہیں۔ میز پر ایک آئینہ ہے جس پر ماتما بدھ کی تصویر ہے۔ ایک تصویر میری اور امروز کی ہے۔ کمرے میں صرف ایک پینٹنگ ہے۔ ہارڈ، بیڈ کے سرہانے کی طرف لگی ہوئی جس میں صرف دو پر پینٹ کیے ہوئے ہیں، امروز پینٹنگز میں سے صرف اسے میں نے اپنے کمرے کے لیے منتخب کیا ہے۔لکھنا، سونا، سوچنا، پڑھنا جس کونے میں ہے، اس کے دونوں جانب دو لیمپ ہیں اور بائیں ہاتھ وہ کتابیں جو مجھے اپنے ہاتھ کے پاس چاہئیں۔ کلچرل ہیری ٹیج آف انڈیا، عالمی مائیتھولوجی کی پوری جلدیں، ہسٹری آف ورلڈ پینٹنگ کی سب جلدیں، آئین رینڈ کی تمام کتابیں، کازان زاکس کی کل تصانیف اور دنیا کی کچھ اور عمدہ کتابیں۔ اس کونے کو امروزاکثر تازہ پھولوں سے بھر دیتے ہیں۔بائیں دیوار پوری کی پوری کتابوں کے لیے مخصوص ہے، سامنے کی دیوار بھی دروازوں کوچھوڑ کر کتابوں کے لیے ہے اور کھڑکیوں کی طرف کی دیوار بھی کھڑکیوں کو چھوڑ کتابوں کے لیے ہے۔ اور کھڑکیوں کی طرف کی دیوار بھی کھڑکیوں کو چھوڑ کر کتابوں کے لیے ہے۔دیواروں کے حصے بانٹے ہوئے ہیں۔ نظم کے لیے، ناولوں کے لیے، افسانوں کے لیے، سوانح عمریوں کے لیے اور تاریخ و فلسفہ کے لیے، سو میرے حساب سے گوروگرنتھ صاحب نظم کے حصہ میں رکھے ہوئے ہیں اور مہا بھارت فلسفہ والے حصے ہیں۔

سامنے کی دیوار کے ساتھ لگا کر رکھی ہوئی نو خانوں والی ایک بند الماری ہے، جس کا ہر خانہ ایک ایک کام کا حساب کتاب سمجھاتے ہوئے ہے۔ جیسے ایک خانہ ہر سال کی آمدنی کا،ایک انکم ٹیکس کا، ایک چھپنے والی کتابوں کے مسودوں کا، ایک ان کے ہندی تراجم کا، ایک مرتب کی جانے والی تصانیف کا۔

کتابوں کے خانوں میں کسی کسی جگہ چھوٹے چھوٹے چوکھٹوں میں جڑی ہوئی تصویریں ہیں میرے بچوں کی اور ایک الماری کے بند حصے پر ایک کیل ہے، جس پر کبھی مونا لِزا کی تصویر ٹانگ دیتی ہوں، کبھی خلیل جبران کی اور کبھی اِک وہ تصویر جو تمام دنیا میں ضبط ہوچکی ہے۔ یہ ایک اطالوی مصور کی بنائی ہوئی ہے لیکن اس کا پوراذکر نہ کروں گی، کیوں کہ یہ دنیا میں ضبط ہوچکی ہے۔یہ کمرہ وہ نہیں ہے جو میرے ذہن میں تھا اور بیالیس برس میرے ذہن میں پڑا رہا تھا۔ زمین نے اس کو ضبط شدہ قرار دے دیا تھا۔ اور زمین کا وہ قانون امروز نے پلٹ دیا تھا 1962 میں!

میں نہیں جانتی۔ زمین سے چلے جاکر پھر زمین کے ساتھ کوئی تعلق رہتا ہے یا نہیں۔ اگر رہتا ہو تو میرا اس کمرے کے ساتھ ضرور رہے گا۔ اور اسی اعتقاد سے میں نے وصیت کر رکھی ہے کہ میرا بیٹا اور میری بیٹی میرے کمرے کو میرے بعد بھی ’’میرا‘‘ رکھیں گے۔یہ جوناممکن ساتھا اس کو ممکن بنانے میں میری ساری عمر لگ گئی ہے۔ اسی لیے اس کی بات کہتے ہوئے میں نے نہ صرف تسلی، لفظ کو سامنے رکھا ہے، لیکن جو اس لفظ سے آگے ہے وہ ابھی بھی میرے ذہن میں ایک امانت کی طرح پڑا ہے اور لگتا ہے وہ اس زندگی کی نہیں کسی اگلی زندگی کی امانت ہے وہ کسی پہاڑ کی غار ہے یا ایک جزیرے کا وجود اور وہ دونوں صورتوں میں ایک سی شدت کے ساتھ میرے ذہن میں ابھرتے ہیں۔ کوئی بھی شہر میرے کمرے کے پس منظر کی صورت میں میرے فکر کا حصہ نہیں ہے، لیکن شہر کے نقشہ سے کمرے کو کتر کر میں نہیں رکھ سکتی۔ اس لیے اس کی ہر کھڑکی کے آگے کسی نہ کسی بیل کی اوٹ دے کر اسے کسی حد تک شہر سے بچاتی ہوں لیکن ذہن کے حقیقی نقشہ کے مطابق کمرے کے ارد گر صرف جنگل ہے، صرف جنگل۔

یہ جو ممکن ہوا ہے، غنیمت ہے۔ لیکن اس کی سبز بیلوں میں ایک حسرت کے رنگ کی بیل بھی اُگی ہوئی ہے، کہ اس کمرے کو ذہن سے زمین پر’’ لینڈ‘‘ کرتے وقت کسی شہر میں نہیں کسی جنگل میں اترنا چاہیے تھا۔

نوٹ: اگر کوئی ادیب اپنے کمرے کے بارے میں قارئین کو بتانا چاہے تو ہمیں ضرور لکھ کر بھیجیں
ہمارا پتہ ہے: رضیہ فرید، میگزین ایڈیٹر، روزنامہ جنگ،اخبار منزل،آئی آئی چندریگر روڑ، کراچی
تازہ ترین