• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رُتبے، عہدے یا اختیار و اقتدار کا نام آتے ہی پاکستانیوں کے ذہن میں تین تصور ابھرتے ہیں۔ پہلا ٹیڑھی ناک پر بھّدی عینک ، ان تراشیدہ ریش ، الجھے بال ، تمیز سے عاری زبان اور تاثیر سے عاری لسان ۔۔۔ ظاہر ہے یہ تجزیہ بردار دانشور ہے۔ دوسرے۔۔اکڑا لٹھا ، کڑ کڑ کرتا سوٹ ، سرخ مو زے ، بالی کے شوز ، بڑی مو نچھوں والا گارڈ لے کر نمبر پلیٹ کے بغیر جیپ پر اِترانے اور عوام میں اُترنے والا ، لیڈر ہی ہو سکتا ہے ۔ تیسرا با وردی اسٹیٹس ہے ۔ خواہ وہ رنگدار ہو یا کالا شاہ یا خاکی ۔۔یہ تینوں ایسے پہاڑ ہیں جن پر کو ئی عام آدمی ، مڈل کلاسیا یا بندئہ خداچڑھنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا اسی لئے میں نے اسے اسٹیٹس کوہ یعنی مرتبے کا پہاڑ قرار دیا ہے ۔ یہ ڈینگی سے زیادہ دہشت ناک، دل کی جعلی دوائیوں سے بڑھ کر تیز اب ناک اور کھانسی کے زہر ناک شربتوں سے زیادہ خوفناک اور ہلاکت خیز وباء ہے جس نے پاکستان کے پورے معا شرتی تانے بانے کو جکڑ رکھا ہے۔ یہ وہ علم ہے جس پر اس قوم کے بڑوں کی اجارہ داری ہے اور پو ری دنیا میں ہمارا کو ئی مقابلہ نہیں کر سکتا ۔اس اعتبار سے اسٹیٹس کوہ کا ہر بڑا "علامہ" ہے اور علّامے کی یہ فصل مشروم گروتھ کے ریکارڈ ز تو ڑ رہی ہے ۔ مثال کے طور پر ہم سارے دھرنے دیتے ہیں ۔۔ جب ہمیں ضرورت ہو تو دھرنا عین جمہوری ، شرعی، آئینی ، قانونی اور اخلاقی طریقہ احتجاج بن جا تا ہے لیکن کو ئی اور دھرنا دے تو وہ دہشت گردی کو دعوت دے رہا ہو تا ہے اور دھرنا گاندھی جی کے مرن برت کی نقل کہلاکر چھونے کے قابل بھی نہیں رہتا ۔ پاکستان میں کو ن سی سیاسی جماعت ، شخصیت اور گروہ ہے جس نے شارٹ مارچ ، لانگ مارچ اور ڈبل مارچ نہ کیا ہو ۔۔؟جب ہمیں ضرورت ہو تو مارچ جو ن جو لائی کے پگھلتے مو سم کا ہو یا دسمبر جنوری کے آئس کریم سیزن کا ۔۔ سب جائز اور سب حلال۔ لیکن کو ئی اور کرے تو ما رچ لشکر کشی ، جمہورکی دشمنی ، قانون شکنی اور آئین کی پاما لی بن جا تا ہے ۔
آپ اسے قدرت کا مذاق نہ سمجھیں بلکہ میری قسمت کہہ دیں کہ میرا لاء چیمبر جیو اور جنگ گروپ دفاتر سے متصل جناح ایونیو کی پارلیمنٹ کی جانب آخری بلڈنگ میں ہے جہاں سے سا ری شاہراہ دستور ، مارگلہ اور بری امام کا علاقہ بشمول رتبے ،عہدے اور اختیار و اقتدار کے سارے مراکز نظر آتے ہیں ۔ میں اس ڈی چوک میں روزانہ بیٹھتاہو ں جہاں ہر احتجاج ، ہر مارچ ، ہر ریلی اور ہر دھرنا اختتام پذیر یا انجام پذیر ہو تا ہے ۔ اس لئے 2013ءء کے پہلے دھرنے یا لانگ مارچ کی میزبانی کے شرف سے بھی بھاگ نہیں سکوں گا۔ وکلاء ، سول سو سائٹی ، مذہبی گروہوں ، سیاست کاروں ، سیاسی پنشنروں ، گمشدہ اور لاپتہ عوام کے عشروں سے دکھی اور ہمیشہ سے بے یارو مددگار لواحقین کے سارے دھرنے ، مارچ اور احتجاج اسی چوک میں ہو تے ہیں ۔ لیکن دل سے زبان سے ، اندر سے یا اپر سے جو کوئی اسٹیٹس کو ہ کے خاتمے کا نعرہ لگا کر مارچ کرے اس کا مارچ لشکر اور اس کی اسلام آباد آمد لشکر کشی ۔۔ اسکا دھرنا جمہوریت دشمن اور اس کے عوام پتھر کے صنم سمجھے جاتے ہیں ۔ یہ بھی رتبہ برداری کے ماہرین کا کمال ہے کہ کسی اور کی باری ہو تو آئین پر لیٹر اینڈ اسپرٹ کے مطابق یعنی لفظوں اور روح کے ما تحت عملدرآمد ضروری ۔۔لیکن اپنی دُم پر پاوٴں آنے لگے تو پھر آئین کی تشریح ، تعبیر اور تفسیر صرف اتنی کہ اس کے ذریعے رُتبے کی اناء کے پہاڑ کو نہ چھیڑا جائے ورنہ چھڑنے والا "خارجی "تصورہو گا ۔
