• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پھر سے جنوبی پنجاب کے سرائیکی صوبے کا معاملہ چھڑا ہے اور جونہی جنوبی پنجاب کو تقسیم کرنے کی بات چھڑتی ہے تو طرح طرح کے نیم حکیم اپنے اپنے نسخے لے کر میدان میں اُتر آتے ہیں۔ مسلم لیگ نواز نے ایک نہیں دو صوبوں کا بل قومی اسمبلی میں پیش کر دیا ہے۔ تحریکِ انصاف بھی اپنے انتخابی وعدے کی خفگی مٹانے کے لیے جنوبی پنجاب کے سیکرٹریٹ میں پناہ لیتی نظر آتی ہے، چونکہ اسے خدشہ ہے کہ جونہی سرائیکی صوبہ بنا، اس کی پنجاب میں حکومت ختم ہو سکتی ہے۔ جبکہ پیپلز پارٹی کا ایک قانونی مسودہ پارلیمنٹ سیکرٹریٹ کی کسی دراز میں دھول چاٹ رہا ہے۔ایک سرائیکی صوبے کی بات کرو تو وہ لوگ بھی جو ہمیشہ مضبوط مرکز کے داعی اور صوبائی خودمختاری کو قومی اتحاد کے لیے ’’زہرِ قاتل‘‘ سمجھتے ہیں، ہر انتظامی ڈویژن کو صوبہ بنانے کی ٹمی لگا دیتے ہیں۔ جہاں بہت سوں کو لسانی و نسلی بنیادوں پر صوبوں کی تشکیل یا پھر سرائیکی صوبہ کی تجویز پر ’’لسانیت پسندی‘‘ کی بُو آنے لگتی ہے، وہیں ہمارے اپنی ہی مادری زبان سے بیگانہ پنجابی سورمائوں کو پنجاب کی تقسیم کا مروڑ ایسا اُٹھتا ہے کہ وہ سرائیکی کی اپنی منفرد شناخت کو پنجابی میں ہڑپ کیے جانے پہ اصرار کرتے ہیں، جیسے انگریز ایک عرصہ تک آئرش لوگوں کے ساتھ کرتے آئے تھے۔ جس طرح نوآبادیاتی دور میں بیرونی حملہ آوروں نے فارسی اور انگریزی کو مسلط کیا تھا اور برصغیر کی مغلوب قوموں کی تاریخی نشوونما کو روکا تھا اور ایک بیگانہ کلچر مسلط کیا تھا، اُسی طرح پاکستان بننے پر یہاں بسنے والے لوگوں کے ساتھ نئے حکمرانوں نے کیا۔ حالانکہ 1940 کی قراردادِ لاہور میں مسلم اکثریتی علاقوں کی متنوع اکائیوں کی خودمختاری و آزادی کو تسلیم کرتے ہوئے مختلف علاقوں کی ریاستوں کا ذکر کیا گیا تھا جن میں وفاق اور نیم وفاق کی گنجائش موجود تھی (مگر اس کا ذکر نہ تھا)۔ لیکن پاکستان بنتے ہی مسلم اکثریتی ریاست کو اسلامی ریاست قرار دے کر یہاں کی کثیر لسانی، نسلی اور قومیتی وحدتوں پر ایک نہایت مرکزی وائسرائے یا گورنر جنرل کا نوکرشاہانہ ڈھانچہ مسلط کر دیا گیا۔ اب بھی مردِ آہن کے کسی صدارتی نظام کی پھر سے کھجلی ہو رہی ہے۔ نو آزاد مملکت کی تعمیر کے لیے دو نقطۂ نظر سامنے آئے۔ ایک یہ کہ پاکستان ایک کثیر قومیتی، کثیر مذہبی اور کثیر لسانی ملک ہے، لہٰذا کثرت میں وحدت کا جمہوری، وفاقی اور شراکتی راستہ اختیار کیا جائے کہ سبھی لوگ اور قومیتیں پاکستان کی مساوی شراکت دار بنیں اور کوئی بیگانہ ہو نہ محروم رہے۔ دوسرا نقطۂ نظر تھا کہ پاکستان اسلام کی تجربہ گاہ ہے، ہم سب مسلمان ہیں اور ایک قوم ہیں اور ہماری ایک قومی زبان (اُردو) اور ایک مضبوط مرکز ہو اور جو اس سے ہٹے وہ حب الوطنی کے دائرے سے خارج۔ اس سوچ کے خلاف پہلے پہل اُردو کو مسلط کیے جانے کے خلاف بنگالیوں نے بنگالی کو بھی قومی زبان بنائے جانے کی تحریک چلائی، جسے کچل دیئے جانے پر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد رکھ دی گئی۔ اسی طرح مغربی پاکستان میں بلوچوں، سندھیوں اور پشتونوں کی قومی مانگوں کو کچلتے ہوئے وَن یونٹ کا رولر پھیر دیا گیا اور مشرقی پاکستان کی اکثریت کو مساوات (Parity) کے بہانے مغربی بازو کے برابر قرار دے دیا گیا۔

