• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عظیم انسان اور عظیم تخلیق کار مصنف فیودردستو فیسکی کے خیالات کا ایک اظہاریہ پیش خدمت ہے۔ لکھتے ہیں’’آدمی کمینگی اور بے حیثیتی کی انتہائی پستی میں بھی اتر جائے تو اس میں بھی ایک راحت اور مسرت ہے‘‘ اور یہ کہ ’’وحشیانہ، بے دریغ اور بے حساب اختیار بھی، چاہے وہ ایک مکھی پر ہی کیوں نہ ہو، ایک قسم کا سامانِ لطف و انبساط رکھتا ہے، آدمی اپنی فطرت سے بے درد ہے اور اذیت پہنچانا اسے پسند ہے‘‘۔ گویا فیودرنے اسرار حیات کے ایک پہلو کی نقاب کشائی کی ہے یعنی کمینگی اور بے حیثیتی میں بھی مسخ فطرت لوگ لذت حاصل کر سکتے ہیں، اگر کہیں بے دریغ اور بے حساب اختیار کی وسعت سے بھی دامن بھرپور ہو تب انسانی معاشرہ ایسے لوگوں کی سیاہ قلبی سے کیسے محفوظ رکھ سکتا ہے؟ ہمیں سانحہ ساہیوال اس بے دریغ، وحشیانہ اور بے حساب اختیار کے انسانیت کش چہرے کی پہچان کراتا ہے! سانحہ ساہیوال کے وقوع پذیر ہوتے ہی پاکستان کے حق پرست اجتماعی ضمیر کیبہرحال تصدیق ہوئی ہے، پتہ چلا ابھی پاکستان کی دھرتی اور پاکستانی قوم ذہناً اور باطناً ریاستی فورسز کی قربانیوں کو تسلیم کرنے کے باوجود اسکے بے دریغ اور بے جا اختیار کے سامنے مکمل مزاحمت کا عقیدہ رکھتی ہے۔ چنانچہ ہمیں سانحہ کی تفصیلات (جس سے اب تک ہر شخص پوری پوری معنویت کیساتھ آگاہ ہو چکا ہے) کے بیانیے پر جانے کے بجائے ان افکار یا سوالات پر مکالمے اور معرکات کے ذریعے حتمی نتائج متعین کرنے کے راستہ پر چل کر کسی سچائی پر ٹھہر جانا چاہئے پاکستان کے ستر برس بطور عینی شہادت جس کی پشت پر کھڑے ہوں۔

انتظامی ریاستی فورسز، سول یا غیر سول تمام وفاقی اور صوبائی سول محکموں کے اہلکار، پاکستانی شہری ان کی ’’رعایا‘‘ ہیں۔ 14؍ اگست 47کو بھی یہی سچائی تھی، آج 2019ءکو بھی یہی سچائی ہے، اس کی معروفیت کا انسانی سطح پر کوئی امکان نہیں، قدرت کا طاقتور ہاتھ ظالمانہ پاپوں کے بھرے ہوئے گھڑے الٹ دے، یہ علیحدہ بات اور ہمارے دائرہ اختیار سے باہر ہے تاہم دائرہ دعا میں ہم قدرت کی اس طاقت کے ہر لمحہ منتظر ہیں۔

حتمی نتیجے پر مبنی ’’سچائی‘‘ متعین کرنے سے پہلے ہم چند صفحات پر ماضی کی چند مثالوں اور سانحہ ساہیوال سیاستدانوں اور دانشوروں کی سوچوں کا تذکرہ ناگزیر سمجھتے ہیں، اس تذکرے سے اس حتمی سچائی کے تعین کی منطقی بنیاد کا دنیاوی لحاظ سے ’’فطری‘‘ ہونا ثابت ہو گا۔ ماضی کی یہ تاریخ ان فورسز کے سامنے ہماری غلامی اور بے بسی کا ’’ازلی و ابدی‘‘ اشتہار ہے، 72,70برس ایسی حالت میں کافی و شافی ہوتے ہیں، لہٰذا ’’ازلی و ابدی‘‘ کی اصطلاح کا ذکر شدت پسند مبالغہ آرائی میں نہیں آتا اب ماضی سے اس غلامی و بے بسی کی ’’مثالوں‘‘ کی توہین آمیز اور جان لیوا کہانی کے چند واقعات۔