آج وطن عزیز میں سارے بڑے مسائل اور مشکلات اور انتہائی بڑی گمبھیرتا ، اسی اسٹیٹس کوہ کی پیداوار ہے ، اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ آج پاکستان کا سب سے بڑا اندرونی مسئلہ امن و امان اور ریاست کے اندر ریاست کا قیام ہے ۔ اس کی تلاش میں ہمیں پہاڑوں پر چڑھنے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی بارڈر تلاش کرنے کی۔ آپ کسی سرکاری محکمے کے افسروں سے ملئے ہر ایک کا اپنا قانون اور ہر ایک کی اپنی ریاست ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے ہر فرقہ اپنے مسلک کو راہِ راست اور باقی سب کو گمراہ سمجھتا ہے ۔ اسی پر بس نہیں آپ سیاسی جماعتوں کو دیکھ لیجئے ہر جماعت کے اندر ایک ریاست مو جود ہے کسی ریاست میں خلافت ہے کسی میں ملو کیت۔۔ ایک چیف ہے اور باقی سا رے ریڈ انڈین ۔۔
کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے۔۔!میڈیا ، سیمیناروں اور ٹاک شوز میں اٹھنے والی یہ آواز آخر کار الیکشن کمیشن آف پاکستان کے کانوں تک بھی پہنچ گئی اور الیکشن کمیشن کو بھولا بسرا پو لیٹیکل پارٹیز آرڈر مجریہ 2002ءء بھی یاد آہی گیا ۔جو در حقیقت 1976ءء کے سیاسی جماعتوں کے ایکٹ کی بگڑی ہو ئی شکل ہے ۔ اور اس کی دفعات 13اور 14جس میں سیاسی جماعتوں کے لئے لازم ہے کہ وہ انتخابی نشان حاصل کرنے کے لئے سیاسی جماعتوں کے اندر انتخابات کا سر ٹیفکیٹ پیش کریں ۔ الیکشن کمیشن نے بہت دیر سے سہی مگر درست اقدام کیا جس کے ذریعے سیاسی جماعتوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے اندرونی انتخابات کے انعقاد کا سرٹیفکیٹ پیش کریں۔دلچسپ بات ہے کہ آج پاکستان میں جماعتوں کے اندر انتخابات کے حوالے سے سیاسی پارٹیاں دو حصوں میں تقسیم ہیں ایک وہ جن کے اندر انتخابات ہو چکے ہیں اور دوسری وہ جہاں الیکشن ابھی تک شجرِ ممنوع ہیں اور اس طرح سیاسی جماعتوں نے عوام کے ساتھ عشق ِممنوع کا ڈرامہ چلا رکھا ہے ۔ جن سیاسی جماعتوں میں الیکشن ہو ئے ہیں ان کے اندر نہ امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کروائے ہیں اور کاغذات کی اسکروٹنی/جانچ پڑتال ہوئی نہ اہلیت اور نا اہلی کے فیصلے ہوئے اور سوائے ایک جماعت کے نہ ہی کو ئی الیکشن بورڈ بنا۔ الیکشن میں ووٹنگ تو خفیہ طریقے سے ہو تی ہے لیکن کسی سیاسی کنونشن یا خفیہ اجلاس کو نہ تو ٹرانسپیرنٹ پولنگ قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ایسی سلیکشن کو الیکشن کہا جا سکتا ہے ۔ بہر حال سیاسی جماعتیں جانیں اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کا قانونی پیمانہ۔۔
