• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ موجودہ حکومت کی خوش قسمتی ہے کہ اس وقت کوئی بھی ذمہ دار شخصیت اسے گرانے کے حق میں نہیں ہے مگر ہمیں یہ مان لینا چاہئے کہ ’’کھلاڑیوں‘‘ کی یہ حکومت بالفعل اناڑی ثابت ہو رہی ہے، عوام میں اس کے خلاف نفرت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ اس سے وابستہ امیدیں اگرچہ آدھی ہو چکی ہیں لیکن پھر بھی تیل کی دھار یہ کہتی ہے کہ انہیں مزید مواقع مہیا کیے جائیں۔ جن بھولے بادشاہوں نے ان سے جھوٹی سچی امیدیں باندھ رکھی تھیں انہیں ٹوٹنے کیلئے بہرحال ایک معقول وقت درکار ہے، جو اس حکومت کو ملنا چاہئے۔ البتہ عوامی محرومیوں پر مبنی سیاست و صحافت کا دباؤ تلوار کی صورت ان کے سروں پر منڈلاتا نظر آتا رہنا چاہئے۔ ان کی کوتاہیوں کا پھوٹتا لاوا عوامی نظروں میں آشکار رہنا چاہئے۔دوسرے زاویۂ نگاہ سے ملاحظہ کریں تو جن لوگوں نے یہاں برسوں سے حکمرانی کا سنگھاسن اپنی جاگیر سمجھ رکھا تھا اور جو رعونت اُن میں آ چکی تھی، کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ انہیں بھی اپنی تطہیر و درستی کا موقع مل رہا ہے۔ ذرا وہ دن یاد کریں جب عام آدمی کا ان سے رابطہ کرنا دشوار بنا دیا گیا تھا۔ اُن کی چال ڈھال مغل شہزادوں جیسی ہو چکی تھی۔ جو خادم کے لبادے میں مخدوم و خواجہ بنے بیٹھے تھے۔ طاقتوروں کے سامنے بھیگی بلی بننے کی مشق کرتے ہوئے عامۃ الناس کے سامنے ’’شاہان‘‘ کے رنگ ڈھنگ اپنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے۔ عوام تو رہے ایک طرف ان کے اپنے منتخب ممبرانِ اسمبلی ملاقات کا ٹائم لینے کیلئے سول بیورو کریسی کی چاپلوسی پر بے بس و مجبور ہوتے تھے جبکہ خود ان کے اپنے خاص ممبرانِ اسمبلی و وزراء کا یہ حال تھا کہ کسی شکایت کنندہ کی ان تک رسائی ناممکنات میں شامل ہو چکی تھی۔ ان کے موبائل فونز تک ہمیشہ بند ملتے تھے لہٰذا اب اگر یہ آزمائش کی بھٹی سے کندن بن کر نکلتے ہیں تو اس میں پریشانی کیا ہے؟

اب ہم اصل سوال پر آتے ہیں کہ وطنِ عزیز میں سیاست معتدل اسلوب میں رواں دواں کیوں نہیں ہے؟ دنیا کی دیگر مہذب اقوام جس طرح عوامی بھلائی کے مشن کو لے کر روز بروز آگے بڑھتی ہیں، آخر ہم اُس طرح کیوں نہیں چل پا رہے؟ آخر ہم ہی نے اپنے ملک کو مختلف النوع تجربات کی لیبارٹری کیوں بنا رکھا ہے؟ پوری دنیا میں کہیں بھی اتنی شدید نوعیت کی مذہبی منافرتیں نہیں ہوں گی جتنی ہمارے درمیان ہیں۔ ہم مذہبی بنیادوں پر دہشت و وحشت چھوڑ خون خرابے اور قتل و غارت گری تک چلے جاتے ہیں۔ ماورائے عدالت بے گناہ لوگوں کو ٹھکانے لگانے میں یدِطولیٰ رکھتے ہیں، سانحۂ ساہیوال تو ابھی تازہ ہے، اس نوع کے کتنے سانحات ہیں جو وقفے وقفے سے یہاں رو پذیر ہوتے رہتے ہیں۔ اگر حکومت واقعی شعور کے تابع ہو تو اقوام ترقی کی منازل طے کرتی ہیں انسانی حقوق اور عوامی بہبود کی عملداری ہوتی ہے لیکن اگر بدقسمتی سے شعور آمریت کے تابع ہو جائے تو پھر جس کی لاٹھی ہو گی، بھینس وہی اپنے گھر لے جائے گا۔ وطنِ عزیز کی پوری سات دہائیوں پر محیط تاریخ پر ایک طائرانہ نظر ڈال لیجئے۔ ایسے میں اگر سانحۂ ساہیوال جیسے واقعات وقوع پذیر ہوں گے تو حیرت نہیں ہونی چاہئے۔چند روز قبل درویش کو سابق وزیر داخلہ کے ساتھ کرتار پور گائوں جانے کا اتفاق ہوا جو کرتارپور دربار سے چند قدموں کی مسافت پر ہے۔ وہاں کے غریب رہائشیوں نے اپنی جو داستانِ الم سنائی وہ کتنی افسوسناک ہے۔ ہماری کھڑی فصلیں تباہ کر دی گئی ہیں، زمینیں زبردستی چھین لی گئی ہیں۔ معاوضہ تو دور کی بات ہماری کوئی شنوائی تک نہیں ہو رہی، ہم اپنے مال مویشیوں کو لے کر کہاں جائیں؟ کس کے پاس فریاد کریں؟ ہم جدی پشتی یہاں کے رہائشی ہیں لیکن ہمیں اپنے گھروں میں داخلے کیلئے مصیبتیں پڑی ہوئی ہیں۔چیک پوسٹ پر کھڑے دیگر بہت سے لوگوں نے بھی یہ شہادت دی کہ ہم اگر آدھے فرلانگ کے فاصلے پر واقع دربار صاحب کرتار پور جانا چاہتے ہیں تو روک دیا جاتا ہے کہ آگے کھدائی ہو رہی ہے، آپ نہیں جا سکتے جبکہ درویش نے سابق وزیر داخلہ کے ساتھ تمام راستہ ملاحظہ کیا کہ شرقی گزر گاہ پر ایسی کوئی کھدائی یا مشکل نہ تھی لیکن موقع پر موجود چھوٹے ملازمین چونکہ حکم کے پابند ہوتے ہیں، اس لیے عامۃ الناس کی زندگی اجیرن بنا دی جاتی ہے بلاشبہ یہاں ترقیاتی کام ہو رہا ہے جو کہ دربار کی شرقی جانب ہے غربی جانب تو ایسی کوئی خاص بات نہیں ہے البتہ گاؤں والوں نے جو دکھڑا سنایا، اُسے سن کر سابق وزیر داخلہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ سیدھے بڑے صاحب کے دفتر گئے جو خود تو موجود نہیں تھے البتہ اُن کے نائب کو احساس دلایا کہ اپنے بڑوں سے رابطہ کرو اور لوگوں کو اس اعلیٰ خدمت کے کام سے بدظن کرتے ہوئے علاقے میں نفرت و ہراس پھیلانے سے گریز کرو۔ کرتار پور دربار شریف کو ڈیرہ بابا نانک سرکار سے ملانے کا جو اہتمام کیا جا رہا ہے، اس سے خطے میں خوشی کی جو لہر آئی ہے، اس جذبے کو کسی غیر ذمہ دار افسر شاہی کی بھینٹ نہیں چڑھنا چاہئے۔ ہمارے میڈیا کو بھی اس سلسلے میں موقع پر پہنچ کر غریب رہائشیوں کی شنوائی کرنا چاہئے۔ حق سچ تو یہ ہے کہ اس نوع کے کام سویلینز کے ذریعے اور انہی کی رہنمائی میں ہونے چاہئیں۔

تازہ ترین