• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگر کوئی کہے کہ صدارتی نظام کی افواہوں میں صداقت نہیں نیز یہ کہ حکومت اٹھارہویں آئینی ترمیم میں ردوبدل کا ارادہ نہیں رکھتی تو اس پر یقین کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ حکومت کے سرکردہ ارکان مثلاً فواد چوہدری، فیصل واوڈا اور زرتاج گل ایک سے زائد بار اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بارے میں تحفظات ظاہر کر چکے ہیں۔ یاد رہے کہ فروری 2018 ءمیں خبر دی گئی تھی کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم چھ نکات سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ موجودہ حکومت قائم ہونے کے بعد سے صدارتی نظام کے قدیمی موید ڈاکٹر صاحب مسلسل صدارتی نظام کی وکالت کر رہے ہیں۔ اور اب 29 جنوری 2019ءکو روز نامہ جنگ ہی میں برادر عزیز نے بھی قائد اعظم کے جولائی 1947ء میں صدارتی نظام کو ترجیح دینے کا مفروضہ دہرایا ہے۔ گویا عرش سے فرش تک ایک ہی نور کی تجلی فروزاں ہو رہی ہے۔ موقع ہے کہ اس معاملے پر خاک نشینوں کی معروضات بھی قلم بند کر دی جائیں۔ دیکھنا چاہئے کہ صدارتی نظام کی وعید اور اٹھارہویں آئینی ترمیم میں کیا ربط ہے؟ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ نے اپریل 2010ء میں دستور کا پارلیمانی تشخص بحال کیا تھا۔ پارلیمانی نظام میں مقننہ کا ایوان زیریں اکثریتی رائے سے وزیر اعظم کا انتخاب کرتا ہے جو حکومت کا سربراہ ہوتا ہے۔ پارلیمانی جمہوریت میں فیصلہ سازی کا سرچشمہ وزیر اعظم کا منصب ہوتا ہے۔ صدارتی نظام کے حامی اختیارات کے منبع کو ایوان وزیر اعظم سے ایوان صدر منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ دستور کا پارلیمانی تشخص بحال کرنے والی اٹھارہویں ترمیم ان کی آنکھ میں کھٹکتی ہے۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کی مخالفت اور صدارتی نظام کی وکالت کے پس پشت وفاقی اکائیوں کو اختیارات کی منتقلی پر اعتراض کارفرما ہے۔ صوبوں کو اختیارات کی منتقلی سے ایک طرف وفاقی وزرا اپنے اختیارات میں کمی پر ناخوش ہیں۔ دوسری طرف مالی وسائل میں صوبوں کیلئے مختص حصے میں اضافے سے ان صاحبان ذی وقار کو تشویش ہے جو مرکزی وسائل کے ذخائر سے مستفید ہوتے رہے ہیں۔ گویا یہ صوبوں اور مرکز میں اختیارات اور مالی وسائل کی تقسیم کی کشمکش ہے۔ اس جھگڑے میں قائد اعظم کو گھسیٹنے کا مقصد اپنے موقف میں وزن پیدا کرنا ہے۔ قائد اعظم نے قیام پاکستان سے پہلے اور بعد ایک ہی موقف بیان کیا کہ پاکستان کے آئینی خدوخال کا فیصلہ دستور ساز اسمبلی کو کرنا ہے۔ 21 مئی 1947 کو رائٹرز کے نمائندے ڈون کیمبل نے پاکستان کے مجوزہ آئینی بندوبست کے بارے میں سوال کیا تو قائد اعظم نے فرمایا’’ پاکستان کی مرکزی حکومت اور وفاقی اکائیوں میں اختیارات کی تقسیم کا فیصلہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کا اختیار ہے، تاہم پاکستان کی حکومت عوام کی نمائندگی پر مبنی جمہوری نظام ہو گا۔ پاکستان کی پارلیمنٹ کو جواب دہ کابینہ حتمی طور پر رائے دہندگان کو جواب دہ ہو گی‘‘۔قیام پاکستان کے بعد 26 فروری 1948ء کو امریکی میڈیا کے نام پیغام میں قائد اعظم نے فرمایا کہ ’پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کو ملک کا آئین مرتب کرنا ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ اس آئین کے حتمی خدوخال کیا ہوں گے۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ ایک جمہوری دستور ہو گا جس میں اسلام کے بنیادی اصول مثلاً شہریوں کی مساوات اور انصاف سموئے جائیں گے۔ بہرصورت پاکستان ایک مذہبی ریاست نہیں ہو گا جسے مذہبی پیشوا کسی الوہی نصب العین کی روشنی میں چلائیں۔ ہمارے ملک میں ہندو، مسیحی اور پارسی موجود ہیں لیکن وہ سب پاکستانی ہیں‘۔

