• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’نور محل‘‘ جسے پاکستان کا تاج محل بھی کہا جاتا ہے

بہاولپور، جو تقسیمِ ہند سے پہلے ایک ریاست تھی، تاریخی عمارات، یادگاروں اور باغات کے خزانے کی مالک ہے، جن کے بارے میں آپ نے کم کم ہی سُن رکھا ہوگا۔ یہ شہر، دریائے ستلج کے بائیں کنارے پشاور کراچی ریلوے لائن کے ساتھ اور چولستان صحرا کے کنارے پر واقع ہے۔ صحرائی علاقے کے ساتھ یہاں سرسبز باغات بھی آپ کی نظروں کو تسکین پہنچاتے ہیں، جبکہ یہاں کے محلات کی شان و شوکت آپ کو مرعوب کردیتی ہے۔ یہ شہر ثقافت اور روایات کے حوالے سے انتہائی امیر قرار دیا جاتا ہے۔

سابقہ ریاست بہاولپور کئی شاہکار عمارتیں اپنے اندر سموئے ہوئے ہے، جن میں بہاولپور کا مقبول ترین صادق گڑھ پیلس، عباسی مسجد، نامور دراوڑ قلعہ، اوچ شریف، بہاولپور کی مرکزی لائبریری، عباسی مسجد، گلزار محل، دربار محل وغیرہ قابلِ ذکر ہیں، جبکہ شاندار نور محل بھی کسی طور نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

تاج محل کے بارے میں تو آپ سب نے یقیناً سنا ہو گا کہ مغل بادشاہ نے اپنی محبت نور جہاں کی وفات کے ایک سال بعد اس کی یاد میں اس نے آگرہ میں یہ محل تعمیر کروایا تھا، جو مسلم آرٹ کا شاہکار ہے۔ بالکل ایسے ہی نواب آف بہاولپور نواب صادق محمد پنجم نے اپنی ملکہ کی محبت میں ایک محل تعمیر کرایا اور اس کا نام ملکہ کے نام سے منسوب کرکے اسے ’نور محل‘ کا نام دیا۔

نور محل، نو کلاسیکی طرز پر ایک اطالوی شاطو (جاگیرداروں کی دیہاتی رہائش گاہ) کی طرح 1872ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔ تین سال کی مسلسل محنت کے بعد یہ محل 1875ء میں پایۂ تکمیل کو پہنچا۔ اس کی تعمیر پر اس وقت 12لاکھ روپے کی خطیر رقم خرچ کی گئی تھی۔ محل کا آرکیٹیکچرمسٹر ہیننان نے ڈیزائن کیا، جن کا تعلق برطانیہ سے تھا۔ اطالوی طرز تعمیر کا شاہکار یہ شاندار اور پُرتعیش محل 44ہزار 6سو مربع فٹ پر پھیلا ہوا ہے۔ دال ماش اور چاول کی آمیزش سے بنے مسالے سے تعمیر شدہ اس نور محل میں آنے والوں میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں، جو بہاولپور ریاست کی باتیں سُن کر امیر ریاست کی پُرشکوہ نشانیاں دیکھنے آتے ہیں۔

روایت ہے کہ اتنی محنت، لگن اور محبت سے بنائے گئے محل میں ملکہ اور نواب آف بہاولپور نے صرف ایک رات قیام کیا تھا۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ محل کے ساتھ قبرستان ہونے کی وجہ سے ملکہ نے اس محل میں نہ رہنے کا فیصلہ کیاجبکہ کچھ کا کہنا ہے کہ ویرانے میں ہونے کی وجہ سے ملکہ نے اس محل میں رہنا پسند نہ کیا۔

محل کے اندر چھتوں پر خوبصورت نقش ونگار، بہاول پور ریاست کے حکمران کی منفرد آرٹ میں دلچسپی ظاہر کرتے ہیں۔ محل میں ایک مرکزی ہال ہے، جس میں نواب آف بہاولپور کی تصاویر کے علاوہ ریاست بہاولپور کے دور میں استعمال ہونے والے اسٹام پیپر اور ڈاک میں استعمال ہونے والے ٹکٹ کے علاوہ مختلف ادوار میں ریاست بہاولپور کو مختلف ممالک سے ملنے والے میڈلز اور تاریخی تلواریں رکھی گئی ہیں۔ ’نور محل جیسے تاریخی مقامات جہاں ہمیں اپنی عظیم تاریخ کی یاد دلاتے ہیں، وہیں ہماری نئی نسل کو تاریخ سے روشناس کرانے کا ایک ذریعہ بھی ہیں‘۔

دو منزلوں پر مشتمل اس محل کے لیے فرنیچر اور فانوس اٹلی سے منگوائے گئے تھے، فانوسوں کی تعداد تین تھی، جن پر روشندانوں سے روشنی پڑتی تو پورا دربار ہال جگمگا اُٹھتا تھا۔ فانوسوں میں لگے ہیرے چوری کرنے کی کوشش کے دوران یہ فانوس گرنے سے تباہ ہوگئے۔ ان کے گر جانے سے جو نشان پڑے، وہ اب بھی موجود ہیں۔ ڈیڑھ سو سال سے زیادہ پرانا فرنیچر، کرسیاں اور صوفے آج بھی قابل استعمال ہیں۔

نور محل میں وہ پرانا پیانو اپنی اصل حالت میں اب بھی موجود ہے، جو نواب نے اپنی ملکہ نور کے لیے منگوایا تھا اور وہ آئینہ بھی جو بیلجیم سے درآمد کیا گیا تھا۔ٹھنڈک اور ہوا کے لیے اونچی چھتوں اور روشندانوں کے علاوہ محل کی بنیادوں میں سرنگوں کا ایک جال بچھایا گیا، جس میں پانی چھوڑا جاتا تھا اور مخصوص سمتوں پر بنے روشندانوں سے ہوا گزرتی ہے، جو پانی کی ٹھنڈک لیے فرش میں نصب جالیوں سے محل کے اندر پہنچتی تھی۔ یہ سرنگیں اب بھی موجود ہیں۔ البتہ اب ان میں پانی نہیں چھوڑا جاتا۔

چھت کے سامنے والے ایک حصے میں کسی مصور نے ان حالات کی منظر کشی کرنے کی کوشش کی ہے، جب بنوعباس کا خاندان بغداد سے سمندر کے راستے برِصغیر پہنچا اور بہاولپور ریاست قائم کی۔

1906ء میں نواب بہاول خان نےاس محل کے اندر ایک مسجد تعمیر کروائی، جس پر 20ہزار روپے لاگت آئی۔ اس مسجد کا نقشہ، ایچی سن کالج میں تعمیر شدہ مسجد جیسا ہے۔ ریاست بہاولپور کے دور میں یہ محل سرکاری تقریبات کا بھی مرکز رہا۔ 1890ء میں برطانوی پرنس البرٹ وِکٹر نے اس عمارت میں بطور مہمان رہائش اختیار کی۔ 1897ء میں کوئین وکٹوریا کی 60ویں سالگرہ کے موقع پر یہاں عدالت لگائی گئی تھی۔ 1903ء میں نواب آف بہاولپور نواب بہاول خامس کی دستار بندی کی تقریب بھی اس محل میں ہوئی۔ 1933ء میں برطانوی حکومت اور بہاولپور ریاست کے الحاق کے موقع پر یہاں ایک یادگار فنکشن کا انعقاد کیا گیا تھا۔ 1934ء میں ریاست بہاولپور کی حکومت نے محل کے لان میں 10سالہ جوبلی تقریبات کا جشن منانے کا اعلان کیا۔ 1955ء تک یہ محل صرف سرکاری مہمان خانے کے طور پر استعمال ہوتا رہا۔ 1999ء میں اس محل کو پاکستان آرمی کے حوالے کر دیا گیا، پاکستان آرمی نے اس خوبصورت محل کی تاریخی اور شاندار شان و شوکت کو بحال کرنے میں دو سال لگائے، تب جاکر یہ تاریخی عمارت اپنی اصل شکل میں بحال ہوئی، جو آج سیاحوں اور یہاں آنے والوں کو نظر آتی ہے۔ اب یہ محل، پنجاب کے تاریخی ورثے کا حصہ ہے۔

تازہ ترین