میرے خیال میں پو لیٹیکل پارٹیز آرڈرز کے مطابق سیاسی جماعتوں کے الیکشن منعقد کروانے میں بنیادی کردار الیکشن کمیشن کا بنتا ہے اور اگر الیکشن کمیشن کو باہر رکھ کر کو ئی عمل ہو ا تو وہ قانونی تھا یا ماورائے قانون ۔۔ اس کا فیصلہ بھی الیکشن کمیشن ہی کر سکتا ہے ۔ تذکرہ ہے الیکشن کمیشن کا تو وہ خبر بھی سنتے جائیے جو مارگلہ کے پہاڑوں پر بسنے والا میرا شاہین لے کر آیا ہے ۔ شاہین کی خبر یہ ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان سے ایک بہت بڑا استعفیٰ تیاری کے مراحل میں ہے اور استعفیٰ تیار کرنے والا بڑا نام آئین سے ماوراء فیصلوں ، قانون کے خلاف ایکسرسائز اور برابری کے اصولوں سے ہٹ کر حلقہ بندیوں کے اسٹیٹس کو ہ سے کمپرو مائز کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ یہ بڑا نام اس سے پہلے بھی اس سے بڑے بڑے عہدوں سے مستعفی ہو نے کی تاریخ رکھتا ہے اور اس بڑے نام کے بڑے فیصلے ہمیشہ اصولوں کو بڑا رکھنے کے لئے ہو ئے۔
پاکستان کی ساری سیاسی جماعتیں امریکہ، برطانیہ، فرانس ، کینیڈا اور اٹلی کے انتخابی نظاموں کو عین جمہوریت کہہ کر پانچوں انگلیاں مفادات کے گھی میں اور سر مراعات کی کڑاہی میں ڈالتے ہیں لیکن انہی ممالک کے اندر سیاسی جماعتوں کی تنظیم اور اندرونی انتخاب کے ماڈل کی تقلید نہیں کی جاتی ۔۔۔کیوں؟ اس کی وجہ بھی اسٹیٹس کوہ ہے۔ پاکستان کا معاشی مسئلہ ، بین الاقوامی منڈیوں تک رسائی W.T.Oجیسے مسائل بھی اسٹیٹس کوہ کی پیداوار ہیں۔نجانے کتنے عشروں سے منصوبہ بندی ، خزانہ ، ٹیکس اصلاحات کا نظام اکثر ورلڈ بنک ، IMFاور ایشیائی ترقیاتی بنک کے تنخواہ دار گماشتوں کی دسترس میں رہا ہے ۔ آزاد اسلامی جمہوریہ میں آزا د معاشی یا سیاسی نظام کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ قرض دینے والوں نے 24گھنٹے پہلے ڈکٹیشن بھجوائی ہے کہ غریب عوام کو ملنے والی سَبسڈی کا خاتمہ کیا جائے۔ ظاہر ہے جو پیسے دیتا ہے شرائط اسی کی ہو تی ہیں۔ مانگنے والا شرطیں نہیں لگا سکتا۔ یہ روّیہ برانڈڈ لو گوں کے علاوہ عام آدمی کی سمجھ سے با لا تر ہے کہ اب مختلف حلقوں ، علاقوں اور مسائل پر بولنے کے لئے بھی "لائسنس ٹو اسپیک"چاہئے۔ اور وہ جو لائسنس جاری کرتے ہیں انہوں نے مفت نہ بو لنے کی قسم کھا رکھی ہے ۔ ان حالات میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین مجریہ 1973ءء کے آرٹیکل نمبر 19میں ترمیم کرنی چاہیے کہ جابر سلطان کے سامنے کلمہء حق کہنے کے لئے لائسنس ٹو اسپیک لینا ہو گا ۔ اسٹیٹس کوہ کی سپاہ نہیں چاہتی کہ صورتحال انکے کمانڈ داروں کے ہاتھوں سے نکل جائے ۔ اس لئے انہیں اسٹیٹس کوہ کے خلاف ہر آواز اجنبی ، ہر انداز بے ڈھنگا ہر دلیل بو دی، اور ہر نعرہ کریکر کی آواز جیسا لگتا ہے جس پر سننے والے کو پہلے پہل دھماکے کا شبہ ہو تا ہے ۔ اب تو اسٹیٹس کو ہ اس قدر کینسر صفت ہو گیا ہے کہ اس سے بے جان قلم بھی محفوظ نہیں رہ سکے ایسے قلم جنہوں نے ایک کی مدح سرائی اور باقیوں کی ہجو لکھنے کو علم الکلام کی معراج سمجھ رکھا ہے۔ جمہوریت کوہِ ندا سے صدا دیتی ہے کہ سب کوبولنے دو شاید کمزور آواز یں مل کر کمزور ہو تے اس بیمار نظام کو عوامی طاقت کا گلوکوز چڑھا سکیں۔ اگر طاقت کا سر چشمہ واقعی عوام ہے تو پھر خواص ، عوام کے حق میں اٹھنے والی ہر آواز پہ کیوں بدک جاتے ہیں۔۔؟
تازہ ترین