(1) تھانہ سٹی مریدکے کے انچارج نے ڈکیتی کے الزام میں تین نوجوانوں کو گرفتار کیا اور سرعام کشمیر چوک، پریس کلب چوک اور ریل بازار میں ان کی چھترول کرواتا رہا۔ عینی شاہدوں کے مطابق ایس ایچ او چھترول کرنے والے اہلکاروں کو سرعام یہ ہدایت بھی دیتا رہا کہ ’’ان نوجوانوں کو لتر تو یہاں لگیں لیکن آواز وزیر اعلیٰ ہائوس تک پہنچنی چاہئے‘‘ (روزنامہ ’’جنگ‘‘ 3اکتوبر 2003ء) (2) قلعہ لچھمن سنگھ راوی روڈ میں سی آئی اے کوتوالی کے اہلکاروں نے تشدد کر کے سبزی منڈی کے آڑھتی کو گھر کی دہلیز پر بیوی بچوں کے سامنے ہلاک کر دیا۔ ڈی آئی جی کی ہدایت پر تھانیدار اور دیگر پانچ اہلکاروں کو گرفتار کر کے قتل کا مقدمہ درج کر لیا گیا،رسوائے زمانہ تھانیدار پانچ مر تبہ معطل ہونے اور اس کیخلاف 30سے زائد مقدمات درج ہونے کے باوجود اپنی ملازمت پر برقرار چھاپے مارتا رہا ،جس سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ واقعتاً تھانیدارکو اعلیٰ پولیس افسر کی سرپرستی حاصل ہے۔ جسکے بل بوتے پر اس نے مقتول کے محلہ داروں کو دھمکی بھی دی کہ وہ فلاں بڑے افسر کا آدمی ہے۔ پنجاب میں اس سے قبل بھی بے شمار پولیس تشدد کے روح فرسا واقعات رونما ہو چکے ہیں لیکن آج تک انکی تحقیقات کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا جس کا واضح انجام یہ ہے کہ صوبے کی پولیس مزید خونخوار ہو گئی ہے، بہرحال اس واقعے کی فوری تحقیقات کرائی جائے اور مجرموں کو واقعی عبرتناک سزا دی جائے، وگرنہ معصوم شہریوں کی اپنے محافظوں کے ہاتھوں ہلاکتوں کا سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا۔ (ادارتی نوٹ روزنامہ ’’معاصر روزنامہ‘‘ مارچ 5، 2004ء) (3) پولیس کے تشدد کا حالیہ اور انتہائی بھیانک واقعہ لاہور کے نواں کوٹ انویسٹی گیشن سنٹر میں پیش آیا ہے ،جس میں 6پولیس والوں نے مبینہ طور پر تفتیش کرتے ہوئے 3بچوں کے باپ کو موت کے گھاٹ اتار دیا، اس کی تفصیلات اتنی بھیانک ہیں کہ قلم میں ان کو دہرانے کا یارا نہیں ہے ؟ (معاصر روزنامہ ادارتی نوٹ مورخہ 21اکتوبر 2002ء) (4) ایک اعلیٰ ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 90فیصد پولیس کرپٹ ہے، اس محکمہ میں ایسے ایسے کرپٹ افسران موجود ہیں جنکی ناجائز دولت سے پوری قوم کا قرض اتارا جا سکتا ہے۔ آج کرپشن اپنے نکتہ عروج پر ہے اور پولیس ظلم و عروج کی بلندیوں پر، اس کا اندازہ ان واقعات سے بھی بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ موجودہ حکومت کو چھ ہزار شکایات پولیس کیخلاف وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کو چند ماہ میں مل چکی ہیں ۔ وزیر اعلیٰ ہائوس میں چوہدری پرویز الٰہی پولیس کے سفاکانہ واقعات سن کر آبدیدہ ہو گئے جبکہ پولیس ملازمین کی دھمکیوں اور اختیارات سے مرعوب ہو کر گھر بیٹھ جانے والے یا تباہ و برباد ہوئے پاگل یا مایوس ہو کر کسی بھی قسم کی شکایتی کارروائی نہ کرنے والے لوگ اسکے علاوہ ہیں۔ (کالم عبدالستار عاصم 13نومبر 2003)

کالم کی گنجائش ختم ہوئی، سلسلہ آئندہ کالم کی امید پہ ملتوی کیا جاتا ہے۔

تازہ ترین