• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج سال کا آخری دن ہے اور ہر ذی شعور شخص پریشان ہے کہ نیا سال ملک اور قوم کیلئے کیا تحفے یا بربادی لائے گا۔ سیاسی بساط پر ہر ایک اپنے مہرے لگارہا ہے۔ اور اپنی پلاننگ کر رہا ہے اور ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے تو 14/جنوری کی تاریخ دیکر ایک طرح کا کاؤنٹ ڈاؤن شروع کردیا ہے۔ جب لاکھوں لوگ اسلام آباد کی جانب رواں دواں ہوں گے تو ایک نئی زمینی حقیقت ایک خوفناک شکل اختیار کرتی نظر آئیگی۔ ہر سیاسی پارٹی اپنی پوزیشن اس نئی صورتحال کے مطابق بدلتی نظر آ رہی ہے۔ مگر ایک سوال ہر ایک کی زبان پر ہے اور اس کا جواب ملنا آسان نہیں ہے۔ وہ سوال یہ ہے کہ ہماری سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ یعنی فوج اور اصل میں جنرل کیانی کہاں کھڑے ہیں۔ ڈاکٹر قادری سے ہر شخص اور ہر اخبار نویس یا ٹی وی اینکر یہی سوال کررہا ہے کہ کیا آپ کو کسی خفیہ ہاتھ نے اشارہ کیا ہے کہ خاص کر اس وقت آپ اچانک میدان میں پوری تیاری اور ولولے کیساتھ کود پڑے ہیں۔ میری بھی جناب قادری صاحب سے کئی دفعہ بات ہوئی اور وہ حلفاً کہتے ہیں کہ ان کا فوج یا کسی خفیہ قوت سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔ وہ صرف اس ملک کے انتخابی اور سیاسی نظام کو مجبور اور بے یار و مددگار عوام کی بھلائی کیلئے ٹھیک کرنا چاہتے ہیں اور کوئی ایسی غیر قانونی یا غیر آئینی بات نہیں کر رہے جس سے کسی ادارے یا سیاسی پارٹی کو پریشانی ہو۔ میرے اس سوال پر کہ انکے لاہور کے بہت بڑے شو کے بعد کیا انہیں فوج سے کوئی Feedback ملا ہے تو وہ کہتے ہیں قطعاً کوئی رابطہ نہیں لیکن ان کی یہ رائے ہے کہ جب زمینی حقیقت بدلتی ہے تو ہر محب وطن اس نئی صورتحال کے مطابق اپنی پالیسی بناتا ہے۔ گویا ڈاکٹر صاحب کا خیال یہ ہے کہ وہ زمینی حقیقتوں کو تبدیل کرنے نکلے ہیں اور کرکے رہیں گے تاکہ جو خطرات اس ملک کو درپیش ہوگئے ہیں ان کا توڑ کیا جاسکے۔ میرے خیال میں ڈاکٹر صاحب کی نظر میں 2009ء کا لانگ مارچ تھا جس نے جج حضرات کی بحالی کے مسئلے پر زمینی حقیقت کو بدل دیا تھا اور صبح کے 4 بجے جنرل کیانی مجبور ہوگئے تھے کہ اعتزاز احسن کو فون کریں اور وزیر اعظم نیند سے اٹھ کر قوم سے خطاب کریں۔ تو اس دفعہ کیا ہوگا۔ کیا جنرل کیانی پھر کوئی کال کرینگے اور کس کو، میں نے جنرل کیانی کا اور فوج کا خیال معلوم کرنے کیلئے کچھ ریٹائرڈ جرنیلوں سے سوال کئے کہ اپنی رائے بتائیں کہ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہوگا۔ نام تو میں ان کے نہیں بتا سکتا کیونکہ اجازت نہیں مگر جو مجھے بتایا گیا اس کا خلاصہ کچھ یہ ہے ایک جنرل صاحب نے بتایا کہ قادری صاحب نے فوج میں ہر ایک کو ایک سرپرائز دیا ہے کسی کو معلوم اور تعین نہیں کہ ان کا پلان کیا ہے اور انہوں نے کیوں وہ راستہ چنا جس پر وہ نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ جو رد عمل صدر زرداری کا آیا ہے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ان جنرل صاحب نے کہا کہ انکے مطابق جن خفیہ چہروں کا زرداری صاحب نے اپنی لاڑکانہ کی تقریر میں ذکر کیا ہے وہ پنڈی میں نہیں ہیں مگر یہ کوئی نیا ہی اور ایک Game Changer پلان لگتا ہے جنرل صاحب نے اسکے بعد جو بات کی اور جس خدشہ کا اظہار کیا وہ مجھے زیادہ ڈرا دینے والا لگا۔ انہوں نے کہا اور دعا کی یہ ساری گیم ”پرامن“ طریقے سے اختتام پذیر ہو جائے۔ یعنی انہیں خدشہ ہے کہ خون خرابہ بھی ہوسکتا ہے۔ کس کا یہ نہیں معلوم!
