• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا سیاست میں بھی حادثوں کی گنجائش ہوتی ہے؟ امریکی صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ کا خیال ہے، ہرگز نہیں۔ ان کے نزدیک سیاست میں کچھ بھی حادثاتی طور پر نہیں ہوتا بلکہ ہر چیز کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ اگرچہ یہ منصوبہ بندی بھی بہت باریک بینی سے کی جاتی ہے لیکن سیاسی حادثات کی حقیقت تب تک نظروں سے اوجھل رہتی ہے جب تک کسی شریکِ جرم شخص کا ضمیر نہیں جاگ جاتا۔ بالعموم ایسے خوابیدہ ضمیر انتخابات کے قریب جھنجھوڑ کر جگائے جاتے ہیں تو تب بھی یہی تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ قلب و نظر کی یہ تبدیلی حقیقی اور فطری ہے۔ پاکستان میں تو یہ مرحلۂ شوق کئی ماہ قبل طے ہو چکا اور اب اس کے ثمرات اور فیوض و برکات سمیٹے جا رہے ہیں مگر بھارت میں چونکہ چند ماہ بعد لوک سبھا کے انتخابات ہونے ہیں، اس لئے وہاں حادثوں کی گنجائش بڑی حد تک موجود ہے اور شاید موقع کی نزاکت کے پیش نظر فلم ’’The Accidental Prime Minister‘‘ ریلیز کی گئی ہے۔ یہ فلم بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ کے سیاسی کردار اور کانگریس کے ساتھ ان کے ورکنگ ریلیشن شپ کا احاطہ کرتی ہے اور منموہن سنگھ کے میڈیا ایڈوائزر سنجے بارو کی کتاب سے اخذ کی گئی ہے جو اسی نام سے 2014ء میں شائع ہوئی تھی۔ سنجے بارو جو 2004سے 2008ء تک بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ کے میڈیا ایڈوائزر رہے، انہوں نے اپنی اس کتاب میں منموہن سنگھ کو نہایت بے اختیار اور کٹھ پتلی وزیراعظم قرار دیا تھا، جنہیں ایک دن اچانک معلوم ہوا کہ انہیں وزیراعظم کا کردار ادا کرنا ہے۔

اس فلم میں منموہن سنگھ کا نہایت مشکل کردار بہت خوبصورتی سے ادا کیا ہے انوپم کھیر نے، سونیا گاندھی کا کردار ایک جرمن اداکارہ سوزانے کو سونپا گیا ہے جبکہ فلم کا سب سے دلچسپ کردار سنجے بارو کا ہے جو منموہن سنگھ کے میڈیا ایڈوائزر بھی ہیں اور اس کہانی کے راوی بھی، اس کردار میں اکشے کھنہ نے اپنی بہترین اداکاری سے جان ڈال دی ہے۔ کانگریس نے اس فلم کو مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کی سازش اور الیکشن اسٹنٹ قرار دیا ہے اور بعض لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اس فلم کے ذریعے منموہن سنگھ کی تضحیک کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس فلم میں منموہن سنگھ کے کردار کو مہا بھارت میں گنگا کے آٹھویں بیٹے بھیشم سے تشبیہ دی جا سکتی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ نہایت نیک معمر شخص تھا۔ جس میں بذاتِ خود کوئی برائی نہ تھی اور وہ دونوں خاندانوں سے تعلقات رکھنا چاہتا تھا لیکن وہ پانڈو اور کورو خاندان کی باہمی چپقلش کی زد میں آگیا۔ فلم کے ٹریلر کے دوران اسی تناظر میں سوال اٹھاتے ہوئے اکشے کھنہ کہتا ہے:مہا بھارت میں تو دو خاندان تھے مگر یہاں تو ایک ہی خاندان ہے۔ ابتدائی طور پر یہ فلم بھارت میں تنازعات کا شکار ہوئی اور یہاں تک کہا گیا ہے کہ اس فلم کی ریلیز سے پہلے منموہن سنگھ سے اجازت لینا چاہئے تھی۔ اب جبکہ یہ فلم بھارت میں ریلیز ہو چکی ہے تو کئی ریاستوں میں اس پر پابندی لگانے کی باتیں ہو رہی ہیں مگر حیرت انگیز طور پر اس فلم کو پاکستان میں کسی قسم کی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ پاکستان سنسر بورڈ نے بلا حیل و حجت بھارت کی اس سیاسی فلم کو ریلیز کرنے کی اجازت دیدی ہے۔

