• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملکی معیشت بلاشبہ اس وقت شدید دبائو میں ہے مگر دنیا بھر کے ممالک ایسےحالات میں بھی بعض مدوں میں آسانیاں نکال لیتے ہیں۔ جمعرات کے روز جس حج پالیسی 2019ء کی منظوری دی گئی، اچھا ہوتا کہ اس میں 1971ء کے سقوطِ مشرقی پاکستان کے فوراً بعد کے سنگین حالات میں ملحوظ رکھے جانے والے جذبے کی بازگشت نظر آتی جس میں نہ صرف زرمبادلہ کے مسائل کے باوجود عازمین حج کو بڑی تعداد میں حجازِ مقدس بھیجنے کا رجحان نمایاں رہا بلکہ ہر قافلے کی روانگی کے وقت اہم حکومتی شخصیات کی موجودگی کا سلسلہ شروع کیا گیا اور ہر بار عازمین حج سے بصد احترام درخواست کی جاتی رہی کہ وہ اس مقدس سفر میں وطن عزیز کے مسائل کے حل کی دعائیں مانگیں۔ ان فراخدلانہ اقدامات اور حاجیوں کے دلوں سے نکلی ہوئی دعائوں کی تاثیر کو پوری قوم نے بعض مشکلات میں کمی کی صورت میں دیکھا بھی۔ اس بات کو سراہا جانا چاہئے کہ اس بار پورے حج پراسیس کی نگرانی خود وزیراعظم عمران خان کریں گے مگر یہ بات بھی ملحوظ رکھنے کی ہے کہ حج اخراجات میں گزشتہ سال کی نسبت ایک لاکھ چھپن ہزار نو سو پچھتر روپے کا یکمشت اضافہ ان معمر افراد کے تمام اندازوں سے بعید ہے جو فریضۂ حج کی ادائی کی آرزو کے ساتھ زندگی بھر اپنی محنت مشقت کی کمائی سے پائی پائی بچانے کے باوجود اچانک زادِ راہ کھو بیٹھے ہیں۔ سفرِ حج آسان بنانے کے لئے پڑوسی ملک بھارت میں سبسڈی کی پیشکش جبکہ دوسرے ممالک میں کئی دیگر طریقے اختیار کئے جاتے ہیں۔ وطنِ عزیز میں حاجیوں کی کیٹیگریز بنا کر آسودہ حال لوگوں کو ان کے وسائل کے مطابق سہولتیں دینے میں مضائقہ نہیں مگر پہلی دفعہ حج و عمرہ پر جانے والے اور نادار افراد کو بھی حرمین شریفین بھیجنے کی تدابیر کی جانی چاہئیں۔ اس کے لئے سعودی حکومت سے بات کی جا سکتی ہے جہاں دنیا بھر کے لوگوں کے لئے ثواب جاریہ میں شمولیت کے مواقع پیدا کئے گئے ہیں۔ اپنی شپنگ انڈسٹری کو دوبارہ منظم کرکے ہم سستے حج و عمرہ سفر کے علاوہ تجارتی فوائد بھی حاصل کر سکتے ہیں۔

تازہ ترین