• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کراچی کینٹ میں آرمی چیف کی موجودگی میں ایک بس میں دھماکہ ہوا، 7 جاں بحق 50 زخمی ہوئے۔ بم بڑا چالاک نکلا کہ بم کے قریب ہی پھٹ گیا۔ اب دیکھئے کہ کیا کیا نہ پھٹے گا #
یہ کوئی بم ہے یا تحفہ صنم ہے
پھٹا جاتا ہے اُن کے قدموں میں
شاید یہ کراچی کے زخم زخم دہن کی آخری پکار ہے، کہ باقی سب بیکار بس آپ ہی میرے یار ہیں، مجھ کو بچا لیجئے اگر مجھ سے تم کو پیار ہے، کراچی جو ایک شہر تھا لاکھوں میں انتخاب دشمن نے کس طرح سے اسے کر دیا خراب، کراچی گرم سویٹر کی وہ گانٹھ ہے جو کھل گئی تو وطن عزیز کا سارا سویٹر ادھڑ جائے گا۔ پھر جو بارے دگر اقتدار کا ہے خواہش مند وہ کدھر جائے گا، اور ان کا پیارا بلاول حکومت کے لئے زمین کہاں سے ڈھونڈے گا۔ اس لئے سارے سٹیک ہولڈرز فی الفور کراچی کے بخیئے سیئیں ورنہ مبادا یہ ملک بکھر جائے گا، اور اقبال کا یہ شعر کس مقصد کے لئے کہا گیا تھا اور اب ہم کو کس سیاق و سباق میں پیش کرنا پڑ رہا ہے #
اٹھائے کچھ ورق لالے نے کچھ نرگس نے کچھ گل نے
چمن میں ہر طرف بکھری پڑی ہے داستاں میری
یہ جو نئے نجات دہندگان دور و نزدیک سے آئے ہیں یہی کچھ مداوا کریں، کہ پرانوں سے اب پھر نہیں کہہ سکتے کہ دھاوا بولیں،
صدر وزیراعظم و دیگر ان سے عرض ہے #
دل سے ترا نظام جگر تک اتر گیا
دونوں کو اک ادا میں ریزہ ریزہ کر گیا
####
تائیوان میں کسی پر تنقید سوچ سمجھ کر کرنی چاہئے، ورنہ بھاری جرمانہ ہو گا۔
تنقید برائے تنقید تو واقعی جرم ہے بلکہ یہ بیک وقت دو جرم ہیں، ایک تو کسی کو بلاوجہ برا بنانا دوسرے تنقید کو عیب جوئی کا ذریعہ بنانا، ہم تائیوان کی طرف کیوں دیکھیں ہمارے سیاسی غیر سیاسی لوگوں میں تنقید کرنا ایک ایسا مشغلہ ہے جسے غیبت کا درجہ حاصل ہے، سیاست میں تنقید ایک جگت بازی کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ لگتا ہے بیرونی دنیا تبلیغ کے بغیر ہی مسلمان ہوتے جا رہے ہیں اور ہم تنقیدِ بے جا کے ذریعے رہا سہا اسلام بھی کھو رہے ہیں، یہ وزیر امیر مشیر اور ان کے پیران پارسا اور حتیٰ کہ پیرانِ تسمہ پا بھی کسی کو تنقید کے لبادے میں گالیاں دے کے بے مزہ نہیں ہوتے حالانکہ ان کے لب شیریں بھی نہیں، اور بزبان غالب کہنا پڑتا ہے #
ہر ایک بات یہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تمہی کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے
اب تو انٹر نیٹ کو بھی غلط استعمال کر کے کسی کے کاروبار، کردار کو دھبہ لگا کے نقصان پہنچایا جا سکتا ہے، انسانی دماغ کی فطرت ہے کہ وہ اچھی ایجاد سے بھی برے نتائج اخذ کر لیتا ہے، کیونکہ شیطان کا ہر دماغ میں ایک لگژری فلیٹ موجود ہے اور وہ اس میں آ کر ایک آدھا گھنٹہ بھی گزارے تو انسان کو انسان نہیں رہنے دیتا۔ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا تھا اکیلا آدمی شیطان ہے، کسی نے پوچھا دو آدمی؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا وہ دو شیطان ہیں، اس لئے لوگ تین تین رہیں، اس حدیث سے اجتماعیت کے فلسفے کو رواج ملتا ہے کہ تائیوان نے اس لئے تنقید کو روکا ہے کہ ایک شخص نے انٹر نیٹ پر غلط تنقید سے اس کا کاروبار ٹھپ کرا دیا ہے۔