بات دور تک چلی گئی ہے۔ اب پھر سرائیکی صوبے کی تشکیل کی طرف آتے ہیں۔ مسلم لیگ نواز جو بنیادی طور پر وسطی پنجاب اور جی ٹی روڈ کی پارٹی ہے نے دو صوبوں کی قراردادیں پاس کر کے اور بل پیش کر کے ایک بڑی شرارت کی ہے کہ بہاولپور صوبے اور سرائیکی صوبے والے آپس میں لڑ پڑیں۔ بہاولپور صوبہ کا مطالبہ انگریزی دور کی شہزادگان کی ریاستوں کی بحالی کا جاگیردارانہ مطالبہ ہے جس کی حمایت کبھی تین تحصیلوں کے مہاجر اور پنجابی آبادکاروں میں نظر آئی اور ختم ہو گئی۔ بہاولپور ریاست پنجاب اسٹیٹس ایجنسی کا حصہ تھی جو 1802-1955 تک برقرار رہی۔ چونکہ دیگر ریاستوں کی طرح اسے بھی وَن یونٹ میں ضم کر دیا گیا تھا، اس لیے اس کی بحالی کا جواز گھڑا گیا۔ وہ تمام لوگ جو ہر ڈویژن کو صوبہ میں بدلنے کا میونسپل نظریہ رکھتے ہیں وہ بہاولپور ڈویژن کو صوبہ بنانے کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ ایک انتظامی نوکر شاہانہ نظریہ ہے جو قومی وحدتوں اور اکائیوں کو میونسپل یا مقامی حکومت کے مترادف سمجھتا ہے۔ بہاولپور اور ملتان جڑواں بھائی ہیں اور ایک ہی سرائیکی وسیب کا حصہ ہیں اور سرائیکی وسیب جنوبی پنجاب، جنوبی خیبرپختون خوا، شمالی سندھ اور مشرقی بلوچستان تک پھیلا ہوا ہے۔ اسے جنوبی پنجاب کا نام دینا سرائیکی وسیب کی اپنی شناخت کو تحلیل کرنے کے مترادف ہے جیسا کہ این ڈبلیو ایف پی کی صورت میں خیبرپختونخوا کے ساتھ کیا گیا۔ یہاں بولی جانے والی بولیوں کو گریئرسن اور ایک روسی محقق نے لہندی زبان کا نام دیا ہے جو انڈویورپین، انڈوایئرین، شمال مغربی سرائیکی زبان ہے جو اپنی آوازوں (Phonology) اور بڑی حد تک گرامر میں سندھی کے قریب ہے اور پنجابی سندھی کی درمیانی کڑی ہے۔ سندھی بھی اسے سمجھتے ہیں اور پنجابی بھی، لہٰذا تضاد کیسا؟ انگریز کے دور سے پنجابی آبادکاری اور برصغیر کی تقسیم سے مہاجروں کی آمد سے سندھ کی طرح سرائیکی علاقوں کا سماجی، ثقافتی و معاشی نقشہ بدل گیا جس سے مقامی لوگوں میں احساسِ محرومی بڑھ گیا۔ پھر تخت لاہور کا ایسا غلبہ ہوا کہ سرائیکی وڈیروں اور پیروں کو پنجابی بالادستوں کی پناہ لینا پڑی کہ اپنی سرائیکی رعایا کو مغلوب رکھ سکیں۔ یہ وڈیرے سرائیکی سرائیکی کا نعرہ اس لیے لگاتے رہے کہ بالادست پنجابیوں سے اپنا حصہ طلب کر سکیں۔ بھلے سرائیکی وسیب کیسا ہی محروم اور پسماندہ رہے۔ اگر سرائیکی صوبہ کے حامی بہاولپور کو نئے صوبے کا دارالحکومت مان لیں تو سرائیکیوں کو تقسیم کرنے کی شاطرانہ چال کو ناکام کیا جا سکتا ہے۔ ویسے بھی بہاولپور صوبہ قابلِ عمل نہیں۔ سرائیکی صوبہ قابلِ عمل بھی ہے اور قومی وحدتوں میں جو عدم توازن پنجاب کی اکثریتی آبادی کے باعث بنتا ہے وہ بھی دُور ہو سکتا ہے۔ فی الحال اور صوبوں کی بات قومی وحدتوں کو منظور نہیں، لہٰذا اُنہیں ابھی چھیڑنا بھڑوں کے چھتے کو چھیڑنا ہوگا۔ ابھی تو صوبائی خودمختاری اور وفاق کو بچانے کا معاملہ درپیش ہے اور مختلف قوتیں اٹھارہویں ترمیم پر حملہ آور ہو گئی ہیں۔ صوبائی خودمختاری اور وفاق تب تک مستحکم نہیں ہوگا جب تک تمام انتظامی و عدالتی ادارے صوبوں کو منتقل نہیں ہوتے اور وفاق سب قومی وحدتوں کا مساوی اور شراکتی قدردان نہیں بن جاتا۔

تازہ ترین