ان دونوں قابل تصدیق اقتباسات کی روشنی میں واضح ہے کہ قائد اعظم دستور ساز اسمبلی پر اپنی رائے مسلط کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے تھے۔ تاہم انہوں نے پارلیمنٹ کو جواب دہ کابینہ اور وفاقی اکائیوں کا ذکر کر کے صدارتی نظام کا پتہ کاٹ دیا۔ اقلیتوں کی مساوی حیثیت کی حمایت اور مذہبی پیشواؤں کے اختیار کی نفی کر کے قائد اعظم نے سیکولر جمہوری پاکستان کا عندیہ دیا۔ قائد اعظم نے پاکستان کی پہلی کابینہ اور وزیر اعظم کو اختیارات دے کر پارلیمانی نظام کی راہ ہموار کی کیونکہ پاکستان وحدانی ریاست کی بجائے ایک ایسے وفاق کے طور پر قائم ہوا تھا جس میں افراد کی بجائے صوبوں نے بطور وفاقی اکائی کے شمولیت اختیار کی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ محمد علی بوگرہ کی حکومت میں پالیمانی دستور کا مسودہ منظور کیا تھا۔ یہ آئین 25دسمبر 1954 ءکو نافذ العمل ہونا تھا لیکن گورنر جنرل غلام محمد نے اپنے اختیارات میں کمی کو مسترد کرتے ہوئے 21 اکتوبر 1954ءکو دستور ساز اسمبلی ہی توڑ دی۔ نئی دستور ساز اسمبلی نے چوہدری محمد علی کی قیادت میں پارلیمانی نظام پر مبنی 1956ءکا آئین منظور کیا۔ اس آئین کے تحت فروری 1959 ءمیں انتخابات منعقد ہونا تھے لیکن اسکندر مرزا نے اکتوبر 1958 میں دستور کی بساط لپیٹ دی۔ پاکستان کی پہلی فوجی امریت نے 1962ءمیں صدارتی نظام پر مبنی دستور مسلط کیا۔ اس دستور کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سیاسی خلا نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد رکھی۔ جنوری 1965ءکے صدارتی انتخاب میں محترمہ فاطمہ جناح کے منشور کا بنیادی نکتہ پارلیمانی جمہوریت کی بحالی تھا۔ 1973 ءمیں بچے کچھے پاکستان کی تمام سیاسی قوتوں نے متفقہ طور پر 1973ءکا پارلیمانی دستور منظور کیا۔ 1977 میں آئین کی معطلی کے بعد جنرل ضیا الحق نے صدارتی نظام مسلط کرنے کا پیڑا اٹھایا۔ ان کی اس خواہش کے پیش نظر آئین کے شعبدہ باز شریف الدین پیرزادہ نے قائد اعظم کی ایک ایسی ڈائری دریافت کی جو لیاقت علی خان، عبدالرب نشتر اور فاطمہ جناح کے علم میں بھی نہیں تھی۔ جنرل ضیا نے 12 اگست 1983 کو مجلس شوریٰ کے سامنے اس ڈائری کا انکشاف کیا۔ اس ڈائری کی حقیقت واشگاف کرنے کے لئے یہی پوچھنا کافی ہے کہ یہ ڈائری کہاں رکھی ہے اور اس کے باقی صفحات پر کیا لکھا ہے؟

جنرل ضیا نے آٹھویں ترمیم اور پھر جنرل مشرف نے سترہویں ترمیم کے ذریعے صدارتی انتظام مسلط کرنا چاہا۔ 2010ءمیں منتخب پارلیمنٹ نے پارلیمانی جمہوریت بحال کر کے وفاقی اکائیوں پر اعتماد ظاہر کیا۔ تاریخ کی اس باز آفرینی سے واضح ہے کہ پاکستان میں جمہوری ذہن مسلسل پارلیمانی جمہوریت کا حامی رہا ہے جب کہ جمہور دشمن قوتیں بار بار صدارتی نظام کا اشقلہ اٹھاتی رہی ہیں۔ پاکستان صدارتی نظام کے دوران ٹوٹا جب کہ 18ویں ترمیم کے بعد سے صوبائی ہم آہنگی کی صورت حال بے حد اطمینان بخش ہے۔ پارلیمانی جمہوریت اور صوبائی خود مختاری کے اصول پاکستان کی سلامتی اور استحکام کی ضمانت دیتے ہیں۔ صدارتی نظام کے لئے دستور کو منسوخ کرنا پڑے گا۔ پاکستان کے ساتھ اس سے بڑی دشمنی ممکن نہیں۔ ہم جمہور کی اجتماعی فراست پر بھروسہ رکھتے ہیں اور ذہانت کے خود ساختہ پتلوں سے پناہ مانگتے ہیں۔ اے روشنی طبع تو بر من بلا شدی۔

تازہ ترین