کیونکہ ڈاکٹر قادری کے اعلان کے بعد دفاع پاکستان کونسل نے بھی 11/جنوری کو اسلام آباد کی طرف مارچ کا اعلان کردیا ہے جو خود ایک دلچسپ چال لگتی ہے تو میں نے ایک اور جنرل صاحب سے پوچھا تو فرمانے لگے کہ دفاع پاکستان کونسل نے لاہور کی پچھلی میٹنگ میں کراچی میں صرف ایک امن مارچ کا فیصلہ کیا تھا مگر وہ اچانک اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ میں تبدیل ہوگیا کیسے وہ نہیں جانتے۔ اب دفاع پاکستان کونسل، کس حد تک متحدہ قومی موومنٹ، انفرادی لیڈروں میں شیخ رشید اور خود عمران خان کی تحریک انصاف کا ایک بڑا حصہ کافی عرصہ سے یہ الزامات سنتے رہے ہیں کہ وہ فوج اور ایجنسیوں کے اشارے پر اپنی حکمت عملی بناتے ہیں۔ تو جب بھی کوئی ایسی سیاسی کھچڑی پکتی ہے جس میں خفیہ والوں کا ہاتھ نظر آتا ہے یہ سب لوگ اکٹھے ہو جاتے ہیں یہ الزام کبھی ثابت تو نہیں ہوا مگر ایک Perception ضرور بن گیا ہے اور ڈاکٹر قادری کے معاملے میں بھی یہ سب قوتیں اکٹھی ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ اب اگر الطاف حسین، سنی تحریک، دفاع پاکستان کونسل، جس کی حالیہ میٹنگ میں نون لیگ کے غوث علی شاہ بھی موجود تھے، شیخ رشید، کبیر علی واسطی اور کئی سیاسی قوتیں ڈاکٹر قادری کے ساتھ اسلام آباد پر تحریر چوک بنانے پہنچ جاتی ہیں تو زمینی حقیقت تو بدل ہی جائیگی۔ ایک سابق جنرل صاحب نے فرمایا کہ ڈاکٹر قادری صاحب زرداری صاحب کی گیم کھیل رہے ہیں اور الیکشن ملتوی کروا کر وہ زرداری صاحب کی صدارت کو زیادہ لمبا اور مضبوط کردیں گے۔ اور ان جنرل صاحب کے مطابق جنرل کیانی کو بھی یہ Suit کرتا ہے کیونکہ جنرل کیانی اور زرداری صاحب کی ایک بہت گہری Under standing ہے اور دونوں ایک دوسرے کو گرنے نہیں دیں گے۔ یہ رائے میری سمجھ میں تو نہیں آئی مگر کیونکہ ایک فوجی صاحب کی رائے ہے اور وہ حال ہی میں ریٹائر ہوئے ہیں تو میں اسے بالکل رد بھی نہیں کرتا۔ اتنا جانتا ہوں کہ جنرل کیانی آخری وقت تک فیصلہ ٹالتے ہیں اور جب وہ فیصلہ کرلیں تو پھر چاہتے ہیں کہ چند گھنٹوں میں ہی عمل ہوجائے۔ تو قادری صاحب کے لانگ مارچ نے ابھی بہت سے رنگ دکھانے ہیں اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں یہ صورتحال بگڑ نہ جائے اور معاملہ مرنے یا مارنے کی حد تک نہ پہنچ جائے۔ ان کا ایک ہی ہدف نظر آتا ہے کہ عبوری حکومت احتساب کرے اس میں کوئی شک نہیں کہ قادری صاحب لاکھوں نہیں تو ہزاروں لوگوں کو اسلام آباد لاسکتے ہیں اور یہ لوگ ان کے جان نثار ہیں۔ کوئی اس طرح کے جیالے نہیں کہ کھانے کی دیگ دیکھ کر یا سالگرہ کا کیک دیکھ کر دوڑ لگادیں اور چادروں میں بریانی یا کیک باندھ کر گھر روانہ ہو جائیں۔ صدر زرداری نے اپنے نئے لیڈر کی منہ دکھائی کروا دی ہے اور اب یہ سننے کی بات نہیں مگر بڑے بڑے پی پی پی کے لیڈر اور جغادری اور کھلاڑی بلاول کی سیاسی اکھاڑی بصیرت اور ان کے Vision کی تعریفوں میں کالا باغ اور تربیلہ سے بڑے ڈیم باندھ رہے ہیں۔ مگر افسوس کہ خود زرداری صاحب اپنے بیٹے کو حد سے زیادہ آگے بڑھنے دینا نہیں چاہتے اور سارے لاڑکانہ کے شو کے بعد انہوں نے بلاول کے غبارے سے ہوا یہ کہہ کر نکال دی کہ ابھی ان کی تربیت شروع ہوئی ہے اور وہ ٹریننگ کے دور میں ہیں۔ ظاہر ہے جو کوچ انہیں ٹریننگ دیں گے، زرداری صاحب خود ہوں گے یا ان کے مقرر کردہ ، سو جو کوچ خود پانچ سال سوائے رونے دھونے اور شکایتیں کرنے کے اور کچھ عوام کو نہ دے سکا وہ ان کا نیا طالب علم کیسے دے گا۔ بلاول کی پہلی سیاسی تقریر اس تناظر میں دیکھیں تو کوچ کی تحریر ہی نظر آتی ہے کسی Vision یا بلوغت کا مظاہرہ ابھی ہونا باقی ہے مگر جتنا وہ آگے آئیں گے اتنا ہی ان پر سیاسی اور اوچھے حملے بھی ہوں گے اور ان کی تصاویر جو کچھ دن پہلے انٹرنیٹ پر گھوم رہی تھیں اب پھر گردش میں آگئی ہیں جس نے بھی وہ تصویریں بنائیں یا مارکیٹ میں لایا وہ اور اس طرح کی اور تصاویر بھی لاسکتا ہے گویا بلاول صاحب ان قوتوں کے لئے بلیک میل کرنے کا ایک آسان ہدف ہوں گے۔ باقی تفصیل اگلے کالم میں اور ان ”قدوسی صاحب کی بیواؤں“ کا بھی ذکر ہوگا جو آجکل ہر سیاسی دروازے پر دستک دے رہی ہیں کہ کہیں پنا مل جائے۔
تازہ ترین