• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا افسرانِ بالا اسٹاف کو دیر تک رُکنے کا حکم دے سکتے ہیں؟

آپ کے مسائل اور اُن کا حل

سوال:۔ آج کل یہ عام ہوگیا ہے کہ افسر یا کمپنی کا مالک عین چھٹی کے وقت آکر آفس کے اسٹاف کو چھٹی کے بعد بھی کام کرنے پر مجبور کرتاہے۔ صبح کےلیے ان لوگوں نے ٹائم مشین لگائی ہوتی ہے، جب کہ شام کو جانے کا کوئی وقت نہیں ہوتا۔ اس بارے میں ازروئے شریعت آپ کیا فرماتے ہیں ، ملازموں کو ان کےفرائض تو آپ یاد کراتے ہیں، مگرکمپنی مالکان کو کیا نصیحت فرمائیں گے؟ (اقبال خان)

جواب:۔ ملازم صرف مقررہ وقت میں حاضر رہنے اورکام کرنے کاپابند ہے۔اگر مالک اس سے اضافی خدمت لیتا ہےتو ملازم کی قلبی رضامندی بھی ضروری ہے اور اسے اس کی خدمت کامعقول معاوضہ بھی ملناچاہیے۔جو مالکان یا افسران اپنے ماتحتوں سے زائد کام یا وقت لیتے ہیں ، ماتحت عملہ نہ چاہتے ہوئے بھی ٹھہرنے اورکام کرنے پر مجبور ہوتا ہے، وہ ملازمین کا ناجائز استحصال کرتے ہیں اورجس قدر اضافی خدمت یا وقت ملازمین سے لیتے ہیں ، وہ ان کے لیے ناجائز ہوتی ہے ۔اس اضافی وقت میں کام کرنے سے اگرکوئی کمائی ہو تو وہ مالکان کے لیے پاک نہیں ہوتی ،کیونکہ بدون عوض حاصل ہوتی ہے۔یہ حکم جس طرح دیر تک ملازموں کو روکے رکھنے کا ہے، اسی طرح اگر مالک یا افسر مقررہ وقت سے قبل ماتحت کو بادل نخواستہ آنے پر مجبورکرتا ہے یا ماحول ایسا بنادیتا ہے کہ جس میں ملازم وقت سے پہلے آنےپر مجبور ہو تو اس کابھی یہی حکم ہے، البتہ اگرقرائن سے واضح ہوکہ کوئی ملازم خوش دلی سے شروع یاآخر میں کچھ زیادہ وقت دیتا ہے، تو جائز ہے، مگر اسے معمول پھر بھی نہیں بنایاجاسکتا،کیونکہ کسی سے مستقل طورپر زیادہ وقت لیاجائے اور اسے اس کی خدمت کامنصفانہ بدل بھی نہ دیا جائے اور اس کے باوجود وہ دل سے رضامند بھی ہو ،ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ آپ کے جواب میں اضافہ بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مالک اور ملازم کے تعلق کی نوعیت ہر جگہ مختلف ہوتی ہے ۔اگر کسی جگہ صورت حال یہ ہو کہ مالک کامعاملہ ملازم کے ساتھ لچک اور چشم پوشی کاہو اور وہ بجائے شرائط ملازمت کے درگزر کامعاملہ کرتا ہوتو پھر ملازم کو بھی اصولوں پر ڈٹ جانا اور شرائط ملازمت پر اصرارکرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ یہ بات اس لیے درج کی کہ احسان کا معاملہ دوطرفہ ہونا چاہیےاور شریعت جب دوطرفہ معاملے میں فریقین سے مخاطب ہوتی ہے تو وہ ہر فریق سے یوں مخاطب ہوتی ہے کہ گویاساری ذمہ داری اسی کی ہے اور اسے حق طلبی سے قبل ذمے داری کی ادائیگی پر غور کرنا چاہیے۔(سنن ابن ماجہ (2/ 817)شامی(6 / 69، کتاب الاجارہ، ط، سعید)

تازہ ترین