• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بچوں کی پتھرائی ہوئی آنکھیں اور ان کے کپڑوں پہ اپنے ہی ماں باپ کے خون کے چھینٹے ہمارے معاشرے کی وہ بھیانک تصویر ہے جس سے ہم لاکھ منہ موڑیں لیکن یہ تلخ حقیقت ہمارے لاشعور سے کبھی مندمل نہیں ہوگی۔ سینکڑوں زرخیز ذہنوں کو جنم دینے والے میرے آبائی شہر ساہیوال کے نام نے شہرت بھی پائی تو ایسی کہ ہماری اجتماعی جہالت کو بیچ چوراہے میں ننگا کردیا۔ ہماری تہذیب پہ وہ طمانچہ مارا کہ جس کو جتنا بھی سہلائیں درد ختم ہونے والا نہیں ،ہمارے ضمیر پہ وہ بوجھ ڈال دیا جسے تاحیات اب سہنا ہوگا۔ جو مذہب ایک بے گناہ انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دے، اس کے ماننے والے تیرہ سالہ معصوم اریبہ اور اس کے والدین کو اس سفاکی سے پلک جھپکنے کی دیر میں چیونٹی کی طرح مسل دیں تو بچ جانے والے بچوں عمیر ،منیبہ اور ہادیہ کوہم کیسے جان کی حرمت کا درس دے پائیں گے۔گورنر پنجاب چوہدی سرورنے بجا فرمایا کہ ایسے واقعات دنیا بھر میں رونما ہوتے ہیں لیکن کاش وہ قوم کو یہ بھاشن دینے سے پہلے ایسے واقعات کے رونما ہونے کے بعد ان مہذب معاشروں کے رد عمل سے بھی آگاہ کر دیتے جہاں ان جیسا کوئی حکومتی عہدیدار ایسی دیدہ دلیری سے متاثرین کے زخموں پہ نمک نہیں چھڑکتا، جہاں کوئی فیاض چوہان اس طرح کے گھنائونےجرم کے مرتکب افراد کو حکومت کی ترجمانی کرتے ہوئے کٹہرے میں کھڑے کئے بغیراگلے ہی لمحے بری الذمہ قرار نہیں دے دیتا، جہاں کوئی فواد چوہدری ریاست کا موقف دیتے ہوئے مقتولین کا خون خشک ہونے سے بھی پہلے ان کی بے گناہی پہ شک ظاہر نہیں کرتا، جہاں کوئی راجہ بشارت تحقیقات سے پہلے ہی معصوم افراد کو گناہ گار قرار دینے کا فیصلہ صادر نہیں فرماتا ، جہاں کوئی چیف ایگزیکٹو والدین اور بہن کو کھو دینے والے بچوں کو پھول پیش نہیں کرتا اور جہاں ماورائے عدالت قتل کرنے والے اہلکاروں کا اپنا ہی ادارہ اس طرح فرضی اور من گھڑت کہانی پہ مبنی سرکاری اعلامیے جاری نہیں کرتا۔ وطن کی مٹی سے کوسوں دور دیارغیر میں اپنی جوانی گزارنےوالے گورنر پنجاب کو اگر صاف گوئی کا اتنا ہی شوق تھا تو مہذب معاشرے کا یہ رخ بھی عوام کو بتاتے کہ دنیا کے سب سے ترقی یافتہ ملک امریکہ میں اگر سترہ سالہ سیاہ فام انٹون روز، کار روکے جانے پہ خوف زدہ ہو کر بھاگنے کی کوشش میں پولیس افسر کی فائرنگ سےمارا جائے تو واشنگٹن انتظامیہ سمیت پورا امریکہ معصوم روز کی ہلاکت کا ذمہ دار خود کو تصور کرتا ہے، بوسٹن اور پنسلوینیا جیسی یونیورسٹیاں تحقیقاتی مقالے شائع کرتی ہیں جن میں یہ کھوج لگانے کی جستجو کی جاتی ہے کہ ایسے واقعات کے معاشرے بالخصوص سیاہ فام آبادی کی ذہنی صحت پہ کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں ، جہاں محض ایک پولیس اہلکار کو سزا دینے میں تمام توانائیاں خرچ کرنے کی بجائے پولیس کو اکیسویں صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے، اہلکاروں کی بھرتی سے، ان کی تربیت ، جانچ پڑتال