• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

2018 کے اختتام پر ملک میں مہنگائی کی شرح 6ماہ سے 6.21فیصد تھی جو نئے سال کے پہلے ہی مہینےمیں بڑھ کر7.19فیصد پر پہنچ گئی یہ بات اس وجہ سے زیادہ تشویش کا باعث ہے کہ اگر موجودہ صورت حال برقرار رہی تو آنے والے مہینے عوام خصوصاً تنخواہ دار طبقے کے لئے مزید پریشانی کا باعث بن جائیں گے۔ ایک رپورٹ کے مطابق مالی سال2018-19 کے جولائی تا دسمبر کے پہلے6ماہ میں اوسطاً مہنگائی کی شرح 6.21فیصد رہی تاہم جنوری میں افراطِ زر کی شرح میں ایک فیصد اضافہ ہوا۔ پاکستان بیورو آف شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق کھانے پینے کی اشیاءاور مشروبات میں 1.58فیصد، غیر تلف پذیر اشیاء کی قیمت میں 4.71، کپڑوں اور جوتوں کی قیمت میں 7.17، بجلی گیس پانی 11.89، علاج معالجہ 8.40، ٹرانسپورٹ14.96، مواصلات 7.79، تعلیم 10فیصد اور متفرق اشیاء کی قیمتوں میں 8.96فیصد کا اضافہ ہوا ہے یہ صورت حال اگربرقرار رہی تو اس پر قابو پانا بڑی حد تک ناممکن ہو جائے گا جس کا ادراک کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے کیونکہ آنے والے دو تین ماہ اس لئے زیادہ سخت ہیں کہ اس دوران رمضان المبارک اور عید مہنگائی کا نیا طوفان اپنے ساتھ لائیں گے۔ ماہرینِ اقتصادیات بجا طورپر اس صورت حال کی بڑی وجہ ڈالر کی قیمت میں روپے کے مقابلے میں ریکارڈ اضافہ قرار دیتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ ہی ہم گزشتہ مہینوں کے دوران ہونے والے توانائی کے نرخوں میں اضافے کو کسی طرح نظر انداز نہیں کر سکتے جبکہ گرمی کے سیزن سے پہلے بجلی کی نرخوں میں مزید اضافے کی بازگشت بھی سنی جار ہی ہے، مزید برآں ابھی منی بجٹ کے اثرات قیمتوں پر پڑنا شروع ہوئے ہیں اور مالی سال2019-20 کے بجٹ کی تیاریاں بھی شروع کردی گئی ہیں۔ کوشش یہ کی جانی چاہئے اور ایسا ممکن بھی ہے کہ غیر ضروری اور غیر تعمیری حکومتی اخراجات میں بلاامتیاز کٹوتی کی جائے اور اس کے ثمرات تنخواہوں اوراجرتوں میں اضافے اور مہنگائی کنٹرول کرنے کے اقدامات کی صورت میں ظاہر ہونے چاہئیں۔

تازہ ترین