• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

محاذ آرائی سے لڑائی: مفاہمت سے ہوگی قانون سازی

افغانستان میں 17 سالہ جنگ کے خاتمے کی راہ ہموار ہو گئی بالآخر امریکہ کو افغانستان میں طویل جنگ کے خاتمے اور طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے پاکستان کا کردار تسلیم کرنا پڑا اور پاکستان نے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لا کر اپنی ذمہ داری پوری کردی۔ افغانستان میں قیام امن پاکستان کے استحکام کی ضمانت ہے۔ یقیناً افغانستان اور پاکستان کے عوام طویل جنگ اور دہشتگردی سے چھٹکارا پالیں گے اور خطے میں امن و استحکام ہوگا، خوشحالی آئے گی اور عوام سکھ کا سانس لیں گے ۔ اس جنگ میں ہزاروں افغان مسلمان اور پاکستانی مارے گئے معصوم لوگوں نے بے تحاشا قربانیاں دیں پاک فوج اورپاکستانی قوم نے دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑ کر کامیابیاں حاصل کیں اور اس کے لئے قوم بالخصوص قبائلی عوام نے زبردست قربانیاں دے کر ایک نئی تاریخ رقم کی۔ پاک فوج نے اندرون ملک اور سرحدوں پر جو جنگ لڑی ہے اس کا لوہا امریکہ سمیت دنیا بھر کے ممالک نے مان لیا ہے پاک فوج نے ثابت کیا ہے کہ وہ دنیا کی بہترین بہادر جنگجو فوج ہے امریکہ اور افغان طالبان لیڈر شپ کے درمیان ہونے والے مذاکرات کامیابی کی سمت گامزن ہو گئے ہیں امن معاہدے کے مجوزہ مسودے پر اتفاق ہو گیا ہے جس کے مطابق 18 ماہ کے اندر امریکہ سمیت تمام غیر ملکی فوجیں افغانستان سے نکل جائیںگی طالبان داعش یا القاعدہ کو افغان سر زمین استعمال نہیں کرنے دیںگے۔ یقیناً اس امن معاہدے کا سب سے زیادہ افسوس انڈیا اور اس کی خفیہ ایجنسی را کو ہو گا کیونکہ را کے لوگ افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں دہشتگردی کراتے تھے دہشتگردوں کی مالی و فوجی مدد کرتے اور دہشتگردی کے منصوبے تیار کرتے جن میں پاکستانی چوکیوں پر حملوں کے منصوبے شامل ہیں جن میں ہمارے کئی فوجی افسر و سپاہی شہید و زخمی ہوئے اور دیگر سکیورٹی اہلکار بھی شہید ہوئے مگر دہشتگرد کسی بڑے منصوبے میں کامیاب نہ ہو سکے اور انہیں منہ کی کھانی پڑی ۔ درحقیقت اس وقت فوج قوم اور حکومت ایک پیج پر ہیں لہٰذا امریکہ کی دھمکیوں سے کوئی بھی مرعوب نہ ہوا نہ فوج نہ حکومت اور نہ ہی قوم۔ امریکہ نے پاکستان کو دبانے کے مختلف حربے استعمال کئے فوجی و مالی امداد بند کردی مشکلات کے باوجود پاکستان نے پرواہ نہ کی اور امریکہ کا کوئی دبائو قبول نہ کیا۔ اس حوالے سے وزیر اعظم عمران اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا دلیرانہ کردار انتہائی شاندار رہا امریکہ کی حکومت بھی دو طرح کے طرز عمل کا شکار رہی امریکی صدر ٹرمپ اور ان کے وزراء کا پاکستان کے حوالے سے موقف الگ تھا جبکہ پنٹاگان اور امریکی فوجی قیادت پاکستان کے حوالے سے مختلف سوچ رکھتی تھی۔ فوجی قیادت سمجھتی تھی کہ پاکستانی تعاون کے بغیر ہم افغانستان میں کچھ نہیں کر سکتے امریکہ کی سیاسی قیادت ڈو مور کا مطالبہ کرتی تھی جبکہ فوجی قیادت دہشتگردی کے خلاف جنگ اور خطے میں امن کے لئے پاکستان کے کردار کی حامی تھی جب امریکہ کا کوئی فوجی جرنیل پاکستان آتا تو وہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی عوام اور فوج کی قربانیوں اور کامیابیوں کے معترف تھے ایسا لگتا ہے کہ امریکی صدر اور ان کے مشیروں نے امریکی فوجی قیادت کے مشوروں اور موقف کو تسلیم کیا اور انہوں نے طالبان سے مذاکرات کیلئے پاکستان کی مدد کا طلبگار ہوا اور پاکستان نے طالبان کو مذاکرات