اور شہریوں سے برتائو کے پورے نظام کو جدید خطوط پہ استوار کرنے کے اقدامات کا آغاز کر دیا جاتا ہے، جہاں مستقبل میں روز جیسے بے گناہوں کی جان کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ایوان نمائندگان اور سینیٹ نئی قانون سازی کے لیے سوچ بچار کرتے ہیں ، چوہدری سرور صاحب جب آپ اور دیگر حکومتی ذمہ داران مسند اقتدار پہ بیٹھ کر ادھورا سچ بولیں گے یا عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کریں گے تو ساہیوال جیسے سا نحات رونما ہوتے رہیں گے۔ کاش آپ کی حکومت نے اس سے ہی سیکھ لیا ہوتا کہ رائو انوار کو بہادر بچہ قرار دیا گیا تھا تو معصوم اریبہ کو والدین سمیت اس سوچ کی بلی چڑھنا پڑا۔ جب تک ہم اپنے اپنے رائو انواروں کو تحفظ دیتے رہیں گے اور اس نظام کو تبدیل کرنے کے لیے قدم نہیں اٹھائیں گے تب تک ایسے سانحات ہمارا مقدر بنتے رہیں گے، دائرے کے اس سفر کی ذمہ داری ہم ایک دوسرے پہ ڈال کر کبھی منزل حاصل نہیں کر سکتے لیکن صد افسوس کہ طعنہ زنی کے اس رویے کی بدولت اس تاریک سرنگ کے آخرے سرے پہ بھی روشنی کی کوئی کرن دکھائی نہیں دے رہی۔ حسب روایت واقعے پہ تقاریر ہوئیں ، مذمت کی گئی اور پھر آستینیں چڑھا کر اور گلے پھاڑ کر ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرایا گیا، کسی نے کسی کو سانحہ ماڈل ٹائون کا مرتکب قرار دیا تو کسی نے دوسرے کو سانحہ اے پی ایس یاد دلانے میں تامل نہیں کیا اور کسی نے سانحہ ساہیوال کے طعنے دے کر ایک ہی صف میں کھڑے ہونے کا تاثر دیا۔ شور شرابے، احتجاج اور طنز کے دوران کسی طرف سے یہ آواز سننے کو نہ ملی کہ بس بہت ہو چکا اب 1861 کے پولیس نظام کو کسی عجائب گھر کی زینت بنا دینا چاہئے ،پولیس کو عوام کا حقیقی محافظ بنانے کے اقدامات کریں، کوئی قانون ساز پولیس اہلکاروں کی تربیت اور مجرموں سے نمٹنے سے لے کر کمیونٹی پولیسنگ کے قیام میں موجود خامیوں کی نشان دہی کرتا نظر نہ آیا، کسی کو یہ تجویز دینے کی توفیق نہ ہوئی کہ ان وجوہات کا جائزہ لیا جائے جن کے باعث ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں ، کسی نے زندہ بچ جانے والے معصوم بچوں کی نفسیاتی بحالی کو ترجیح قرار دے کر مناسب اقدامات کرنے کی سفارش نہ کی، کوئی ادارہ جاتی میکانزم تشکیل دینے کی ضرورت پہ زور دیتا دکھائی نہ دیا، کسی نے یہ سفارشات پیش کرنے کی زحمت گوارا نہ کی کہ ایسے واقعات کے بعد متعلقہ اداروں اور حکومت کا رد عمل کس نوعیت کا ہونا چاہئے۔ سانحہ ساہیوال کے بعد قانون سازوں کی طرف سے ایک دوسرے پہ کی جانے والی اس طعنہ زنی پہ کوئی اچنبھا نہیں کیونکہ جب سوچ ہی یہ ہو کہ ایسے واقعات تو دنیا بھر میں رونما ہوتے ہیں تو پھر رویے بھی ایسے ہی جنم لیتے ہیں، یہاں صرف اتنی گزارش کہ گورنر پنجاب جیسے ارباب اختیار کاش پورا سچ بولیں کہ دنیا میں ایسے واقعات رونما ضرور ہوتے ہیں لیکن وہاں ان پہ سیاست نہیں کی جاتی بلکہ ان سے سبق سیکھا جاتا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین