• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت چل رہی ہے یا نہیں؟ حکومت اہل ہے یا نالائق؟ یہ ایک دلچسپ بحث ہے جسے حزب مخالف نے نہایت کامیابی اور ’’ہم زبانی‘‘ سے شروع کیا ہے اور مسلسل گولہ باری سے یہ تاثر پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے کہ حکومت نالائق ہاتھوں میں ہے۔ میڈیا کو بہرحال اس مہم کا حصہ بننا تھا کیونکہ روزمرہ کے سیاسی موضوعات ہی میڈیا کا ناشتہ اور ڈنر ہوتے ہیں۔ اس سے قطع نظر کہ حکومت کی کارکردگی کیسی ہے اپوزیشن نے متحدہ بیان بازی کے ذریعے یہ تاثر پیدا کر دیا ہے کہ حکمران، حکمرانی کے اہل نہیں۔ اس تاثر کے عوامی سطح پر پھیلائو میں ایک طرف حزب مخالف کی تمام جماعتوں کی مستقل مزاجی نے کام دکھایا ہے اور دوسری طرف حکومتی ٹیم کی کمزور کارکردگی، بعض وزراء کی زبان درازی اور ہوش سے خالی جوشیلی تقاریر نے اہم کردار سرانجام دیا ہے۔ نالائقی یا نااہلی کا تعلق اُن توقعات سے بھی ہے جو تحریک انصاف نے تبدیلی کی صورت میں عوام سے وعدہ کیں لیکن چھ ماہ کے دورِ حکومت میں عوام کو اُن کی جھلک تک نظر نہیں آئی۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس سے قبل کبھی کسی حکومت کو ان الزامات کا سامنا کرنا پڑا؟ حالانکہ سچی بات یہ ہے کہ پاکستان میں مرکز اور صوبوں میں کئی بار ایسی حکومتیں بنیں جو نہ صرف ناتجربہ کار تھیں بلکہ نالائقی کے زمرے میں شمار ہوتی تھیں لیکن سیاسی جماعتیں وسیع تر جمہوری مفاد میں انہیں قبول اور برداشت کرتی رہیں۔ موجودہ حکومت اپوزیشن جماعتوں کا متفقہ نشانہ احتساب کی وجہ سے بنی جس نے تقریباً سبھی مخالف جماعتوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اس حوالے سے حکومتی نالائقی احتسابی عمل کو سیاست سے الگ رکھنے میں ناکامی تھی۔ جلتی پر تیل کا کام وزیراعظم کا غیرممالک میں جا کر اپوزیشن پر کرپشن کے الزامات لگانا اور حکومتی وزراء کا ہمہ وقت یہ راگ الاپنا تھا ورنہ اگر احتسابی عمل کو سیاست سے الگ رکھا جاتا تو شاید اپوزیشن کی توپوں سے اتنی گولہ باری نہ ہوتی کہ بلاول صدارتی نظام اور اٹھارہویں ترمیم جیسے ایشوز پر لانگ مارچ کی دھمکی دیتا حالانکہ یہ دونوں مسئلے موجود ہی نہیں۔ ان پر تنقید محض مفروضوں کی بنیاد پر ہے اور حکومت کی کمزور میڈیا ٹیم ابھی تک ان مفروضوں کے غباروں سے ہوا نکالنے میں ناکام رہی ہے۔ وزیر اعظم کے اعصاب پر اپوزیشن کی کرپشن اس قدر سوار ہے کہ وہ نمل یونیورسٹی کے کانووکیشن پر بھی یہی موضوع لے بیٹھے حالانکہ اس تعلیمی تقریب میں انہیں اپنا تعلیمی وژن، آکسفورڈ کے تجربات اور زندگی کا نچوڑ طلبہ سے شیئر کرنا چاہئے تھا۔ سیاست اور اقتدار میں کامیابی توازن کے اصول میں مضمر ہے لیکن نوجوان، جذباتی اور سیاسی تجربے و بصیرت سے محروم حکومت حکمت عملی کی راہ پر چلنے کے بجائے تابڑ توڑ حملوں میں یقین رکھتی ہے جس کا یہی نتیجہ نکلنا تھا۔ چنانچہ عوامی سطح تک یہ رائے پختہ ہو چکی ہے کہ عمران کی نیت ٹھیک ہے لیکن ٹیم نالائق ہے۔ یقین رکھیں کہ اس تاثر کو توڑنا ہرگز آسان نہیں۔ ویسے یہ حکومتی میڈیا ٹیم کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان ہے کہ وہ اپنی کامیابیاں یا کارنامے عوامی سطح پر اجاگر کرنے میں بھی ناکام رہی ہے اور منفی پروپیگنڈے کا توڑ بھی نہیں کر سکی۔ ورنہ ایسی بات نہیں کہ حکومت نے چھ سات ماہ میں کوئی ڈھنگ کا کام کیا ہی نہیں۔ عوام براہ راست مہنگائی سے متاثر ہوتے ہیں اور اسی پیمانے پر حکومتی کارکردگی کو جانچتے ہیں۔ حکومت نے جو چند ایک اچھے اقدامات کئے ہیں وہ بھی مہنگائی کے سیلاب میں ڈوب کر رہ گئے ہیں اور عوام یہ سنتے سنتے بیزار ہو گئے ہیں کہ مہنگائی اور دگرگوں معاشی صورتحال گزشتہ حکومتوں کی کارکردگی کا نتیجہ ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ تبدیلی کا وعدہ بھی ابھی تک محض خواب ہی ہے۔ حکومت کہہ سکتی ہے کہ بنیادی تبدیلی لانے کے لئے طویل عرصہ درکار ہوتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ تبدیلی کی حکمت ِعملی کی جانب کچھ فوری اقدامات کئے جا سکتے تھے وہ بھی نہیں کئے گئے۔ مثلاً حکمرانوں کے لئے ماضی کی مانند شاہی پروٹوکول کا خاتمہ، انتظامیہ اور خاص طور پر پولیس کی پیشہ ورانہ آزادی اور سیاسی زنجیروں سے مکمل رہائی، لاقانونیت اور سفارش کلچر کا خاتمہ اور میرٹ پر عمل۔ اس طرح کے بہت سے اقدامات ہیں جنہیں کر کے تبدیلی کے عمل کا آغاز کیا جا سکتا تھا۔ جناب عثمان بزدار کی تقرری کے وقت ہی میں نے لکھا تھا کہ ہماری تاریخ میں جب بھی کسی ایسے کمزور شخص کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا جس کا پبلک امیج تھا نہ مضبوط سیاسی و عوامی حمایت اور نہ ہی حکومتی سیاسی پارٹی میں کوئی بااثر حیثیت، اسے مجبوراً اراکین اسمبلی کے تھلے لگنا پڑا جس سے صوبے کی انتظامی مشینری اس قدر غیرموثر ہوئی کہ تعطل کا شکار ہو کر رہ گئی۔ اس وقت پنجاب میں بھی یہی صورت ہے کہ ضلعی انتظامیہ کی تقرری اور رخصتی اراکین اسمبلیوں کی مرہون منت ہے۔ اکثر اوقات ایک ہی ضلع کے اراکین اسمبلی کے مفادات میں ٹکرائو ہوتا ہے جو ضلعی انتظامیہ کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ یاد رکھیں کہ صوبائی انتظامی مشینری اس طرح کی فضا اور پابندیوں میں کام نہیں کر سکتی چنانچہ اس وقت صرف وہی کام ہو رہے ہیں جن کے پس پشت کوئی بااثر رکن اسمبلی ہے۔ محروم طبقوں کی محرومی میں مزید اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ تقرریاں میرٹ کے بجائے اراکین اسمبلی کی سفارش پر ہو رہی ہیں اور غربا کی رسائی اُن تک نہیں۔ صوبائی انتظامیہ کو عملاً معطل کرنے کے لئے یہی کافی ہے کہ افسران کی دھڑا دھڑ تبدیلیاں ہو رہی ہیں اور بعض اوقات ایک ہی عہدے پر اب تک کئی بار تقرریاں کی جا چکی ہیں۔ اس طرح کی بے یقینی کے ماحول میں انتظامیہ سے کارکردگی کی توقع عبث ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وزیر اعلیٰ کی نہ صوبائی انتظامیہ پر گرفت ہے اور نہ ہی وہ سیاسی دبائو اور کارکردگی میں توازن پیدا کر سکے ہیں۔ دوسری بدقسمتی یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ کی ترجیحات واضح نہیں۔ انہیں ترقیاتی منصوبوں کا ادراک نہیں اسی لئے ترقیاتی فنڈز سست رفتار سے استعمال ہو رہے ہیں۔ خطرہ ہے بہت سے منصوبے تشنہ تکمیل رہیں گے۔ امن عامہ کو قائم رکھنے کے لئے قانون کی رٹ کو مضبوط بنانا پڑتا ہے لیکن ہماری آنکھوں کے سامنے قانون کی رٹ کمزور پڑ رہی ہے۔ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بہتری لانے کے لئے جس وژن کی ضرورت ہے وہ کہیں نظر نہیں آتا، صرف وزیر اعلیٰ کی تقاریر تک محدود ہے۔ میرے تجربے اور مشاہدے کے مطابق حکومتوں کی کامیابی میں ہمیشہ ان کی پارٹی کا کردار اہم رہا ہے۔ پاکستان کی موجودہ قیادت اپنی پارٹی سے کٹ چکی ہے، کارکنوں سے رشتے کمزور ہو گئے ہیں، پارٹی نہ متحرک ہے نہ حکومت کے لئے تقویت کا باعث ۔ تنہا حکومت کتنے محاذوں پر لڑے گی؟

بہت سی باتیں رہ گئیں خاص طور پر گزشتہ کچھ دنوں سے حکومت چلانے کے حوالے سے بیورو کریسی کا بہت ذکر ہوا جو میرے نزدیک مبالغوں پر مبنی تھا۔ میں نے گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران حکومتوں کو نزدیک سے بلکہ اندر سے دیکھا ہے اور فیصلہ سازی کے عمل کا حصہ رہا ہوں اس لئے مجھے بیورو کریسی کے اصل رول کا اندازہ ہے۔ مختصر یہ کہ موجودہ حکمران قیادت بالکل متحرک نظر نہیں آتی، عوامی رابطہ مہم ختم ہو چکی ہے، سارے محاذوں پر خاموشی چھائی ہوئی ہے، عملی سرگرمیاں قوم کو گرماتی اور پُرامید رکھتی ہیں۔ سیاسی جنگ صرف ٹی وی چینلوں پر نہیں لڑی جاتی۔ سرگرمیوں اور تحریک کے فقدان سے یوں لگتا ہے جیسے سندھ کے علاوہ ملک میں کوئی حکومت ہی نہیں۔ اسی تناظر سے نااہلی کا تاثر پھوٹتا ہے۔

تازہ ترین