• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

منور احمد خان

کہتے ہیں اگرکسی ملک کی افرادی قوت کا اندازہ لگانا ہو تو، اس ملک کے نوجوانوں کی تعداد کا اندازہ کرو۔ نوجوان بلاشبہ کسی بھی ملک کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہم اپنے ملک کے نوجوانوں کو وہ مواقع فراہم ہی نہیں کرتے، جہاں ان کی صلاحیتوں کو درست سمت میں استعمال کیا جاسکے۔ ہمارا آج کا نوجوان جن مسائل سے دوچار ہے، اسے معمولی سمجھ کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے، کیوں کہ ملکوں کی ترقی کا انحصار نسلِ نو پر ہوتا ہے۔ 80 فی صد نوجوانوں کو دوران تعلیم ہی اس بات کا پتا ہوتا ہے کہ ڈگری حاصل کرنے کے بعد بھی ملازمت کا خواب اتنی آسانی سے شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا، ایک طویل جنگ ہے،جو تعلیمی مدارج طے کرنے کے بعد لڑنی پڑے گی، یہی صورت حال اسے نہ صرف مایوسی کا شکار کر دیتی ہے بلکہ اس کی کار کردگی اثر انداز ہوتی ہے۔ ہم صدیوں سے اپنے تعلیمی نظام کو، رو رہے ہیں، لیکن اسے ٹھیک کرنے کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اُٹھاتے۔ نہ جانے کتنے ہی ذرخیز ذہن مسائل، الجھنوں کو سلجھانے کی جدو جہد میں مصروف ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ معاشرہ نسل نو کے مسائل سے نا واقف ہے، ان مسائل کا ذکر بھی ہوتا ہے اور حل کرنے کی باتیں بھی، مگر افسوس کے وہ باتیں محض باتیں ہی رہ جاتی ہیں، ان پر عملی اقدام نہیں کیا جاتا۔ ہمارے معاشرے میں ویسے ہی کونسلنگ کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے۔ جس کی وجہ سے اکثر نوجوانوںکو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ انہیں کس طرح اپنے مسائل کو حل کرنا ہے۔ ایسی کون سی تدبیر کرنی ہے، جس کی وجہ سے وہ زندگی میں مثبت طریقے سے آگےبڑھ سکیں۔ اس کے لیے سب سے زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ آپ کو پتا ہوکہ زندگی میں کس قسم کے مسائل کا سامنا ہے۔ اس بات کا تعین کرنا بہت ضروری ہوتا ہے، نوجوانوں کی اکثریت اس بات سے ہی انجان ہوتی ہے کہ ان کے مسائل ، ان کی الجھنیں کیا ہیں، وہ اس نوعیت کے ہیں کہ انہیں فوری طور پر حل کیا جا سکے یا وقت طلب ہیں۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ یہ بات سمجھی جائے کہ ہر انسان کو زندگی میں تین طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اول وہ مسائل جن کا حل ہماری جلد بازی کسی طرح نہیں حل کرسکتی اور وہ وقت کے ساتھ ساتھ خود حل ہوجاتے ہیں، ہمیں ان مسائل کو وقت دینا ہوتا ہے۔ دوسرے وہ مسائل جن کو حل کرنے کے لیے اپنی انرجی ضائع نہیں کرنی چاہیے، کیوں کہ ان کا حل آپ کے ہاتھ میں نہیں ہوتا۔ ان مسائل کو ہمیں جوں کا توں قبول کرنا پڑتا ہے۔ مثلاً ملازمت کے مسائل نہیں حل ہورہے، آپ کے ہاتھ میں کوشش کرنا ہے، آخری حد تک کوشش کریں اور نتائج کی ذمے داری اللہ پر چھوڑ دیں۔ تیسرے قسم کے مسائل وہ ہیں، جو معاملہ فہمی اور تدبیر سے حل ہوسکتے ہیں، جن کا حل آسان ہوتا ہے، لیکن پریشانی، میں وہ حل نظر نہیں آتا، جو نوجوان یہ جاننے کی اہلیت رکھتے ہیں کہ ٓپ کے مسائل کا تعلق کس اسٹیج سے ہے، تو یقین کریں آپ کو مسائل اتنا پریشان نہیں کریں گے اور آپ زیادہ توجہ کے ساتھ زندگی میں آنے والی پریشانیوں کا سامنا کرسکتے ہیں۔ ان تین مراحل کو اگر آپ سمجھ جائیں گے، تو یہ اہلیت بھی اپنے اندر پائیں گے کہ آیا آپ کے مسائل فوری طور پر حل طلب ہیں یا ان کو وقت دینا ہے۔ اس طرح سے آپ اپنی شخصیت میں بھی ایک نمایاں فرق محسوس کریں گے۔ نوجوانوں کا دوسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ جب ملازمت کے لیے جاتے ہیں تو انہیں نوکری نہیں ملتی، یہی وجہ ہے کہ تعلیم یافتہ نوجوان ٹیکسیاں،رکشے اور پرائیوٹ گاڑیاں چلانے پر مجبور ہیں۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کو اعتماد بخشنا ہوگا، انہیں یہ یقین دلانا ہوگا کہ وہی ملک کے معمار ہیں، اگر وہ کمزور پڑگئے، تو ملک بھی کمزور ہوجائے گا۔ جب ہم اپنے نوجوانوں کے لیے ایک ایسی سڑک قائم کرنے میں کام یاب ہوجائیں گے، جہاں وہ بآسانی چل سکیں، کام یابی کے مراحل طے کرسکیں تو ہمارے ملک کو بھی ترقی کر نے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔

تازہ ترین