####
مزاح کیا ہے؟ اس پر کون قدرت رکھتا ہے، اس کے لئے کس قدر وسیع علم اور زباندانی کی ضرورت ہے اس سے ہمارے اکثر مزاح نگار واقف نہیں یا تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہیں، اگر مزاح سے کسی کی تیوری چڑھ جائے تو وہ مزاح نہیں تمسخر ہے جو کہ اخلاقیات سے گری ہوئی حرکت ہے، ہم ہرگز مزاح نگار نہیں کیونکہ #
مزاح کو مزح ہی رہنے دو الزام نہ بناؤ
کام اپنا نکال کے کسی اور کا کردار نہ بگاڑو
تنقید میں خواتین یدطولیٰ رکھتی ہیں، اور پنجاب میں آغاز لفظ نی! سے کر کے اگلے کی نیویں اکھاڑ دیتی ہیں کوئی سیدھا جہاز اڑا رہا ہو تو یہ معلوم ہونے پر کہ شوہر اڑا رہا تھا وہ ایک دم تعریف کو تنقید بنانے پر قدرت رکھتی ہیں اور شوہر کے منہ پر کہہ دیتی ہیں تبھی میں حیران تھی کہ جہاز ٹیڑھا ٹیڑھا کیوں اڑ رہا ہے، اور اب تو خواتین کی صحبت میں کثرت کے باعث مرد حضرات بھی عورتوں کی سی تنقید کرنے لگی ہیں، ا ور اس کو مزاح کا رنگ دیتی ہیں، مگر اس میں رنگ کے بجائے بھنگ ڈال دیتے ہیں، اگر مزاح گالی بن جائے تو اس میں مزاح کے ساتھ مزا بھی نہیں رہتا ہے، مزاح دوسروں کو خوش کرنے مسکرانے پر آمادہ کرنے کا نام ہے، اور مزاح ایک ایسی اصلاح بھی ہے کہ چیر پھاڑ کے بغیر آپریشن بھی ہو جاتا ہے کہ مزاح بڑے بڑے ریفارمرز اور پیغمبر علیہم السلام بھی کرتے تھے مگر یوں جیسے ہیرے پر پھول کی پتی گرا دی جائے، اور اس کے جگر تک پہنچ جائے۔ بلبلِ شیراز نے اپنے کسی ناقد محبوب سے کہا تھا #
بدم گفتی و خود مسندم عتاک اللہ نکو گفتی
جولابِ تلخ می زبیدہ لبِ لعلِ شکر خارا
####
ماہرین نجوم نے کہا ہے 2013 میں عسکری قوتوں کا کردار نمایاں رہے گا۔
ماہرین نجوم نہ بھی کہتے تو زمین وطن کہتی کہ جتنا اسلحہ اس کے اوپر اندر جمع کر دیا گیا ہے، وہ ضرور رنگ لائے گا اور پھر کوئی شاعر کوئی خوش ذوق اپنی منڈیر پر چین سے بیٹھ کر کسی بام سے یوں مخاطب نہ ہو سکے گا #
رنگ پیراہن کا خوشبو زلف لہرانے کا نام
موسمِ گل ہے ترے بام پر آنے کا نام
کراچی میں گل و خوں کی بلی چڑھانے سے جو خزاں بداماں بہار آنے کو ہے، اس کا انجام یہ ہو گا کہ لوگ باگ کہیں گے آئی بسنت خوشیاں اڑنت، وزارت داخلہ کو اس لئے داخلہ امور سونپے گئے، کہ وہ جتنا اسلحہ داخل کر سکے کرے کہ ”راجا“ کی آئے گی بارات اور خوب چلیں گے اسلحہ جات
اکیلے میں ہی ناچوں گی کہ
دولہا روئیں گے ساری رات
نجومی اب بڑے مزے میں ہیں کہ انہوں نے حالات پر نظر رکھ لی ہے، اور اپنے زائچے بند کر دیئے ہیں، اسی طرح تعویز لکھنے والوں نے بھی صرف دشمن کو برباد کرنے کے تعویز ہی جاری رکھے ہوئے ہیں خیر کے تعویز دیناترک کر دیئے ہیں کیونکہ موت ہی گلیوں میں گشت کر رہی ہے، بچانے والوں اور مارنے والوں میں جب فرق نہ رہے، تو زمین پر بے گناہ باقی نہیں رہتے، اور گناہ گار گلچھڑے اڑاتے ہیں، قوم کے گناہ گاروں کو کراچی کے قاتلوں کو بلوچستان میں ظالموں کو اور شہر کے عالموں کو کوئی خطرہ نہیں کہ وہ خود خطرہ ہیں، قائد و اقبال یاد آتے ہیں کہ ان کے مطلوبہ پاکستان کو خاک و خون کا غسل دے کر دفنا دیا گیا ہے، جب سے وہ گئے ہیں یہ حال ہے کہ #
ویراں ہے میکدہ خم و ساغر اداس ہے
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے، دن بہار کے
####
تازہ ترین