کیلئے آمادہ کرنے کی ذمہ داری پوری کردی امریکہ کے خصوصی نمائندے برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے بھی مذاکرات میں مثبت پیش رفت کا اعتراف کیا ہے اور وہ آئندہ چند روز میں افغانستان حکومت کے قائدین سے بھی مشاورت کریں گے اور توقع ہے کہ افغان حکومت اور طالبان قیادت کے درمیان بھی مذاکرات ہونگے افغان طالبان ترجمان زبیح اللہ نے بھی ان ملاقاتوں میں پیش رفت کا اعتراف کیا ہے دیکھیں آگے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ اللہ کرے کوئی معاہدہ طے پاجائے۔ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے بھی کہا ہے کہ پاکستان ہمیشہ اہم رہا ہے اور امریکہ کے ساتھ تعلقات مضبوط ہونگے اور امریکہ کو افغانستان سے بحیثیت دوست مدد کے وعدے سے جانا چاہئے کہ ان کی یہ بات بہت اہم ہے کہ امریکہ کو افغانستان سے نکل کر افغانستان کو بھولنا نہیں چاہئے سیاسی و عسکری مبصرین برملا اس بات کا اظہار کر رہے ہیں کہ اربوں ڈالر افغانستان میں خرچ کرنے اور کثیر تعداد میں فوج رکھنے کے باوجود امریکہ کو افغانستان میں کامیابیاں نہ ملیں افغانستان سے فوجیں واپس بلانے کا فیصلہ کرکے امریکہ نے اپنی ناکامی کا اعتراف کرلیا ہے۔ امریکہ کی طرف سے فوجی و مالی امداد پر پابندیوں کے باوجود اور پاکستان میں مالی بحران کے باوجود وزیر اعظم عمران ان کی حکومت اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے امریکہ کے آگے نہ جھکنے کا فیصلہ کیا وہ انتہائی قابل تعریف ہے جب وینزویلا جیسا چھوٹا ملک ڈٹ سکتا ہے تو پاکستان کیوں نہیں ڈٹ سکتا جبکہ پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے ۔ ماضی میں ہم نے دیکھا ہے جب امریکہ یا دوسرے بڑے ملک جب کسی مسئلے پر دبائو ڈالتے تھے تو سیاسی حکمران کہہ دیتے تھے کہ جناب ہم تو آپ کی بات ماننے کیلئے تیار ہیں ڈومور بھی کریں گے مگر ہماری فوج نہیں مانتی اس کے بعد سارا بوجھ فوجی قیادت پر آجاتا اور فوج کو دبانے کے حربے شروع ہو جاتے۔ اس وقت پاکستان میں سیاسی شور شرابہ عروج پر ہے حکومت اور اپوزیشن میں محاذ آرائی میں زبردست اضافہ ہوگیا ہے ایک دوسرے پر لفظی گولہ باری عروج پر ہے۔ محاذ آرائی حکومت کے لئے بہت نقصان دہ ہے عمران خان حکومت نے بیک وقت بہت سے محاذ کھول لئے ہیں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر تمام سیاسی جماعتیں اکٹھی ہو گئی ہیں بیورو کریسی عدم تعاون کر رہی ہے انہوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ رولز کے مطابق کام کرو ۔ تحریک انصاف کی حکومت اتنی مضبوط نہیں، سینیٹ میں اکثریت نہیں اس لئے قانون سازی بھی نہیں کی جاسکتی ۔ عوام کو کوئی سہولت دینے کے قابل نہیں مہنگائی میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے لوگ مہنگائی کے ہاتھوں کچلے جا رہے ہیں تاجروں کا کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے ایک کاروبار تھا پراپرٹی کا، اس میں بھی بڑے تو بڑے مڈل کلاس بھی ڈوب گئے ہیں تحریک انصاف سے لوگوں کی توقعات بہت زیادہ تھیں مگر وہ توقعات ٹوٹ رہی ہیں فوجی عدالتوں کا معاملہ زیر التوا ہے اپوزیشن والے فوجی عدالتوں کے معاملے میں بھی اکٹھے ہو گئے پیپلزپارٹی تو بالکل مانی نہیں وہ اس سلسلے میں کچھ رعائتیں چاہتی ہے اگر فوجی عدالتیں نہ رہیں تو کونسی سول عدالت انتہائی سنگین مقدمات میں ملوث ملزمان کوسزا دے گی حکومت کو فوجی عدالتوں کے قانون میں توسیع کے لئے حکمت عملی اپنانا ہو گی اپوزیشن جماعتوں سے مذاکرات کر کے یہ مسئلہ حل کرانا ہوگا ۔

تازہ ترین
تازہ ترین