جب یہ فلم ریلیز ہوئی تو میں سوچ رہا تھا کہ ہم پاکستانیوں کے برعکس بھارت کے لوگ کس قدر بے مروت ہیں۔ ان کے ہاں ایک آدھ حادثاتی وزیراعظم بن گیا تو انہوں نے فلم بنا ڈالی مگر ہمارے ہاں تو ایسے حادثے معمول بن چکے ہیں مگر ہم پھر بھی اس طرح کی گستاخی کا تصور نہیں کر سکتے۔ ہمارے ہاں اس حوالے سے فلم تو نہیں بنتی البتہ جب کوئی گھر کا بھیدی کتاب لکھ کر لنکا ڈھاتا ہے تو پتا چل جاتا ہے کہ کس حادثے کی پرورش کب اور کیسے کی گئی۔ مثال کے طور پر جنرل ضیاء الحق کے قریبی ساتھی جنرل خالد محمود عارف المعروف کے ایم عارف نے ’’ورکنگ وِد ضیاء‘‘ میں اس حادثے کی تفصیل بیان کی ہے جس کے نتیجے میں محمد خان جونیجو وزیراعظم بن گئے۔ مشکل حالات میں کٹھ پتلی کا انتخاب کسی چھوٹے صوبے سے کیا جاتا ہے تاکہ لوگوں کا احساسِ محرومی دور کرنے کی شعبدہ بازی کی جا سکے اس لئے قرعۂ فال سندھی سیاستدانوں الٰہی بخش سومرو اور محمد خان جونیجو کے نام نکلا۔ ایم ایل اے کانفرنس میں تو اس بات پر اتفاق ہوا کہ یہ دونوں نام قومی اسمبلی میں پیش کر دیئے جائیں تاکہ وہ جسے چاہیں قائدِ ایوان منتخب کر لیں، تاہم جنرل کے ایم عارف کے مطابق 18مارچ 1985ء کو سہ پہر تین بجے ایک خصوصی اجلاس بلایا گیا جس میں شرکا کی رائے کے بعد سومرو کو جونیجو پر ترجیح دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کے بعد جنرل ضیاء الحق کی پیر پگاڑا سے ملاقات ہوئی تو پیر صاحب نے اصرار کیا کہ وہ چونکہ پاکستان مسلم لیگ کے بہی خواہ ہیں، اس لئے محمد خان جونیجو کا نام تجویز کریں۔ اس ملاقات کے بعد جنرل کے ایم عارف کے الفاظ میں ضیاء الحق نے اپنے رفقا کے مشورے کو نظر انداز کرتے ہوئے اسٹاف کے ساتھ ڈرامہ کھیلا اور ارکانِ قومی اسمبلی سے ملاقاتوں کے دوران محمد خان جونیجو کے حق میں رائے ہموار کرنا شروع کر دی۔ یوں محمد خان جونیجو حادثاتی وزیراعظم بن گئے۔ ایسا ہی حادثہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں تب ہوا، جب ہمایوں اختر اور عمران خان سمیت کئی رہنما نہائے دھوئے رہ گئے اور بلوچستان کے ضلع نصیر آباد کا غیر معروف ایم این اے ظفر اللہ خان جمالی حادثاتی طور پر وزیراعظم بن گیا۔ ایک اور حادثے کے نتیجے میں چوہدری شجاعت وزیراعظم منتخب ہوئے تاکہ نامزد وزیراعظم شوکت عزیز ضمنی الیکشن میں قومی اسمبلی کے رُکن منتخب ہو جائیں تو یہ عہدہ ان کے سپرد کیا جا سکے۔ ایسا ہی ایک حادثہ 17اگست 2018ء کو رونما ہوا جب عمران خان طویل انتظار کے بعد وزیراعظم بننے میں کامیاب ہو گئے۔ اس حادثے کی منصوبہ بندی کب اور کیسے کی گئی، اس کی مستند تفصیل شاید تب معلوم ہو گی جب چند برس بعد سنجے بارو کی طرح عمران خان کا کوئی میڈیا ایڈوائزر لب کھولے گا۔ منموہن سنگھ کا تو ایک ہی میڈیا ایڈوائزر تھا مگر ہمارے حادثاتی وزیراعظم کے مشیروں اور ترجمانوں کی باقاعدہ فوج ظفر موج ہے۔ تو دیکھئے! ان میں سے کون، کب سنجے بارو کا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین